شازیب شہابؔ
یہ زعم تھا کہ وہ میرے سوا کسی کی نہیں
میں لٹ گیا تو یہ جانا انا کسی کی نہیں
…
سنور گئی وہ کسی اور کی ہتھیلی پر
حنا کسی کی نہیں ہے حنا کسی کی نہیں
…
بڑھا کے پیاس وہ آنکھیں چرا بھی سکتی ہے
سنبھال دل کو ذرا یہ گھٹا کسی کی نہیں
…
بڑے ہی ناز سے رقصاں ہیں شاخ پر پتے
سبھی بکھر کے رہیں گے ہوا کسی کی نہیں
…
کرے تو کیوں کرے کرنوں کا اعتبار کوئی
سبھی پہ اس کی نوازش، ضیا کسی کی نہیں
…
کرم گزیدہ کنول ہے تو کیکٹس مظلوم
چمن ہو یا کہ بیاباں، صبا کسی کی نہیں
…
سنور سنور کے میں اکتا گیا تھا خود سے شہابؔ
بکھر رہا ہوں تو اس میں خطا کسی کی نہیں
تبصرے بند ہیں۔