گفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

معراج حبیب ندوی

 آج اصلاح معاشرہ کیلئے ہر طرف چرچا چل رہا ہے، ہر فرد اصلاح معاشرہ کا رونا رو رہا ہے، ہر شخص کو سماج سدھار کی فکر دامن گیر ہے۔ چناچہ ہر شخص اپنے اپنے پیمانہ پر کوشش بھی کر رہا ہے، کوئی جلسہ کرواتا ہے، تو کوئی گشت اور جوڑ کروا کے اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دیتا ہے، کوئی کتاب لکھ کر اس ذمہ داری سے عہدہ بر آں ہونا چاہتا ہے۔ اسی طرح کوئی چائے کی دکانوں اور قہوہ خانوں میں بیٹھ کر پوری سوسائٹی کا جائزہ لے کر اصلاح کیلئے لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ الغرض ہر شخص سماج سدھار کے تئیں فکر مند نظر آتا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان فکرمند لوگوں کی کوششیں بار آور ہوتی بھی ہیں  یا نہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ  تمام تر کوششوں کے باوجود اصلاح سے زیادہ سماج بگاڑ کی طرف تیز قدموں سے بڑھتا جارہا ہے۔ تو اب ذہن کے پردہ پر ایک سوال بن کر ابھرتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ان فکرمند لوگوں کی کوششیں  بیکار اور بے سود ہیں؟ سچ تو یہی ہے کہ جی ہاں ساری کوششیں بے کار اور بے سود ہیں، کیوں کہ یہ نرا فکر ہے جو درد اور سوز وگداز سے خالی ہے۔

 لیکن کیوں انکی کوششیں پھلدار نہین ہوتی ہیں؟ سچ میں وہ صرف گفتار کے غازی ہیں کردار سے خالی ہیں۔ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں لیکن وہ خود اس کے پیکر نہیں بن پاتے۔ اصل میں ہر شخص تو فکرمند ہے مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتا ہے۔ سب عمل سے کوڑے ہیں۔ اور سب یہ سوچنے لگے ہیں کہ ایک صرف میں ہی کردار کا پیکر نہیں ہوں اس سے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن سب کی اسی سوچ نے آج معاشرہ کو اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن کا شکار بنا دیاہے۔ اصل میں  اصلاح معاشرہ کا آغاز ہر شخص خود اپنی ذات سے شروع کر دے تو معاشرہ خود بخود خوب سے خوب تر ہوتا جائے گا پھر اسے نہ فکر مند لوگوں کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی کسی اصلاحی تحریک کی۔ ورنہ اگر ہر شخص اصلاح کا آغاز خود اپنی ذات سے نہ کرے تو فکر مند لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا اور اصَلاحی تحریکوں کا ایک سیلاب امنڈ پڑے گا مگر معاشرہ میں بگاڑ کی آندھی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائے گی اور سب اس آندھی میں خس وخاشاک کی طرح اڑتے چلے جائینگے۔ میری ان باتوں کی تائید قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے "ياأيها اللذين آمنوا قو أنفسكم وأهليكم نارا "اے ایمان والو خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے ڈراو۔اس آیت کریمہ میں پہلے نمبر پر خود اپنی ذات کو ڈرانے کا تذکرہ ہے پھر گھر والوں کو ڈرانے کا۔ لیکن آج ہوتا یہ ہے کہ اصلاح کی فکر کرنے والے اصلاح سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو ماوراء سمجھتے ہیں اور وہ دوسروں کی فکر میں گھلے جاتے ہیں

کچھ لوگ نصیحت کر کے ہی دل اپنا بھر لیتے ہیں 
اپنا تو غم ذرا بھی نہیں اوروں کے غم میں گھٹتے ہیں

اصلاحی کام کرنے والوں کیلئے سب سے بنیادی اور ضروری چیزہے کہ وہ خو اچھے کاموں کا پیکر مجسم ہو اور وہ اچھے اخلاق کی چلتی پھرتی تصویر ہو تب اسکی اصلاحی کوششیں بار آور ہوسکتی ہیں۔ ورنہ وہ سیکنڑوں صفحات اصلاحی باتوں سے سیاہ کردیں، اور چیخ چیخ کر تھک جائیں، سینکڑوں جلسے اور  جوڑ کر لیں، شب وروز گشت کرتے پھریں پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے، اسکی آواز صدابصحراء ہوجائے گی۔ اسکی کوشش پانی سے پانی پر لکھنے کی کوشش ہوگی۔ ہمارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین نمونہ ہیں۔ آپ پہلے پیکر اخلاق بنے،  گفتار اور کردار میں موافقت ہوئی تو لو گوں کے دل صحیح باتوں کی طرف کچھنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جاہلی معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ کی شکل میں ابھرا۔ مگر آج تمام مصلحین کا مطالبہ یہی ہے کہ سب صالح ہو جائیں مگر مجھے اپنی روش پہ رہنے دیں۔ انھیں مصلحین کو دیکھکر علامہ اقبال نے انکی روش پہ غم کا اظہار کیا ہے۔

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے 
گفتا ر کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔