پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے

عرفان وحید

پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے

فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے

حسابِ سودوزیاں ہوچکا بہت، اب کے

وفورِ شوق کو عرضِ ہنر بنایا جائے

لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے

کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے

کسی پڑاؤ پہ پہنچیں گے جب تو سوچیں گے

ابھی سے کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے

فرازِدار پہ کرکے بلند آخرِ شب

مرے ہی سر کو نشانِ سحر بنایا جائے

بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا

کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے

قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم

چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے

ضمیرِنوعِ بشر کب سے ہوچکا رخصت

نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے

مفر محال ہے قیدِ مکاں سے جب عرفان

تو کیوں نہ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے

تبصرے بند ہیں۔