افتخار راغبؔ
مصیبت میں زمیں بھی کم نہیں ہے
سو بے چینی کہیں بھی کم نہیں ہے
…
تمھارے دل میں کیا ہے کچھ تو بولو
تمھارا کچھ نہیں بھی کم نہیں ہے
…
نہیں جھکتا کسی کے خوف سے دل
یہ ننھی سی جبیں بھی کم نہیں ہے
…
گماں میرا رہے ہردم سلامت
اُنھیں مجھ پر یقیں بھی کم نہیں ہے
…
مشامِ جاں معطر اور دل بھی
یہ شاخِ یاسمیں بھی کم نہیں ہے
…
کسے معلوم تھا کھُل کر رہے گا
تمھاری آستیں بھی کم نہیں ہے
…
تمھیں ہے خوف ایٹم بم کا اتنا
یہ آہِ آتشیں بھی کم نہیں ہے
…
چلو کہہ دو کہ ہے تم سے محبت
نہیں ہے تو نہیں بھی کم نہیں ہے
…
ستم سہہ کر بھی دل رہتا ہے راغبؔ
کہ وہ ظالم حسیں بھی کم نہیں ہے
تبصرے بند ہیں۔