احمد علی برقیؔ اعظمی
کیسے کروں میں گردشِ دوراں کی شرحِ حال
برپا ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال
…
سوزِ دروں نے کردیا جینا مرا مُحال
قلب و جگر کے زخم کا کب ہوگا اِندمال
…
میرا یہی ہے کاتبِ تقدیر سے سوال
کیا ہوگی اپنی عظمتِ رفتہ کبھی بحال
…
ہم ہیں شکارگاہِ جہاں میں شکار آج
راہِ فرار کوئی نہیں ہے بچھا ہے جال
…
ملتے ہیں میر جعفرؔوصادقؔ نئے نئے
ہے بھیڑیوں کے جسم پہ انساں کی آج کھال
…
جو آج زرخرید ہیں اُن کا عروج ہے
جو سربلند تھے اُنھیں درپیش ہے زوال
…
بیدار مغز جو ہیں وہ ہیں مصلحت پسند
قحط الرجال ایسا ہے جس کی نہیں مثال
…
محفوظ جو سمجھتے ہیں اپنے کو ایک دن
کردے گی اُن کو گردشِ دوراں یہ پایمال
…
ایک ایک کرکے سب کو بنائے گا وہ شکار
شطرنج کی بساط پہ جو چل رہا ہے چال
…
اب بھی ہے وقت ہوش میں آ ڈس نہ لیں تجھے
تو اپنی آستین میں یہ سانپ اب نہ پال
…
بیجا مداخلت سے رہیں اُن کی ہوشیار
کرتے ہیں ظلم امن کو جو اب بنا کے ڈھال
…
مٹتے ہی جارہے ہیں جو عظمت کے تھے نشاں
محفوظ آج کچھ نہیں وہ جان ہو کہ مال
…
صُبحِ اُمید آئے گی کب تیرگی کے بعد
برقیؔ ہے آج ذہن میں سب کے یہی سوال
تبصرے بند ہیں۔