محافظ کے بھیس میں چھپے درندے

احساس نایاب

کس پہ کریں یقیں کس کو ہم اپنا سمجھیں

چہرے پہ چہرہ لگائے چھلاوے گھومتے ہیں

خدارا کوئی تو ہو جو انساں سے انساں کی پہچان کرادے

سنا ہے قیامت اور جہنم کا منظر بہت خوفناک ہوتا ہے لیکن آج کے دور میں جس طرح کی زندگی میسر ہورہی ہے وہ تو اور بھی بھیانک ڈراؤنی اور خوفناک ہے۔ انسان کے بھیس میں چند ایسے جنگلی جانور گھوم رہے ہیں جنہیں ہم اپنی جان و مال کے محافظ سمجھ کر انکی موجودگی سے مطمئن رہتے تھے آج وہی عوام کے محافظ کہلانے والی پولیس ڈاکو، لْٹیرے، دلال بنکر غریب بھولی بھالی عوام کو لوٹ رہی ہے۔ جاں و مال آبرو پہ کھلے عام ڈاکہ ڈالتے ہوئے ڈرا دھمکا کر اپنی طاقت کا استعمال کر ننھی سی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا شکار بناکر قتل کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے۔

اگر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے تو ایک بار جموں و کشمیر ریاست کے صوبہ جموں کے ہندواکثریتی ضلع کٹھوعہ کے گائوں رسانہ کی 8 سالہ معصوم آصفہ کے بارے میں جاننے کی کوشش ضرور کریں جو مسلم گجرطبقہ سے تھی،ننھی سی آصفہ ایک ماہ پہلے ہنستی کھلکھلاتی بے فکر اپنے ماں باپ کے ساتھ اپنی چھوٹی سی خوبصورت دنیامیں جی رہی تھی‘ کہ ایک دن اچانک سے دو حیوانی صفت درندوں کا شکار بن گئی اور وہ حیوانی درندے کوئی اور نہیں بلکہ وہیں کے دو پولیس اہلکار ہیں جنکا نام دیپک کھجوریہ اور سوریندر کمار ورماہے۔ انہوں نے ننھی آصفہ کو جبراً اغواء کر لگاتار 7 دنوں تک اس معصوم بچی کے ساتھ غلط حرکتیں کرتے ہوئے اذیتیں دیتے رہے۔ گِد بنکر اس ننھی سی بچی یعنی آصفہ کے جسم کو نوچتے رہے اور آخرکار معصوم آصفہ کا بے رحمی سے قتل کر اْس بچی کے نازک جسم کو خون سے تربتر کر جنگل میں پھینک دیاگیا۔جب اس بات کا پتہ سارے علاقے میں اور آصفہ کے گھر آس پڑوس والوں کو پتہ چلا جو 7 دنوں سے آصفہ کی گمشدگی سے پریشان تھے،پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے باوجودکوئی پیش رفت نہ ہورہی تھی، ان غربت کے مارے لاچار ماں باپ کو آج سات دنوں بعد اپنی معصوم بچی کی لاش اس حالت میں ملی کہ دیکھ کرپہ قیامت ٹوٹ پڑی، وہ روتے بلکتے ہی رہ گئے کوئی انکی فریاد سننے والا نہیں تھا نہ پولیس نہ کوئی سیاستدان۔

لیکن چند علاقائی لوگ اور صحافیوں نے آصفہ کے ماں باپ کے ساتھ مل کر انصاف کی مانگ کی اور پرزور احتجاج کرنے لگے تو یہ دیکھ کر بوکھلائے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس ا یس ڈی سنگھ جملوا اورسینئر سپریڈینڈینٹ آف پولیس سلیمان چودھری ان دونوں نے تحقیقاتی عمل کو گمراہ کرنے کے ارادے سے خود کو اور اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی اور آصفہ کی عصمت زیزی اور قتل کا الزام ایک کم عمر نابالغ لڑکے کے سر تھوپ کر اس نابالغ لڑکے کو حراست میں لیااورایک طرح سے معاملہ گول کرنے کی کوشش کی، لیکن ایک کم عمرلڑکا مسلسل سات دِنوں تک ایک بچی کواغواکرکے رکھے، عصمت ریز کرے اور پھر قتل کردے، یہ قابل یقین بات نہ تھی، کسی کوبھی یقین نہ آیا،لوگ سڑکوں پراُترے، احتجاجی تحریک چلی،اتفاق سے ریاستی قانون سازاسمبلی کابجٹ اجلاس رواں تھا،ایسے میں اپوزیشن کوبھی آصفہ کامدعاملااور اُنہوں نے بھی ایوانوں میں ہنگامہ کردیا،دبائومیں آتے ہوئے ریاستی حکومت نے معاملہ کرائم برانچ کے سپرد کردیا،کرائم برانچ کے آئی جی پی ایک صاف وشفاف شخصیت کے مالک ہیں جن کے کام پرکوئی شک وشبہات کی گنجائش نہیں، اب تک کل تین گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، جن میں دوپولیس کے ایس پی اوہیں ان درندہ صفت اہلکاروں کے علاوہ ایک کم سن لڑکابتایاجاتاہے جس کی شناخت ظاہرنہیں کی گئی ہے، تاہم پولیس کے مطابق وہ بھی اس سازش کاحصہ رہاہے۔

افسوس جس ملک میں آئے دن جنسی استحصال کی وارداتیں عام ہوچکی ہیں، ہر دن کوئی نہ کوئی معصوم ایسے درندوں کی حیوانیت کا شکار ہورہاہے، وہیں ایک بڑا طبقہ ایسے وحشی درندوں کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے، جب کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد قتل کا خلاصہ ہوا اور حراست میں پوچھ تاجھ کے دوران آصفہ کے قاتلوں نے خود اپنا گناہ قبول کرلیا اور اس سازش میں ان دو خاکی قاتلوں کے ساتھ اور بھی اور بھی لوگ شامل ہونے کے خدشات ہیں ، ایسے میں سب کچھ جانتے بوجھتے جبکہ ہر بات آئینہ کی طرح صاف ہے پھر بھی چند شر پسند لوگوں نے اپنی گندی تعصب بھری ذہنیت کو پیش کرتے ہوئے قاتلوں کے دفاع میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور انکے ساتھ کئی ہندتووادی تنظیمیں جیسے ہندو ایکتا منچ بھی شامل ہیں ایسا لگتا ہے انکا مقصد علاقے میں آباد مسلم آبادی کو خوفزدہ کر انہیں ہجرت کرنے پہ مجبور کرنا ہے اور ان سب کے بیچ سیاسی جماعتوں کا دوغلہ رویہ انکی مفاد پرستی سامنے آنے لگی ہے جب ہندو ایکتا منچ اور دو سیاسی جماعتیں قاتلوں کے دفاع میں جلوس نکالتے ہوئے راستے پہ اتر آئے اور گجر کمئیونٹی کو بائیکاٹ کرنے کی سازش رچتے ہوئے ان سے کسی بھی قسم کی خریدوفروخت پہ پابندی لگا کر انہیں ہراساں کررہے ہیں ۔

 ایسے حالات ہندوستاں کی تاریخ میں بیحد شرمناک بات ہے جہاں معصوم بچی کے قاتلوں کے بچاؤ میں ترنگے کو لہراتے ہوئے ہمارے ترنگے کی آن بان شان کو داؤ پہ لگایا جارہا ہے یہ ترنگے کی توہین ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ایسے لوگ انسان کہلانے کے قابل ہیں بھی ہیں یا نہیں ایسے لوگ ایسی پولیس اور ایسی تنظیمیں ہندوستان کے لئے بدنماء داغ ہیں اور یہ انسانئت پہ سوالیہ نشان ہیں کہ ایسی تنظیمیں عوام کی ہمدرد ہیں یا انسانی بھیس میں چھپے درندوں کے دلال ؟

آج ہندوستاں کی125کروڑ آبادی کو ننھی آصفہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ جب زینب کے قاتل کو پڑوسی ملک میں جہاں جمہوریت کی حالت اتنی بہترنہیں ہے‘پھربھی نصاف کابول بالاہوااور اس شیطان صفت درندے کوسزائے موت سنائی گئی جب دہلی میں ہوئی نربھیا عظمت ریزی پہ سارا ہندوستان ایک ہوسکتا ہے تو ننھی آصفہ کو انصاف دلانے کے لئے سارا ہندوستان کیوں ایک نہیں ہوسکتا ؟؟؟ جبکہ آصفہ بھی ہندوستاں کی بیٹی ہے ……!!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔