کروٹ لیتی ملک کی سیاست
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
شمال مشرق میں بی جے پی کی جیت بڑے سیاسی بدلائو کا اشارہ ہے۔ ملک نے کچھ اسی طرح کی تبدیلی غیر کانگریس واد اور سمپوڑن کرانتی کی لوہیا تحریک کے بعد دیکھی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ملک کی کئی ریاستوں میں غیر کانگریسی سرکاریں بنیں، جوکئی ٹانگوں پر کھڑی ہونے کی وجہ سے وقت سے پہلے گرگئیں ۔ تب کانگریس ملک کی بڑی آبادی کو سرکار دے رہی تھی۔ اس کا ایک چھتر راج تھا۔ اس وقت بھاجپا کانگریس کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ اس نے اس کیلئے پوری طاقت اور تمام ذرائع جھونک دیئے ہیں۔ جہاں اکثریت ملی، وہاں تو اس نے سرکار بنائی ہی لیکن جہاں صرف دوسیٹیں ملیں وہاں بھی ا س نے کانگریس کو اقتدار سے باہر رکھا۔ باوجود کانگریس سب سے زیادہ سیٹیں لینے کے اسے سرکار بنانے کی دعوت نہیں دی گئی۔
تریپورہ میں بی جے پی نے لیفٹ کا مضبوط قلعہ ڈھادیا اور ناگالینڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حال تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تریپورہ میں 72 فیصد آبادی بنگالی اور 28 فیصد قبائلی ہیں ۔ 60 سیٹوں والی اسمبلی میں 20 سیٹیں آدی واسیوں کیلئے ریزرو ہیں ۔ پیوپلس فرنٹ آف تریپورہ آدی واسیوں کی اکیلی سیاسی تنظیم ہے جو الگ آدی واسی ریاست کی مانگ کرتی رہی ہے۔ بی جے پی نے اس کے ساتھ گٹھ بندھن کر آدی واسیوں کے ساتھ بنگالی ہندوئوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ تریپورہ، ناگالینڈ اور میگھالیہ میں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور یہاں کی سیاست پر چرچ کا اثر ہے۔ یہاں بھاجپا نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ بیف کا مدعا، جس پر ملک میں کئی جانیں جاچکی ہیں ، وہ یہاں کنارے کردیا گیا۔ دوسرے مرکزی حکومت نے 1955 کے سٹی زن ایکٹ میں مذہب کے نام پر ترمیم کرنے کی بات کہی تاکہ بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو جو غیر قانونی گھس پیٹھئے کہلاتے تھے، انہیں بھارت کی شہریت مل سکے۔
بھاجپا کا یہ قدم اکثریتی طبقہ کو لبھانے والا تھا، جس کی کاٹ لیفٹ کی سرکار نہیں تلاش کرسکی۔ اس کا فائدہ اسے آسام میں بھی ملا تھا۔ تیسرے مشنریوں کے ذریعہ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف حال ہی میں فوت ہوئے شنکراچاریہ جیندر سرسوتی شمال مشرق میں گھرواپسی کا کام کررہے تھے، لیکن وہ اسے لمبا نہیں چلاپائے۔ آر ایس ایس کے لوگ اس تحریک کولے کر وہاں سرگرم ہوگئے۔ مراٹھی مانس سنگھ کے پرچارک سنیل دیو دھر نے تریپورہ کی لوکل زبانیں کھاسی، گاروا اور بنگلہ سیکھ کر وہاں کی عوام اور سیاسی جماعتوں سے اچھے تعلقات بنالئے۔ شمال مشرقی کے فرنٹ پر انتخابات سے پہلے سنگھ نے رام مادھوا کی ڈیوٹی لگائی۔ چنائو جیتنے کیلئے بھاجپا کے مقامی لیڈروں نے ناگالینڈ میں یہاں تک کہا کہ وہ بھی عیسائی ہیں ۔ بھاجپا ہندتوا کی سیاست نہیں کرتی، اسے سبھی مذاہب کے لوگ منظور ہیں لیکن بھاجپا اور سنگھ نے شمال مشرق میں ہندو راشٹرواد کے اپنے ایجنڈے کو وہاں کی چھوٹی پارٹیوں کی مدد سے آگے بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ چرچ گروپس کی کاٹ نکالی جاسکے۔
ایسا تونہیں ہوسکتا کہ لیفٹ یا کانگریس کو اس کی جانکاری نہ ہو لیکن پھر بھی وہ اپنے ووٹ بچانے میں نہیں جٹے۔ بار بار ایسا لگتاہے کہ راہل گاندھی آدھے ادھورے من سے سیاست کررہے ہوں۔ پچھلے اسمبلی انتخابات میں ہماچل پردیش کا اقتدار آسانی سے بھاجپا کے حوالے کردیا۔ اس بار تریپورہ اور ناگالینڈ میں اس کا برا حال ہوا۔ اس بار وہ اپنے روایتی ووٹ تک حاصل نہیں کرپائے۔ تریپورہ کی بات کریں تو پچھلے چنائو میں بھاجپا کو1.6فیصد ووٹ ملے تھے، جبکہ کانگریس 36 فیصد سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ موجودہ انتخابات میں بی جے پی کو 43 فیصد اور اس کی اتحادی پارٹی انڈین پیوپلس فرنٹ آف تریپورہ کو ساڑھے سات فیصد ووٹ ملے ہیں ، جبکہ کانگریس صرف 1.8 فیصد ووٹوں پر سمٹ گئی۔
2014 کے عام انتخاب میں 64 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سی پی ایم42.7فیصد ووٹوں پر سمٹ گئی۔ یعنی بی جے پی نے تریپورہ میں نہ صرف کانگریس کے سارے ووٹ نگل لئے، بلکہ سی پی ایم کے بھی قریب 22 فیصد ووٹوں میں سیندھ لگائی۔ 47000نئے ووٹروں کو سی پی ایم اور کانگریس اپنی طرف نہیں موڑ سکی۔ یہاں تک کہ تریپورہ کی بڑی تعداد میں مسلم ووٹوں والی سیٹ سونومورا بھی کانگریس نہیں جیت سکی۔ میگھالیہ میں جب جب راہل گاندھی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ کانگریس یا لیفٹ بھاجپا کی برائی کرکے اپنے آپ کو نہیں بچاسکتے۔ لیفٹ اور کانگریس کی یہ بری حالت ان کے عوام کی نبض کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوئی۔
کون سوچ سکتا تھا کہ کیڈر بیس لیفٹ کو کاڈربیس رائٹ ونگ اس طرح پٹخنی دے دے گا۔ اس چنائو کا بائیں بازو کو ایک پیغام یہ بھی ہے کہ وہ کانگریس سے اپنے رشتے اور اپنے کام کرنے کے طریقہ پر دوبارہ غورکریں ۔ سابق میں سی پی ایم اپنے تینوں ہی گڑھوں مغربی بنگال، تریپورہ اور کیرلہ میں کانگریس سے ہی دو دوہاتھ کرتی رہی ہے۔ لیکن جب پچھلے چنائو میں اس نے مغربی بنگال میں کانگریس کے ساتھ تعاون کیا تو وہ کھسک کر تیسرے پائیدان پرچلی گئی۔ آج جس طرح کیرالہ میں بی جے پی کا ابھار سامنے آرہا ہے۔ اگر سی پی ایم بنگال کی طرح کانگریس کے ساتھ رہی تو اسے یہاں بھی تیسرے پائیدا پر کھسکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تریپورہ میں سی پی ایم کی ہار محض ایک چناوی ہار نہیں ہے۔ سی پی ایم کی سرکار جہاں بھی ہارتی ہے، وہاں پارٹی اپنی جڑسے اکھڑجاتی ہے۔ مغربی بنگال میں یہی دیکھنے کو ملا۔ اس کی وجہ عوام پر مصنوعی دبائو بنا کررکھنا ہے۔ تریپورہ میں وزیراعلیٰ مانک سرکار کی ایمانداری اور سادگی کے سوا سی پی ایم کے پاس کوئی بڑا مدعا نہیں تھا۔ اس کے برخلاف بھاجپا نے کہا’’ لیفٹ از ناٹ رائٹ‘‘ اور’’ چلو پلٹائی‘‘ یعنی چلو بدلو کا نعرہ دیا۔ جس نے عوام کو متاثر کیا۔ ایماندار ہونا اچھی بات ہے، مگر عوام کو روزی، روٹی اورترقی بھی چاہئے۔ ریاست کے عوام ان معاملوں میں مایوس ہونے لگے تھے۔ پھر مانک سرکار نچلی سطح پر کرپشن روکنے میں بھی کامیاب نہیں ہوپائی۔ شمال مشرق کی ریاستوں کا اپنا اتحادی ڈھانچہ مضبوط نہیں ہے۔ اس لئے وہ مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ مل کر چلنے میں یقین رکھتے ہیں ۔ مودی سرکار نے ان کے ساتھ الگ طرح کا رشتہ بنایا۔ وہاں انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے کئی بڑے منصوبے شروع کئے گئے تاکہ وہاں کی معیشت کو رفتار مل سکے۔ اس طرح بی جے پی نے علیحدگی پسندی کو کم کر وہاں کے لوگوں کا یقین جیتا۔
کمیونسٹوں کی سیاست کرنے والے ابھی تک یہ طے نہیں کرپائے ہیں کہ انہیں آندولن کرنا ہے یا پھر لوگوں کی بھلائی کیلئے کام۔ اس لئے ہندی ریاستوں سے ان کا صفایا ہوگیا۔ بائیں بازو کو جہاں جہاں بھی سرکار بنانے کا موقع ملا انہوں نے وہاں ترقی کے کاموں پراتنا دھیان نہیں دیا جتنا دینا چاہئے تھا۔ شاید وہ ترقی کے کاموں کو سدھار مانتے ہیں اورسدھار کو کرانتی کے راستے میں رکاوٹ، کمیونسٹ کسان، مزدوروں کی تنظیموں کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کی امید کرتے ہیں اور درمیانی طبقہ کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ ان کی اوپرکی لیڈر شپ الیٹ بن گئی ہے۔ ان کا عوام کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ ان کی پالیسیاں قابل عمل نہیں ہیں اوروہ ذرائع ابلاغ کو بہت اہمیت نہیں دیتے۔ اس کی وجہ سے ان کا سیدھا تعلق نہیں بن پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو پہنچان نہیں مل پاتی۔ کیڈر دھیرے دھیرے مایوس ہوکر یا کام کا نتیجہ سامنے نہ آنے پر تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ تریپورہ نے اسے اچھی طرح سے سامنے رکھا ہے۔بائیں بازوکی جماعتوں نے اس وقت اگر اپنی سیاسی منصوبہ سازی کو از سرنو تیار نہیں کیا تو ان کا وجود ختم ہوجائے گا۔
اس وقت بھاجپا کی 15 ریاستوں میں سرکاریں ہیں ، جبکہ گٹھ بندھن یعنی این ڈی اے کی20،این ڈی اے ملک کی 67.5فیصد آبادی کو سرکار دے رہا ہے۔ جبکہ کانگریس اتحادی یوپی اے کی پہنچ سمٹ کر 7-78 فیصدہوگئی ہے۔ ریاستی دلوں کیلئے بھی روز نئی نئی چنوتیاں کھڑی ہورہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ٹی ڈی پی این ڈی اے کا حصہ ہوتے ہوئے اس سے ناراض ہے۔ چندرشیکھر رائو نے تیسرے مورچہ کی بات شروع کی ہے۔ جس کی ممتابنرجی نے حمایت کی ہے۔ ادھر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ایس پی-بی ایس پی نے ساتھ آنے کا اشارہ دیا ہے۔ بی جے پی نے ہر ریاست کے لحاظ سے الگ حکمت عملی اپنا کر ریاستی جماعتوں کے سامنے اپنا وجود بچائے رکھنے کا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی اقتدار کے حصول کیلئے ہر طرح کی طاقت استعمال کررہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کا ماحول اور سیاسی منظر نامہ روز بدل رہاہے۔
اس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا مشن اور ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کریں ۔ کیوں کہ اب بھی ملک میں بڑی تعداد ایسی ہے جو سنگھ یا بھاجپا کے خیالوں سے اتفاق نہیں رکھتی۔ اسے جمہوریت اور ملک کی ملی جلی تہذیب کے باقی رکھنے کا خیال ہے۔ اسی لئے وہ مورتیاں ٹوٹنے کی مخالفت کررہی ہے اوربدلے کی سیاست کو لے کر فکر مند ہے۔ کیوں کہ اس سے ملک کا صرف نقصان ہوگا۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ لوگ اِن مسائل میں الجھے رہیں ۔ بنیادی اور اہم مسائل گفتگو کا موضوع نہ بنیں ۔ اس فرنٹ پر وہ بری طرح ناکام ہے لیکن پھر بھی اسے 2019 کا انتخاب جیتنا ہے۔ ملک کا ایک طبقہ اب بھی یہ چاہتا ہے کہ ملک میں سب اسی طرح مل جل کر رہیں جیسے صدیوں سے رہتے آئے ہیں ۔ سب کی ترقی ہو، سب کا جان ومال محفوظ رہے یہ ہمارے ملک کا مزاج ہے اوراس کو ہر قیمت پر باقی رہنا ہی چاہئے۔ جمہوریت رہے گی تو الیکشن ہوتے رہیں گے۔ آخری آدمی کو ملے جمہوریت کا فائدہ، یہ اب بھی چیلنج ہے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔