معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

ہجرت مدینہ سے قبل تیرہ سال تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے،مسلسل تکلیفیں پہنچائی گئیں ،برابرایذائیں دی گئیں اور دن رات ،اسلام، پیغمبر اسلام اور متبعینِ اسلام کے خلاف وہ  سازشیں رچی گئیں کہ وطن عزیزکی مقدس سرزمین اپنوں کی ستم رانی سے تمام تر وسعتوں کے باجودتنگ ہوگئی؛مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے اس برتاؤ کےباوجود صبروخاموشی اور ہمت و استقامت سےکام لیا؛بل کہ  اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں بھی اہلِ مکہ کے سامنے اخلاق وکردار کا  اعلی نمونہ پیش کیا، گالیوں کا جواب دعاؤں سے، پتھر کا جواب نرم کلامی سے،دل آزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سےدیا ۔

لیکن جب پانی سر سے اونچاہوگیااور مصائب و آلام کا سلسلہ درازتر ہوتاچلاگیا تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺکو مدینہ کہ طرف ہجرت کا حکم دےدیا،اس طرح آپ ﷺاورآپ کے تمام صحابہ مدینہ طیبہ میں مقیم ہوگئے۔

معرکۂ بدر؛اسباب و وجوہات :

یوں توقریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پرحملہ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ؛مگراس کا باضابطہ آغاز اس خط سے ہوا جومشرکین مکہ جانب سےعبداللہ بن اُبی کو موصول ہوا؛جس میں یہ درج تھاکہ ’’ہم یہ بات ہرگزبرداشت نہیں کرسکتے کہ محمدﷺ اوران کے ساتھی ہمارے شہرمکہ سے نکلنے کے بعداب تمہارے شہرمدینہ میں چین وسکون کی زندگی بسرکریں اورپھلتے پھولتے رہیں ؛لہٰذاتم سے ہمارایہ پرزورمطالبہ ہے کہ تم ان مسلمانوں کوجلدازجلداپنے شہرسے نکال باہرکرو…اوراگرتم نے ہماری اس ہدایت پرعمل نہ کیاتویادرکھو!ہم بہت جلدتمہارے شہرپرتباہ کن حملہ کریں گےاوراس وقت صرف مسلمانوں کوہی نہیں ان کے ساتھ ساتھ تم سب کوبھی ہم مدینہ سے نکال دیں گے‘‘۔

مدینے کے منافقین و یہود نے جب خط پڑھاتواسےدھمکی اورچیلنج کے بجائے اپنے لئے بہت بڑی خوشخبری سمجھا،اور کفار مکہ کی اس  پشت پناہی پرمسرت کا اظہار کیا۔ اس طرح  مسلمانوں کے خلاف داخلی اورخارجی سطح پر دونوں دشمن متحداوریکجاہوگئے۔

ادھر آثاروقرائن سے سرکاردوعالم ﷺ نے یہ محسوس کرلیا کہ اب کسی بھی وقت مسلمانوں پر خطرات کے بادل منڈلاسکتےہیں اس لئے صحابہ کرام سے مشورہ کےبعد یہ طئے کیا کہ کسی بھی مشکل کاسامناکرنے کیلئے تیاریاں شروع کردیں اور اپنے تحفظ کے لئے ذہنی طور پر ہمیشہ تیار رہیں !

خوف وہراس کےان ہی حالات میں قریش کا ایک بڑا قافلہ سامان حرب وضرب اورمال تجارت لے کر شام سے واپس آرہا تھا،حضور ﷺکو اس کا علم ہواتوآپ نے کوچ کااعلان فرمایا،اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قافلے کے بجائے لشکر ِ قریش کے ساتھ میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زورمقابلہ  ہو گا،چناں چہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر اس کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے اور ’’رَوْحا‘‘ مقام پر جاکر پڑاؤ ڈالا؛مگر قافلہ کے سردار کو اس کی خبر ہوگئی۔ اس نے سمندر کے کنارے کنارے دوسرا راستہ اختیار کرلیا اور ایک سوار مکہ بھیج دیا کہ قافلہ مسلمانوں کی وجہ سے خطرہ میں ہےاس لئے مدد کے لئے فوری انتظامات کریں !

اس اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے ولے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقی واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔

 حضور نبی کریمؐ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے جواب میں نہایت جاں نثارانہ و فدایانہ تقریریں کیں ۔ حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کیا:

‘‘ یا رسول اﷲﷺ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کےلئے تیار ہیں ’’۔

حضرت مقدادؓ نے کہا:‘‘ ہم حضرت موسیٰؑ کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں ، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں ؛بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھرانہوں نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپؐ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپؐ ابتداء کیجئے اور جنگ کا حکم فرمائیے، ان شاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا’’۔

جنگ کے لئے روانگی :

آپﷺ 12 رمضان 2 ہجری مطابق 8 مارچ 624 ء تقریباً تین سو جاں نثاروں کے ساتھ شہر سے نکلے ، ایک میل چل کر فوج کا جائزہ لیا ، جو کم عمر تھے واپس کر دئے گئے،عمیرؓ بن ابی وقاص ایک کم سن بچہ تھے ، جب ان سے واپسی کو کہا گیا تو رو پڑے ، آنحضرت ﷺ نے اجازت دے دی ، عمیرؓ کے بھائی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے کم سن سپاہی کے گلے میں تلوار حمائل کر دی، اب فوج کی کل تعداد (313) تھی جس میں ساٹھ مہاجرین اور باقی انصار تھے۔

اس لشکر نے غزوے کا نہ کوئی خاص اہتمام کیا تھا نہ ہی مکمل تیاری۔ چنانچہ پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے (ایک حضرت زُبیرؓ بن عوام کا اور دوسرا حضرت مقدادؓ بن اسود کندی کا )اور ستر اونٹ ، جن میں سے ہر اونٹ پر دو یاتین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک اونٹ رسول اللہﷺ ، حضرت علیؓ اور حضرت مرثدبن ابی مرثد غنویؓ کے حصے میں آیا تھا جن پر تینوں حضرات باری باری سوار ہوتے تھے۔

مدینہ کا انتظام اور نماز کی امامت پہلے پہل حضرت ابنِ اُمّ ِ مکتومؓ کو سونپی گئی ، لیکن جب نبیﷺ مقام ِ رَوْحاء تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ نے حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ کو مدینہ کا منتظم بنا کر واپس بھیج دیا۔

بدر کا جائے وقوع:

بدر، مدینہ منورہ سے تقریباً (80) میل کے فاصلہ پر ایک کنویں کا نام ہے؛ جسے اس نواح کے ایک سردار بدر بن حارث یا بدر بن کلدہ نے کھدوایا تھا ؛لیکن بعد میں یہ ساری وادی بدر کے نام سے مشہور ہو گئی،یہاں ہر سال میلہ بھی لگتا تھا ۔

آپﷺ نے خبر رسانی کےلئےدو حضرات لبیسہ اور عدی کو آگے روانہ کر دیا تا کہ قریش کی نقل و حرکت کی خبر لائیں ۔

چناں چہ آپ روحا ، منصرف ، ذات اجلال ، معلات ، ائیل، سے گزرتے ہوئے ۱۷ رمضان کو بدر کے قریب پہنچے، خبر رسانوں نے خبر دی کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک آگئے ہیں ، آنحضرت ﷺ یہیں رک گئے اور فوجیں اتر پڑیں ۔

صف آرائی کا دل نشیں منظر:

17/رمضان المبارک کو فجر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی، آپ ﷺکے ارشاد کے مطابق صحابہ کرام نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا فولادی عزم لے کر میدان کی طرف چل پڑے،دوسری طرف قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست،نسلی تفاخروعصبیت کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔

حضور نبی کریمؐ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپؐ مجاہدین کی صفیں قائم فرما رہے تھے۔

آپ نے ’’مہاجرین‘‘ کا علم حضرت مصعب بن عمیر کے ’’خزرج‘‘ کا علم حضرت حباب بن منذرکےاور ’’اوس‘‘ کاعلم حضرت سعد بن معاذ کے حوالےفرمایا؛اس طرح لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔

 حضوراکرمﷺنے میدانِ بدر میں اپنے جاں نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو بارگاہِ خداوندی میں یوں التجاء کی: ’’ اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس کے جواب میں اللہ تعالی  نےفتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی؛جس کا تفصیلی ذکرسوره الانفال میں موجودہے۔

جب جنگ شروع ہوئی توکفار کے’’سازوسامان‘‘،‘‘لاؤ ولشکر’’اور’’کثرتِ تعداد‘‘کےباوجودمسلمانوں کااپنے اللہ پرخالص ایمان ،سچا توکل اورجذبۂ سرفروشی کام آیاچنانچہ انہوں نے انتہائی شجاعت وبہادری اورثابت قدمی کے ساتھ دشمن کامقابلہ کیا؛جس کانتیجہ یہ ہواکہ مشرکینِ مکہ کے پاؤں اکھڑگئے ان کے متعددبڑے بڑے سرداراورنامی گرامی کےرؤساء مارےگئےاور اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں قدم قدم پر ایسے مناظر پیش آئے،ایسے واقعات رونماہوئےاور ایسے حالات سامنے آئے جن میں ایمانی قوت،دینی غیرت اور اسلامی حمیت نمایاں تھی، اس معرکے میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی میں صف آرائی ہوئی،عقیدے کےاختلاف پر تلواریں بے نیام ہوئیں اور مظلوم ومقہور نے ظالم وقاہر سےٹکر ا کراسلام کی ابدی حقانیت کو تاریخ کےسنہرے صفحات پر ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔

غزوہ ٔ بدر کامفصل  ذکر قرآن مجید میں :

غزوہ بدر کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا باالتفصیل ذکر کیا ہے اور سورۃ الانفال اسی موقع پر نازل ہوئی جس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے احسانات بتلائے اور مال غنیمت و خمس کی تقسیم سے متعلق احکامات نازل فرمائے۔

غزوۂ بدر کوقرآنِ مجید میں ’’یوم الفرقان‘‘ (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر کیاگیا، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق وباطل، خیروشر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتہ چل گیا کہ حق کاعلم بردار کون ہے؟ اور باطل کا نقیب کون ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تمہیں اللہ پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الانفال:41)

جنگ کے محل  وقوع کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے : جس وقت تم اِس کنارے پر تھے اور وہ اُس کنارے پر اور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا، اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو ایک ساتھ وعدہ پر نہ پہنچتے، لیکن اللہ کو ایک کام کرنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا، تاکہ جو ہلاک ہو وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ اتمام حجت کے بعد زندہ رہے، اور بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔(الانفال:42)

اسی طرح غزوہ ٔ بدر میں  کفار و مشرکین کے قتال کی نسبت اپنی  طرف کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اورآپ نے مٹی نہیں پھینکی جبکہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی، اور تاکہ ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان کرے، بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔(الانفال:17)

بدر میں اپنی خصوصی مددونصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمان الہی ہے: اور اللہ بدر کی لڑائی میں تمہاری مدد کر چکا ہے حالانکہ تم کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر کرو۔(آل عمران:123)

جب آپ مسلمانوں سےکہہ رہےتھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کے لیے تین ہزار فرشتے آسمان سے اترنے والے بھیجے۔(آل عمران:124)

بلکہ اگر تم صبر کرو اورڈرو اور وہ تم پر ایک دم سے آ پہنچیں تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے نشان دار گھوڑوں پر مدد کے لیے بھیجے گا۔(آل عمران:125)

اور اس چیز کو اللہ نے تمہارے دل کی خوشی کے لیے کیا ہے اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان ہو، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست حکمت والا ہے۔(آل عمران :126)

پیامِ بدر :

غزوہ بدر ، جو کفر اور اسلام کے درمیان پہلا فیصلہ کن اورتاریخ ساز معرکہ ہے، اپنے اندر بے شمار روشن سبق اور عبرت وموعظت کےمختلف پہلو رکھتا ہے۔

 مثلاً یہ کہ اگر رضائے الٰہی حاصل اور شامل ہو تو اسلحہ اور تعداد کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسلام میں رشتےصرف خون سے نہیں بنتے بلکہ دین سےبھی بنتے ہیں ؛جو خونی رشتوں سے زیادہ موثر،پائیدار اور مضبوط ہوتےہیں ۔

 مسلمانوں میں اگر شوق شہادت زندہ اور روشن ہوتو انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، غرور اور شرک بالآخر خاک میں ملتا اور رسوا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں اگر دلوں میں کامل ایمان ہو،دین پر مرمٹنے کاسچاجذبہ ہو،اوراللہ پربھرپورتوکل ہوتوباطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، عددی اکثریت اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود اہل ایمان ہرمحاذ پر کامیاب اور بامرام ہوسکتے ہیں ۔

جو لوگ معجزات اور غیبی مدد کے بارے میں شکوک میں مبتلا رہتے ہیں ، انہیں غزو بدر کی تفصیلات کو غور سے پڑھنا چاہئے۔

 مختصریہ کہ بدر کی فتح نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس کے بعد اسلام کرۂ ارض پر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو

 اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

تبصرے بند ہیں۔