والدین

عائشہ صدیقی

تندوتیز ہوا،آندھی، گرمی یا بارش سے بچانے کے لئے مکان کے آگے چھپر بنایا جاتا ہے جو سائباں کہلاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی کو تلخیوں، دکھ سکھ ، غم والم اور حوادثات کے تھپیڑوں سے دور رکھنے والے سائباں اس کے والدین ہیں۔

 والدین وہ نعمت عظمی ہے جو اولاد سے بغیر کسی غرض کے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اولاد والدین کے اس احسان کا بدلہ کسی صورت نہیں چکا سکتی۔ والدین اس شجر سایہ دار کی مانند ہیں جن کی چھاں میں اولاد اپنے تمام مصائب غم ودرد بھول جاتے ہیں۔ والدین بہار ِزندگی ہیں ان کی موجودگی پرستان سے بڑھ کر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور غیر موجودگی قبرستان کی مانند ہے۔ ان کی چہرے پر محبت بھری نگاہ ڈالنے سے جہاں طبعیت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے وہاں حج مبروک کے ثواب سے بھی مالا مال کردیا جاتا ہے۔

قران مجید اور احادیث مبارکہ میں والدین کی عظمت،ان کی خدمت کا بار بار کہا گیا ہے۔ اور والدین کی نافرمانی اور ان کو ستانے کے وبال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ کلام پاک میں اللہ رب العزت نے والدین کی عظمت کو اجاگر کیا اور عزت وتعظیم سے پیش آنے کا حکم دیا۔ فرمایا:

ترجمہ  "اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو،اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی "اف” بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار !ان دونوں پر رحمت فرماجیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا”(سور ۃ بنی اسرائیل ع)

اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ والدین کی اطاعت، خدمت، فرمانبرداری اکرام و احترم کس قدر ہم پر لازم ہے۔ پہلے فرمایا کی خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ۔ ۔ بھلا کیوں ؟؟؟؟ اس لئے کہ انسانوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین کو بنایا۔ حمل سے لیکر پیدائش تک کتنی مشکلات کا سامنا کیا۔ پھر پال پوس کر بڑا کیا، تمام مراحل میں کتنے مصائب کا سامنا کیا۔ کتنے دکھ درد جھیلے۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہمیں سکون دیا، راحتیں دیں۔ زمانے کی گرمی سے بچایا۔ اتنا بڑا احسان کیا کہ ہم  ان کا بدلا چکانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور ادا بھی نہیں کرسکتے۔ تیسرا فرمایا کہ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں سو ان کو اف بھی مت کہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انساں اگر سوچے کہ جب وہ وجود میں آیا تو کتنا لاچار اور بے بس تھا۔ ہر چیز کا محتاج تھا۔ سوائے رونے کے کوئی کام نہ تھا۔ لیکن کبھی والدین نے جھڑکا نہیں۔ جب روتا تو وہ بے چین ہوجایا کرتے تھے۔ ۔ ساری ساری رات سرہانے بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبت کی انتہا تو دیکھ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے تجھے کھلاتے۔ ۔ ۔ ۔ خود بعد میں کھاتے۔ ۔ ۔ ۔ اب جب ان کی خدمت کا تجھے موقعہ فراہم کیا۔ تو تو بھی ان سے ویسا برتاو کر جیسا کہ انہوں نے تجھے محبت سے بچپن میں پالا۔ تیری ہر خواہش پر خود کو تجھ پر نثار کیا۔ ویسے تو ان کی خدمت ہر عمر میں لازم ہے لیکن خصوصا ًبڑھاپے کا اس لئے ذکر کیا کہ اس عمر میں انساں لاغر ہوجاتا ہے۔ کمزوری اور ضعیفی کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کبھی ان کو ایسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں کہ وہ پل پل کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ ان کا پھر ویسا ہی خیال رکھنا پڑتا ہے جیسے نومولود بچے کا۔ کبھی طبعیت میں کچھ چڑچڑاپن آجائے تو منہ سے الٹے سیدھے الفاظ نکل پڑتے ہیں ایسے مواقع پر صبر وبرداشت کی چادر اوڑھے رکھنا۔ اور ان کی بھر پور خدمت کر کے ثوب دارین کمانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔

 حضرت مجاہد رحمۃاللہ تعالی نے فرمایاکہ جو انسان ان کے کپڑوں وغیرہ سے گندگی اور پیشاب پاخانہ صاف کرتا تو اس موقع پر اف بھی نہ کہے جیسا کہ وہ بھی اف نہ کہتے تھے جب تیرے بچپن میں تیرا پیشاب پاخانہ وغیرہ دھوتے تھے۔ (درمنثور)

حدیث شریف میں والدین کے عظمت ورفعت، حسن سلوک اور اولاد کا والدین کے ساتھ اچھے برتائو پر خوشخبری اور برے سلوک پر سخت وعید سنائی گئی ہیں۔ اس بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے اور اس کا رزق بڑھائے اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (رشتہ داروں کے ساتھ)صلہ رحمی کرے۔ (درمنثور)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ !والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟آپ ﷺنے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں۔ (مشکوۃ شریف)

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل ہے۔ ؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اس کے بعد حضورﷺنے فرمایا: جہاد(درمنثور)

ایک اور حدیث شریف میں آیاہے کہ اللہ کی رضا والد کی رضا ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی ہے۔ (درمنثور)

جب تک والدین حیات ہیں ان کی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ لیکن جب یہ دنیا سے پردہ فرما لیں تب بھی اولاد کا حق ہے کہ ان کی خدمت کرے۔ ۔ ۔ خدمت مرنے بعد؟؟؟ جی ہاں مرنے کے بعد خدمت سے مراد ایصال ِثواب کریں۔ خصوصا ًوہ لوگ جو اپنے والدین کی حیات میں ان کی خدمت نہیں کرسکے اورہمیشہ ان کی نافرمانی کرتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے والدین اس دنیا سے رخ موڑ گئے۔ ان کے لئے رسول اللہﷺ نے کیا ہی خوب فرمایا۔ حضور اقدسﷺکا ارشاد ہے کہ جس شخص کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک مرجائے اور وہ شخص ان کہ نافرمانی کرنے والا ہو تو اگر وہ ان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتا رہے، اس کے علاوہ ان کے لئے اور دعائیں کرتا رہے تو وہ شخص فرماں برداری میں شمار ہوگا۔ (مشکوۃ شریف)

 بلند عزم ہو چھوٹوں کا آسماں کی طرح

 بڑوں کا سر پہ سایہ ہو سائباں کی طرح

 جو گلستاں سے اٹھ جائیں باغباں تو اثرؔ

 بہار بھی نظر آتی ہے پھر خزاں کی طرح

 (اثر جونپوری)

اللہ پاک ہمیں اپنے سائباں (والدین)کی قدردانی اور محبت سیکھلائے۔ اور ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم ودائم رکھے آمین ثم آمین۔

تبصرے بند ہیں۔