انسان اور زمین کی حکومت (قسط 22)

رستم علی خان

جب حضرت اسماعیل کی عمر مبارک تیرہ سال ہوئی اور وہ کام کاج میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خواب آیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں- اور مسلسل تین راتوں تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔

انہوں نے عالم رُؤیا میں ملنے والے اس حکم الٰہی کی تعمیل کا ارادہ فرمایا اور بیٹے کے پاس گئے اور اس سے پوچھا:

’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں بتا تیری رائے کیا ہے؟‘‘ (روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم ماں بچے کی خیریت دریافت کرنے کے لئیے جاتے رہتے تھے-)
فرماں بردار بیٹے نےعرض کیا کہ:

’’ آپ اللہ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر ہیں۔ آپ اللہ کے حکم کی تعمیل بجا لائیں، انشاء اللہ مجھے آپ صابر اور شاکر بندوں میں سے پائیں گے‘‘۔(سورۃ الصافات – آیت 102)

مشیت الٰہی کے تحت اللہ کے یہ دونوں برگزیدہ بندے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ روایت ہے کہ ابلیس نے ان کے ارادہ کو متزلزل کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ پہلے وہ حضرت ہاجرہؓ کے پاس آیا اور انہیں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ارادہ سے آگاہ کیا اور بتایا کہ وہ حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے لے جا رہے ہیں۔بی بی ہاجرہؓ نے فرمایا کہ اسماعیلؑ ہماری اکلوتی اولاد ہے اور بہت دعاؤں کے بعد یہ نعمت اللہ نے ہمیں عطا کی ہے، اسماعیلؑ کا باپ ایسا نہیں کر سکتا کہ بلا وجہ اسے جان سے مار دے۔

ابلیس نے وار کارگر ہوتا دیکھ کر کہا، تمہارے اللہ نے ابراہیمؑ کو یہی حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کو قربان کر دو۔ یہ سن کر بی بی ہاجرہؓ نے کہا کہ ’’اگر یہ میرے خالق کا حکم دیا ہے تو میں اس کی رضا پر راضی ہوں‘‘۔ حضرت ہاجرہؓ کو بہکانے میں ابلیس جب ناکام ہوا تو حضرت ابراہیمؑ کے پاس آیا اور ان کے اندر موجود پدرانہ شفقت کے جذبات کو مہمیز کرنے کے لئے بولا کہ آپ عمر رسیدہ ہیں اور اسماعیلؑ آپ کی اکلوتی اولاد ہے۔ اگر آپ نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا تو آپ کی نسل نہیں بڑھے گی۔ حضرت ابراہیمؑ نے جواب میں فرمایا

’’اسماعیلؑ سے میرا تعلق اللہ کی معرفت قائم ہے۔ اس سے میرا واسطہ اور تعلق صرف اس بناء پر ہے کہ اللہ نے اس کی پیدائش کے لئے میرا گھر منتخب فرمایا ہے۔ یہ بیٹا میرے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اللہ ہم سب کا مالک اور مختارِ کُل ہے۔ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے حکم دے ہم سب اس کے تابع فرمان ہیں۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ کے جواب سے ابلیس کو سخت مایوسی ہوئی لیکن اس نے حکم الٰہی کی تعمیل سے انہیں باز رکھنے کی کوشش جاری رکھی۔ اسے ایک اور ترکیب سوجھی کہ حضرت اسماعیلؑ کی کم عمری کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے باپ سے متنفر کر دے لیکن حضرت اسماعیلؑ نے اس کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا۔’’میں اس بات پر بخوشی راضی ہوں جو میرے اللہ کا حکم ہے ، میرے والد اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ملائکہ مقربین کے سردار جبرائیل ان کے پاس وحی لے کر آتے ہیں، ان کا ہر عمل اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ مجھے قربان کر دینے کا حکم انہیں اللہ کریم نے براہ راست خواب میں دیا ہے اور انبیاء کے خواب سچ ہوتے ہیں۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ قربان گاہ کی طرف جاتے ہوئے ابلیس نے تین بار ان کے ارادہ میں خلل انداز ہونے کی کوشش کی اور ہر بار حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے اس پر سنگ باری کی اور اس کو اپنی راہ میں حائل ہونے نہ دیا۔ یہی وہ سنت ہے جس کو حجاج کرام ہر سال حج کے موقع پر دہراتے ہیں اور یہ سنت ’’رمی‘‘ کہلاتی ہے۔

دونوں باپ بیٹے جب اس مقام پر پہنچے جو موجودہ زمانے میں ’’مِنیٰ‘‘ کہلاتا ہے تو حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا اور گلے پر چھری پھیر دی۔ اللہ نے چھری سے کاٹنے کی طاقت کو روک دیا- حضرت ابراہیم نے چھری کو چلنے کا حکم دیا اور ایسا تین بار ہوا- اور تب اللہ کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی فرمایا؛

’’اور ہم نے اس کو پکارا یوں کہ اے ابراہیم تو نے سچ کر دکھایا خواب، ہم یوں دیتے ہیں بدلا نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہی ہے صریح جانچنا اور اس کا بدلا دیا ہم نے ایک جانور ذبح کو بڑا۔‘‘(سورۃ الصّافات – آیت 105 تا 107)

حضرت ابراہیمؑ کی تابعداری اور حضرت اسماعیلؑ کی فرمانبرداری بارگاۂ ایزدی میں مقبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبح ہونے سے بچا لیا۔ ان کی جگہ جس جانور کی قربانی دی گئی اس سے متعلق روایت یہ ہے کہ وہ جنّت سے لایا گیا ایک مینڈھا تھا۔ یہی وہ عظیم قربانی ہے جس کو تا قیامت امت مسلمہ کے لئے عملی نمونہ بنا دیا گیا ہے۔

بعد اس کے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا-
کعبتہ اللہ کے بارے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے اسے فرشتوں نے تعمیر کیا پھر اسی جگہ پر حضرت آدم علیہ السلام نے اور بعد ان کے ان کے بیٹے حضرت شیث علام نے بیت اللہ کو بنایا- پھر طوفان نوح میں یہ عمارت بھی ختم ہوئی- بعد اس کے ٹھیک اسی جگہ پر حضرت ابراہیم کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا گیا-

حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ آتے تو قیام نہ کرتے مگر تیسری بار پھر تشریف لائے ، اللہ کا حکم تھا کہ تعمیر کعبہ کریں ۔ پہنچے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو درخت کے سائے تلے زم زم کے پاس بیٹھے پایا، آپ تیر بنارہے تھے ، حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دیکھا تو کھڑے ہو گئے ، باپ بیٹے بغل گیر ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ” بیٹا اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام بولے ”تو اطاعت کیجئے “۔ فرمایا “ کیا تو میری مدد کرے گا ؟ کہا “ کیوں نہیں ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم بناتے جاتے تھے ، جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر اٹھا کر لائے تاکہ آپ اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کریں (یہی مقام ابرہیم علیہ السلام ) دونوں باپ بیٹے دعا کرتے جاتے تھے کہ ” اے پروردگار ہم سے قبول فرماتو سننے والا جاننے والا ہے۔

انہوں نے اس گھر کی تعمیر نہ مٹی سے کی نہ چونے سے بلکہ بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے ۔ نہ اس کی چھت بنائی بعدازاں مختلف ایام میں بیت اللہ کی تعمیر ہوتی رہی ۔ حتیٰ کہ قریش نے اس کی تعمیر کی ۔ کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر بیس سال تھی ، بعض مورخین نے کچھ زیادہ بھی بتائی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجر کو بیت اللہ کے پہلو میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت تھی ۔پہلے بیت اللہ کی جگہ ایک سرخ ٹیلا تھا۔ جسے اکثر سیلاب ادھر ادھر سے کاٹتا رہتا تھا۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر خانہ کعبہ سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ایک ایسے پتھر کا مطالبہ کیا جسے بطور علامت کے رکھ سکیں تاکہ وہ آغاز طواف کے لئے بطور نشانی کے استعمال ہو سکے کہتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس پتھر کو بوقبیس پہاڑ سے لائے تھے۔ آپ نے اس اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے روایت ہے کہ یہ بہت زیادہ روشن تھا۔  حضرت جبریل علیہ السلام نے تمام مقام دکھائے پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لئے پکاریں

واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالاوعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق ط

اعلان کردیجئے لوگوں کو حج کے لیے ، وہ آئیں گے پیدل اور دیلی اونٹنیوں پر سوار جوآئیں گی ہر وسیع گہرے راستہ ہے۔

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ” پروردگار! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” آپ پکاریئے ہم آپ کی پکار کو لوگوں تک پہنچادیں گے۔  تفسیرجلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوقبیس پہاڑ پر چڑھ کر پکارا ” اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم اپنے پروردگار کو لبیک کہو۔

آپ نے داہنے ، بائیں شمال وجنوب میں منہ کرکے آوازدی اور لوگوں نے لبیک کہی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہرسال حج کے لئے آیاکرتے بعدازاں تمام انبیاء اور ان کی امتیں حج کے لئے آتے رہے ۔ مجاہد لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل نے پیادہ پاحج کئے، روایت ہے کہ پچھتر انبیاء نے حج کیا اور منیٰ میں نماز ادا کی۔

آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑا سا تذکرہ پیچھے حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق کے متعلق اور کچھ اشکال جن کا جواب اسلامی تاریخ میں مذکور ہے-

حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت ابرہیم کے دوسرے بیٹے تھے جو حضرت اسماعیل کے تیرہ برس بعد پیدا ہوئے تھے- یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق جس بچے کو اللہ کے راستے میں ذبح کرنے کا خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا وہ حضرت اسحاق ہی تھے- لیکن قرآن ان اس کے اس بیان کی تردید کرتا ہے- کہ ابراہیم اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے لگے تھے-

اور عیسائیوں کی کتاب بائبل کے مطابق بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل سے زیادہ محبت کرتے تھے- بائبل کا بیان ہے کہ جس بیٹے کو قربانی کے لیے پیش کیا جانا تھا،وہ ’اکلوتا بیٹا‘ تھا، جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام محبت کرتے تھے۔ یہ’ محبت ‘ والا نکتہ نہایت اہم ہے اور اس سے سرسری طور پر نہیں گزر جانا چاہیے۔’حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محبت کس بیٹے سے تھی؟‘ بائبل میں ذکر ہے؛

"اور ابرہام ؑ نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ؑ ہی تیرے حضور جیتا رہے۔ تب خدا نے فرمایا کہ بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا۔ تو اس کا نام اضحاق ؑ رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد، جواَبدی عہد ہے، باندھو ں گا۔اور اسمٰعیل ؑ کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی، دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا”

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت ابرہیم نے فرمایا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہتا- گو کہ روایات میں حضرت ابراہیم کی اور بھی شادیوں کا ذکر ملتا ہے اور ان سے آپ کی اور بھی اولاد کے بارے معلومات ملتی ہیں لیکن یہاں اس عبارت میں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کی پیدائش سے بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی- اور حضرت اسماعیل سے محبت کا ذکر یوں ملتا ہے کہ کاش وہ ہی تیرے حق میں جیتا رہتا- یعنی مجھے تو وہ بہت تھا اب بڑھاپے میں اولاد ہو گی تو لوگ کیا کہیں گے-

گو کہ بائبل میں حضرت اسحاق کی شخصیت کو بہت عام سا پیش کیا گیا ہے اور ان سے کوئی قابل ذکر واقعہ بھی مذکور نہیں ہے- اور اگر ہے بھی تو حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے واقعات کے سامنے اتنا قابل ذکر نہیں ہے- بائبل میں مذکور ہے کہ

"اسحاق کی شخصیت اتنی نمایاں نہیں جتنی ان کے والد کی ہے۔ ان میں دلیرانہ اوصاف کی کمی ہے۔ نرمی اور سکون کی خواہش کی زیادتی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں بے دلی کا غلبہ تھا۔(…)۔ ابی ملک سے اپنے تعلقات کے بارے میں وہ ڈھلمل یقین اور بودے ثابت ہوئے۔ دوسرا آدمی بآسانی ان پر غالب آجاتا تھا اور وہ اپنے گھرانے کے بھی کوئی اچھے حاکم و منتظم نہ تھے۔ وہ فیاض اور نرم دل تو تھے، لیکن مضبوط آدمی نہ تھے۔”

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل کے علما کے مطابق حضرتِ اسحاق علیہ السلام کی شخصیت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مقابلے میں کم جاذبِ نظر اور متاثر کن تھی، تاہم اسلامی اقدار و روایات کے لحاظ سے اس کی تائید ممکن نہیں۔ اسلام کے مطابق یہ دونوں ایک ہی مرتبے کے انبیا تھے۔ اب یہ بات کسی طرح موزوں نہیں کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے زیادہ محبت اور وابستگی کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ وہ جسمانی طور پربھی مضبوط تھے اور عملی تعاون بھی فراہم کر سکتے تھے۔

اس کے برعکس یہود آپ ؑ کی نبوت کے پوری طرح قائل ہیں بلکہ ان کے نوشتوں میں آپ ؑ کے معجزات وکرامات کثرت سے درج ہیں ، روایات یہود میں یہ بھی ہے کہ آپ ؑ صورتاً حضرت ابراہیم ؑ سے بہت مشابہ تھے کنعان یا فلسطین کے ملک میں آپ ؑ کی زندگی بڑی خوشحال گزری۔

توریت میں ہے:

“اضحاک ابی ملک باس جو فلسطین کا بادشاہ تھا ۔جرار تک گیاتھا اور خداوند نے اس پر ظاہر ہوکے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں گا اور تجھے برکت بخشوں گا کیونکہ تجھے اور تیری نسل کو یہ سب ملک دوں گا اور میں اس قسم کو جو میں نے تیرے باپ ابراہام سے کی وفا کروں گا۔”

للہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن عزیز میں کئی مقامات پر حضرت اسحٰق علیہ السلام کی تعریف فرمائی ہے ۔
پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیر اللہ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا
اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی ( سورۃ مریم )

اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، اور ہر ایک کو صالح بنایا-

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

بے شک کریم بن کریم بن کریم یوسف بن اسحٰق بن ابراہیم ؑ ہیں ۔ یہ سب قوت وفراست والے لوگ تھے ۔اللہ نے انھیں ایسی قوت عطا کی جو اللہ کی طرف راغب ہونے اور عبادت میں مدد دیتی ۔ ہر انسان کو چاہیے کہ دین میں فہم وفراست ، غور وفکر پیدا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ عبادت کی توفیق لذت وسکون عطا کرتے ہیں اصل آنکھ ہے جس شخص کو اللہ نے دین کا فہم دیاگویا وہ بینا ہے اور جنہوں نے دین سے منہ موڑ لیا قیامت میں وہ اندھا اٹھایاجائے گا ۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یعقوب ؑ کو اللہ نے چن کیا تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دی۔

تبصرے بند ہیں۔