ملت کا اپنی مونس و غمخوار بھی تو ہو

احمد علی برقی ؔاعظمی

ملت کا اپنی مونس و غمخوار بھی تو ہو

کوئی تو اِن میں قافلہ سالار بھی تو ہو

کب سے جگا رہا ہوں یہ جاگیں تو کچھ کہوں

خوابِ گراں سے جب کوئی بیدار بھی تو ہو

قول و عمل پہ کیسے کروں اس کے اعتبار

اُس بدنہاد کا کوئی کردار بھی تو ہو

اب تک تھا جن سے سابقہ تھے مارِ آستیں

دل کس سے میں لگاؤں کوئی یار بھی تو ہو

سنتا نہیں ہے آج کوئی میرے من کی بات

میں کس کو دوں بیاں کوئی اخبار بھی تو ہو

حسرت بھری نگاہ سے دیکھوں میں کیا وہاں

ارزاں متاعِ کوچہ و بازار بھی تو ہو

برقیؔ سبھی کو اچھے دنوں کا ہے انتظار

کہتے ہیں سب یہی کوئی بیزار بھی تو ہو

تبصرے بند ہیں۔