بانڈز: تعارف اور شرعی جائزہ

شاد محمد شاد

تعارف:

موجودہ دور میں مالیاتی دستاویزات(Monetary Papers) کے اندر بانڈز (Bonds) کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ بانڈ ایسے دستاویز کو کہتے ہیں جو مقروض کی طرف سے قرض دینے والے کے لیے جاری کیا جاتا ہے، جس میں مقروض کی طرف سے یہ اقرار ہوتا ہے کہ  میں نے فلاں شخص سے اتنی رقم لی ہےاور میں یہ رقم فلاں وقت میں واپس کرنے کا پابند ہوں۔ اس سے بانڈز جاری کرنے والا مقروض  اور رقم دیکر بانڈز لینے والا قرض خواہ  کہلائےگا۔ بانڈز کبھی حکومت   اپنے بجٹ کے خسارے  کو پورا کرنے کے لیےجاری کرتی  ہے اور کبھی کوئی کمپنی سیال اثاثے کے حصول کے لیے جاری کرتی ہے، جبکہ بانڈز لینے والے عموما  عام لوگ اور عوام ہوتی ہے۔ آج کل ہر قسم کے بانڈ پر قرض خواہ کو نفع یا سود بھی ملتا ہے اور بانڈز ایک قسم کی قابلِ تبادلہ چیز سمجھی جاتی ہے، کیونکہ سیکنڈری مارکیٹ (Secondary Market) میں بانڈزکی کم یا زیادہ قیمت پر خریدوفروخت بھی ہوتی ہے۔

اقسام:

آج کل مختلف نام اور مختلف قسم کے بانڈز جاری کیے جاتے ہیں، بعض میں سود دینے کا طریقہ ایک طرح کا ہوتا ہے اور بعض میں سود کی ادائیگی  کا طریقہ الگ ہوتا ہے، بعض قابلِ تحویل ہوتے ہیں اور بعض ناقابلِ تحویل۔ خلاصہ یہ ہے:

1۔ کوپن بانڈز(Coupon Bonds):

اس کو عربی میں ”سندات ذات کوبون“کہتے ہیں۔ اس قسم کے بانڈز میں بانڈز ہولڈر کے لیے متعین نفع طے کرلیا جاتا ہے۔  اگر ایک سال کے لیے بانڈزلیے ہیں تو ہر مہینے، یا چھ مہینے بعد یا بالکل آخر میں متعین نفع بانڈز ہولڈر کو دیدیا جاتا ہے۔ مثلا  بانڈ پر ایک لاکھ روپے کی قیمت لکھی ہے تو بانڈ حاصل کرنے والا ایک لاکھ روپے دیکر بانڈ لیتا ہے اوربعد اپنی اصل رقم کے ساتھ نفع اور سود بھی وصول کرتا ہے۔

2۔ زیرو کوپن بانڈز(Zero Coupon Bonds):

اس کو عربی میں ”سندات ذات الکوبون الصفري“ كہتے ہیں۔ اس قسم کے بانڈز میں  سود دینے کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ  بانڈ لینے والابانڈکو اپنی اصلی قیمت(Face value) سے کم میں لیکر آخر میں پوری قیمت وصول کرلیتا ہے۔ مثلا اگر بانڈ کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے تو اُسے نوے ہزار میں خریدلیا جاتا ہے اور آخر میں بانڈ ہولڈر  نوے ہزار کے بجائے ایک لاکھ روپے وصول کرلیتا ہے۔ (فقہ البیوع 1/354)

3۔ قابلِ تحویل بانڈز(Convertible Bonds):

اس سے وہ بانڈز مراد ہے جن کوبانڈ ہولڈر ایک مخصوص مدت کے اندر  شیئرز یا دوسرےمالیاتی دستاویزات میں تبدیل کرسکتا ہے۔

4۔ ناقابلِ تحویل بانڈز(Non-Convertible Bonds):

ناقابلِ تحویل بانڈز میں بانڈ ہولڈر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ بانڈز کو شیئرز یا دوسرے دستاویزات میں تبدیل کرے۔

5۔ انعامی بانڈز(Prize Bonds):

اس قسم کے بانڈزمیں بانڈز ہولڈر کو سود دینے کا طریقہ کار یوں ہوتا ہے کہ بانڈز جاری کرنے والا(حکومت )انعامی بانڈز لینے والے ہر شخص سے انفرادی طور پر سود(انعام)دینے کا معاہدہ نہیں کرتا، لیکن انعامی بانڈز لینے والے تمام افراد کے ساتھ بحیثیت مجموعی یہ بات طے ہوتی ہے کہ  حکومت ان میں  بذریعہ قرعہ اندازی انعام تقسیم کرےگی اور بانڈز ہولڈر بذریعہ عدالت بھی بانڈز جاری کرنے والے کو انعام دینے پر مجبور کرسکتا ہے۔

بانڈز اور شیئرز میں فرق:

1۔ بانڈز قرض کی نمائندگی کرتے ہیں، لہذا بانڈز لینے والا قرض خواہ اور بانڈز جاری کرنے والا مقروض کہلاتا ہے، جبکہ شئیرز کمپنی کے جامد اور سیال اثاثوں میں ایک متناسب حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے شیئرز لینے والے قرض خواہ نہیں ہوتے، بلکہ کمپنی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

2۔ بانڈز پر بہرصورت نفع ملتا ہے، خواہ بانڈز جاری کرنے والے کو نفع ہو یا خسارہ، جبکہ شیئرز پر صرف اس وقت نفع ملتا ہے جب کمپنی کو بھی نفع حاصل ہوچکا ہو، ورنہ نہیں۔

3۔ بانڈز ہولڈر ز کوکمپنی کے سالانہ اجلاس(Annual General Meeting)میں شرکت کا حق حاصل نہیں ہوتا، جبکہ شیئرز ہولڈرز کو یہ حق حا صل ہوتا ہے۔

4۔ جب کمپنی تحلیل ہوجائے تو شیئرز ہولڈر ز سے پہلے بانڈز ہولڈرز کو ان کی رقم دی جاتی ہے اس کے بعد بقیہ قرض و دیون ادا کرکے پھر شیئرز ہولڈرز کو ان کا حصہ دیدیا جاتا ہے۔

5۔ بانڈز کے اختتام کی  ایک مقررہ تاریخ ہوتی ہے جب وہ تاریخ  آتی ہے تو بانڈز ہولڈر بانڈز واپس کرکے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے، جبکہ شیئرز میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب ایک مرتبہ شیئرز خرید لیے جائیں تو اس کے بعد شیئرز واپس کرکے کمپنی سے اپنی رقم واپس نہیں لی جاسکتی، البتہ اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔

شرعی حکم:

بانڈز خریدنا، اس پر نفع حاصل کرنا  یا اس کو بیچنا سب ناجائز ہے، کیونکہ بانڈز لینا کوئی خرید وفروخت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ قرض کا معاملہ ہے اور قرض دیکر اس پر نفع حاصل کرنا حدیث کی رُو سے سود کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح بانڈز کوکم یا زیادہ قیمت پر آگےکسی اور کو  فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ قرض(دین)کی بیع ہے جو کمی زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا تو جائز نہیں ہے اور کمی، زیادتی کے بغیراصل رقم کے عوض ایسے شخص کو فروخت کرنا جو بانڈز ہولڈر کا مقروض نہ ہو، یہ بھی جائز نہیں ہے۔ جس کو فقہی اصطلاح میں ”بیع الدین من غیر من علیہ الدین “کہتے ہیں۔ (بدائع الصنائع، 5/ 148)

اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنی ایک قرارداد میں تمام بانڈز کو قرض قراردیکر ان کے جاری کرنے، خریدنے اور تبادلہ کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي التابع لمنظمة المؤتمر الإسلامي 1 – 174 (ص: 90) قرار رقم: 60 (11/6) بشأنالسندات)

بعض دوستوں کو یہ شبہ ہے کہ پرائز بانڈز میں ہر بانڈ ہولڈر کو انعام دینے کی شرط نہیں ہوتی، لہذا یہ جائز ہونا چاہیے، کیونکہ یہ مشروط نفع نہیں ہے، لیکن یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ اگرچہ ہر بانڈ ہولڈر کے ساتھ یہ شرط اور معاہدہ نہیں ہوتا، لیکن بحیثیت مجموعی سب کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے اورجس کا نام نکل آئے وہ بانڈ جاری کرنے والے کو انعام دینے پر مجبور بھی کرسکتا ہے، لہذا یہ مشروط نفع ہی ہے جو کہ حرام ہے۔      

بانڈز خریدچکا ہے تو کیا کرے؟

اگر کسی شخص نے لاعلمی  میں بانڈز خرید لیے یا جان بوجھ کر بانڈز خریدے تھے، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اُسے سود سے توبہ کی توفیق نصیب فرمائی تو ایسا شخص ان بانڈز کا کیا کرے جو اس نے خریدے ہیں؟ایسے شخص کے لیے درج ذیل آپشنز ہیں:

1۔ اس کو چاہیے کہ بانڈز کی مدت کے ختم ہونے کا انتظار کرے، جب مدت ختم ہوجائےتو بانڈز جاری کرنے والے سے صرف اپنی اصل رقم واپس   وصول کرے، اضافی سود وصول نہ کرے۔

2۔ اگر اُسے فی الفور رقم کی سخت ضرورت ہے تو اُسے چاہیے کہ بانڈز جاری کرنے والے ادارے سے صلح کرنے کی کوشش کرے کہ میں بانڈز پر سود وصول نہیں کرتا، البتہ مجھے بانڈز کی مدت مکمل ہونے سے پہلے میری اصل رقم واپس کردی جائے۔ ممکن ہے بانڈز جاری کرنے والا ادارہ اس بات پر راضی ہوجائے۔

3۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بانڈز ہولڈر کسی اور سے قرض لے اور اس کے ساتھ عقدِ حوالہ کرکے بانڈز اپنے قرض  خواہ کو دیکر یوں کہہ دے کہ آپ کا میرے ذمہ جو قرض ہے وہ آپ فلاں تاریخ کو جاکر بانڈز جاری کرنے والے سے وصول کرلے، البتہ اس صورت میں اگر قرض خواہ کو بانڈز جاری کرنے والے سے اپنا قرض نہ ملے تو وہ دوبارہ اصل بانڈ ہولڈر سے اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ (بدائع الصنائع (6/ 18)

4۔ اگر درج بالا  صورتیں ممکن نہیں ہیں اور بانڈ ہولڈر کو فی الحال رقم کی سخت ضرورت ہے تو وہ اپنے بانڈز کسی تیسرے شخص کو  اُتنی رقم کے عوض فروخت کرلے جواُ س نے بانڈز جاری کرنے والے ادارے کو دیکر بانڈز خریدے تھے، اس سے زیادہ یا کم قیمت پر نہ بیچے۔ اس تیسرے آپشن پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ بانڈز کسی  تیسرے شخص کو بیچنا فقہی اعتبار سے ”بیع الدین من غیر من علیہ الدین“ہے جو کہ ائمہ ثلاثہ(امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ) کے نزدیک جائز نہیں ہے، لیکن چونکہ  امام مالکؒ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ مقروض کے علاوہ کسی اور شخص کو قرض فروخت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ تساوی اور برابری ہو، یعنی جتنا قرض ہے اُتنے میں ہی فروخت کیا جائے، کم یا زیادہ میں نہیں۔ (مجلة مجمع الفقه الإسلامي (2/ 21086)بيع الدين والاوراق المالية، للشيخ تقي عثماني)اس لیے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول پر اس شرط کے ساتھ عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

شرعی متبادل:

چونکہ بانڈز جاری کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس لیے ذیل میں بانڈز کا شرعی وجائز متبادل بیان کیا جاتا ہے:

1۔ شئیرز جاری کرے:

اگر کمپنی کو مزید سرمایہ کی ضرورت ہے اور منظور شدہ سرمایہ(Authorized Capital)میں گنجائش بھی موجود ہے تو اُسے چاہیے کہ بانڈز کے بجائے، مزید شیئرز جاری کرکےلوگوں سے رقم وصول کرلے۔ اس میں اگر پرانے شیئرز ہولڈرز کو ترجیحی حق دیا جائے تو اس میں بھی شرعا کوئی برائی نہیں ہے۔ البتہ بسااوقات کمپنی مزید شیئرز جاری کرکے حصہ داران میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی، کبھی منظور شدہ سرمایہ میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی اور کبھی عوام کو شیئرز میں رغبت ہی نہیں ہوتی، اس صورتحال میں درج ذیل طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔

2۔ مشارکہ سرٹیفکیٹ:

مزید سرمایہ کے حصول کے لیے ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ کمپنی مشارکہ سرٹیفکیٹ جاری کرے، جو لوگ یہ سرٹیفکیٹ خریدیں گے ان کے اور کمپنی کے درمیان مشارکہ کا عقد منعقد ہوجائےگا۔ یہ سرٹیفکیٹ، شیئرز کی طرح کمپنی کے اثاثہ جات میں متناسب حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے ان کو سیکنڈری مارکیٹ (Secondary Market)میں فروخت کرنا بھی جائز ہوگا۔ حکومت بھی  اپنے کسی خاص پراجیکٹ کے لیے یہ طریقہ اختیار کرسکتی ہے۔

3۔ صکوک جاری کرے:

سرمایہ حاصل کرنے کا ایک مشہور طریقہ یہ ہے کہ کمپنی یا حکومت صکوک جاری کرے۔ یہ بھی مشارکہ سرٹیفکیٹ کی طرح ایک مالی دستاویز ہے، لیکن  مشارکہ سرٹیفکیٹ میں صرف مشارکہ کا عقد ہوتا ہے، جبکہ صکوک کی بنیاد مشارکہ، مضاربہ، اجارہ، استصناع اور شرکتِ متناقصہ وغیرہ جیسے عقود میں سے کوئی عقد  ہوتاہے۔ تفصیل کے لیے علماء سے رجوع کیا جائے۔

1 تبصرہ
  1. شادمحمد کہتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔