یہ زعم تھا کہ وہ میرے سوا کسی کی نہیں

شازیب شہابؔ

 یہ زعم تھا کہ وہ میرے سوا کسی کی نہیں
میں لٹ گیا تو یہ جانا انا کسی کی نہیں

سنور گئی وہ کسی اور کی ہتھیلی پر
حنا کسی کی نہیں ہے حنا کسی کی نہیں

بڑھا کے پیاس وہ آنکھیں چرا بھی سکتی ہے
سنبھال دل کو ذرا یہ گھٹا کسی کی نہیں

بڑے ہی ناز سے رقصاں ہیں شاخ پر پتے
سبھی بکھر کے رہیں گے ہوا کسی کی نہیں

کرے  تو کیوں کرے کرنوں کا  اعتبار کوئی
سبھی پہ اس کی نوازش، ضیا کسی کی نہیں

کرم گزیدہ کنول ہے تو کیکٹس مظلوم
چمن ہو یا کہ بیاباں، صبا کسی کی نہیں

سنور سنور کے میں اکتا گیا تھا خود سے شہابؔ
بکھر رہا ہوں تو اس میں خطا کسی کی نہیں

تبصرے بند ہیں۔