معلم ہوں، مزدور نہیں

الطاف جمیل ندوی

بڑے دنوں سے اپنے ہاں اساتذہ کی مارپیٹ کے مناظر  دیکھنے کو ملے ان کے چہرے و جسم پر لات گھونسوں  کی بارش ہوتی دیکھی انہیں سرعام گھسیٹا گیا کبھی کبھار تو لاٹھی بھی چلی ان پر تب یہ بات دل میں سما گئی کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اساتذہ کرام کی تذلیل و تحقیر کرنے والے کسی بہتر ذہنیت کے ہوہی نہیں سکتے جنہیں یہ احساس ہی نہیں  اب تو ہوا چلی ہے کہ اساتذہ کرام کو اپنے ہی طلبہ سے مار کھانی پڑھتی ہے اور کچھ میڈیائی بدتمیز اس پر بھی بک بک کرنے دوڑ پڑھتے ہیں کہ استاد کی یہ غلطی ہے ایسا کیا وہ کیا مطلب خطا استاد کی ہے دوسری طرف ہمارے ہاں کے کچھ اساتذہ  ایسے بھی ہیں جنہیں استاد کہنے کے بجائے کچھ اور کہنا بہتر ہے ان کی دماغی حالت کچھ ایسی ہے کہ یہ خود کو آسمان میں اڑھتا پرندہ  جانتے ہیں ان کے قدم بھی زمین کو چھوتے نہیں۔

 بچیوں کو غلط راہ پر ڈالنے والے معصوم بچیوں کے ساتھ ڈانس پارٹی کرنے والے گالی گلوچ کرنے والے ہٹلر کا کردار نبھانے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم اساتذہ ہیں نہ وہ تو مزدور ہیں معلم نہیں میں مخاطب ہوں معلم سے اب یہ بھی لازمی نہیں کہ کوئی گر اس پیشے سے وابستہ ہے تو وہ سب استاد ہیں نہیں بلکہ استاد کے لئے لازمی نہیں کہ وہ اسکول میں ہی ہو وہ کہیں بھی ہوسکتے ہیں جہاں وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہوں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی ترقی اس کی تعلیمی ترقی کے ساتھ منسلک ہے۔ کوئی ملک تعلیمی طور پر جتنا مستحکم ہو گا اس کی معاشی حالت بھی اتنی ہی بہتر ہو گی تاہم تعلیمی بہتری کے لئے ایک اور چیز بہت اہم ہے جسے اکثر اوقات نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ ہے اساتذہ کی معاشی خوشحالی اور ان کی عزت پہلے اساتذہ صرف معاشی بدحالی کا گلہ کرتے تھے۔ ان کا احترام بہرحال ہوتا تھا اب صورحال یکسر بدل گئی ہے معاشی بدحالی کا عفریت تو ان کو پہلے ہی ڈستا تھا  اب احترام بھی بدترین بے حرمتی میں بدل گیا ہے  اب تو ہمارے وطن میں استاد کو اپنے ہی شاہگرد سرراہ پیٹتے ہیں اس کے چہرے پر رنگ لگاتے ہیں دوسری طرف اگر اساتذہ اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے لئے کوشش کریں تو صاحب اسے بیچ بازار کے ادہ موہ کرنے میں بلکل بھی ججکتا  نہیں اور استاد بیچارہ  اپنا خون پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے گھر کی راہ لیتا ہے اور بیکسی و بے بسی کے ساتھ کبھی کبھار دو آنسو بھی بہا دیتا ہے۔

  اس کی بڑی وجہ معلمی کو پیشے کا درجہ دینا ہے پہلے اسے خدمت مانا جاتا تھا۔ اسے پیشے کا درجہ ملنے کے بعد چند لوگوں نے تو اس سے بہت دولت کمائی لیکن خدمت کے جذبے سے معلمی کا پیشہ اختیار کرنے والے بہت پیچھے رہ گئے۔ اگر سبھی اساتذہ دولت کمانے کا سوچتے تو بات کچھ اور تھی خدمت کے چکر میں پڑنے والے معاشی طور پر بھی پیچھے رہ گئے اور احترام کے معاملے میں بھی کیونکہ احترام بھی اسی کا کیا جاتا ہے جس کے پاس کوئی عہدہ ہو   یا پھر دولت ارباب اقتدار گر ان کی مجبوریوں کا احساس نہ کرپائے تو سمجھا جائے گا کہ یہ ایک ایسا طبقہ ہے جو قوم و ملت کو روشنی سے نکال کر اندھیرے کی نظر کرنا چاہتا ہے اسی لئے اساتذہ کو رسوا کرنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں یہ قوموں کی  موت کی ایک نوید ہے کہ انہیں جاہل گنوار رکھا جائے تعلیمی سرگرمیوں  کو تباہ و برباد  کیا جائے تعلیم حاصل کرنے کے راستوں کو پرخار بنایا جائے۔

 معلمین کیا کریں؟ 

کار نبوت سے وابستہ افراد یعنی کہ اسا تذہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے اندر معلم کے صفات و خصائل پیدا کریں دور اندیشی کا مظاہرہ کریں اسباق پڑھنے کے بعد طلباء کے سوالات کا تحمل سے سامناکر یں اور بہت ہی تحمل صبر اور دانش مندی سے طلباء کے سوالات کے جوابات دیں اور دلیل سے طلباء کو مطمئن کریں مشفقانہ  رویہ  اختیار کریں نرمی حلم بردباری قوت برداشت  اخلاص دیانت داری زمہداری  کو اپنے اندر پیدا کریں نہ کہ اپنے طلباء کو ان کے سوال کرنے پر  مذاق اور اپنے عتاب کا نشانہ بنائیں ضد نفرت کدورت چیقلش کو اپنے دل و دماغ میں نہ بسائیں  یہ سب اساتذہ کی شان نہیں بلکہ چور اچکوں کے طریقہ واردات ہیں۔

دنیا کی سب سے معظم و بر گزیدہ شخصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حا ضر ہو کر زنا کی اجازت طلب کر تا ہے۔ قربان جائیے معلم انسانیت پر کہ آپ کی پیشانی پر کوئی شکن تک نہیں ابھری اور آپ نے بڑے صبر و تحمل سے فرمایا کہ کیاتم اجازت دے سکتے ہو کہ کو ئی شخص تمہاری ما ں، بہن، بیوی یا بیٹی سے زنا کر ے اس نے کہا کہ ہر گز میں اجازت نہیں دے سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کسی خاتون سے وہ منہ کا لا کر ے گا وہ بھی کسی کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہے اسی لئے تم اپنے آپ کو اس گناہ سے روک لو۔ گنا ہ کی رغبت رکھنے والا آپ کی تعلیم کے نتیجے میں زنا جیسے خبیث گنا ہ سے نفرت کر نے لگتاہے۔

عہدِ حاضر کا استاد

اگر ہم  ان باتوں  کو سامنے رکھ کر عہدِ حاضر کے استاد کا موازنہ کریں تو ہم دم بخودرہ جائیں۔ تعلیمی وسائل کی بہتات کے باوجود آج ہمارے ہاں ایسی کھیپ تیا رنہیں ہورہی جس سے ملک وملت کوکوئی خاطر خواہ فائدہ پہنچے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیم کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل کی کثرت سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوجاتا اخلاقی، تمدنی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اقدار کو چار چاند لگ جاتے  راحتیں، امن وسکون، امانت، دیانت، محبت، الفت  اور بھائی چارگی کی پر سکون فضاء اور ماحول بن جاتااور پوری قوم نہ صرف مہذب بن جاتی، بلکہ اقوام ِعالم کی قیادت وسیادت کے لیے فیورٹ بن جاتی۔ لیکن افسوس یہ سہانے خواب شرمندہ تعبیر  ہونے کے بجائے محض خواب  اور ماضی کی قصے کہانیاں بنتے جارہےہیں۔

اگر ہم اس خواب کی تعبیر میں رکاوٹ بننے والے اسباب تلاش کریں تو بنیادی سبب قوم کے معماروں کی عدم توجہ اور غفلت کا نظر آئی  گی اس کے اسباب جاننے لازمی ہیں یہ کوئی ایسا پیشہ نہیں جس کی خامیوں کو فراموش کرنے سے کوئی فرق نہ آتا ہو بلکہ یہ قوموں کو تباہ و برباد کرنے کا ایک طریقہ ہے جسے اب مہذب معاشرہ خود کو بتانے والے نظر انداز کرکے آنے والے دنوں میں ایک ایسی الہڑ جاہل قوم کو تیار  کرنے میں معاون بنتے جارہے ہیں اور کسی کو اس کا احساس ہی نہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں  بدر سے واپسی پر جب قیدیوں کے بارے میں بات ہوئی تب  بھی اہل ایمان نے اپنی اس علمی پیاس کا احساس کرتے ہوئے قیدیوں کی علمی صلاحیتون سے استفادہ کرنے کی خاطر ان کی سزائیں معاف کیں  جبکہ حالات جنگ میں کوئی قوم بھی اپنے ہوش و حواس کھو دیتی ہے مگر اسلامی  معماروں نے حالت جنگ میں بھی اس ضرورت کو فراموش نہیں کیا جوکہ ہمارے لئے ایک نمونہ کامل ہے۔

کیونکہ  علم و فن کے بغیر کوئی بھی کام یابی کے سفر پر گام زن نہیں ہوسکتا اس لیے جو جس قدر علم وادب کا زیادہ طالب ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ کام یابی کی  شاہراہ پر گام زن ہوگا   کیونکہ اساتذہ ہی ہیں جو قوم کے معمار ہوتے ہیں انہی کے دم سے ہم تم صاحب دستار ہوتے ہیں    استاد قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں  اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے اساتذہ اپنے آج کو قربان کر کے بچوں کے کل کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ خلیفہ وقت ہارون الرشید نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں  حدیث پڑھا دیا کریں امام مالک نے فرمایا ’علم کے پاس لوگ آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو۔ خلیفہ آیا اور حلقہء درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اورفرمایا خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے یہ سنتے ہیں خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑے ہوگےان عظیم ہستیوں کے سامنے اپنے استاد کی یہ قدر تھی کہ خلیفہ ہونے کے باوجود اپنے استاد کے سامنے بغیر کچھ کہے کھڑے ہوگے۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کی عزت کیوں نہ کی جائے استاد کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے استاد ہی کی محنت  کی وجہ سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ بغیر استاد کے انسان اس اندھے کی مانند ہے جو بغیر سہارے کے سفر میں نکل جاتا ہے جس کی تباہی و بربادی  یقینی ہے کیونکہ اسے خود اپنی راہ کا علم ہی نہیں ہوتا  اقوام غیر میں اب بھی کہیں کہیں استاد کی تعظیم کرنے کی مثالیں ملتی ہیں جیسے کہ اشفاق احمد لکھتے ہیں برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پرجرمانہ عائد کیا گیا میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کر سکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا، تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں اس لیے میں چالان جمع نہیں کر سکا، تو جج نے بولا The teacher is in the court، اور جج سمیت سارے لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے، اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ فرانس میں ان کا چالان ہوگیا اور وہ چالان جمع کرانے عدالت گئے۔ جب جج کو معلوم ہوا کہ سامنے کھڑا شخص ایک استاد ہے تو جج اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ اور حیرت سے کہا ’’استاد عدالت میں ‘‘اشفاق احمد فرماتے ہیں جج نے نہایت عزت و احترام سے انہیں رخصت کیا۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت، عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاددراصل قوم کا محافظ ہوتاہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے، سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے، معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔

معلّم کی یہ عظمت، مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع، صبر واخلاص کا پیکر، علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہواہو۔ استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت، صداقت، شجاعت، قوت برداشت، معاملہ فہمی، تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہیے کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک، اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان تو طلبہ خود ان اساتذہ کے قدر دان ہوں گے العرض اساتذہ کرام شریعت اور سنت کے پابند، اپنے منصب کے قدر دان، طلبہ پر مشفق اورجذبہ خیر سگالی سے سرشارہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی ان ہی صفات حمیدہ کی حامل ہوں گی۔ گلشن محمدی ﷺجس کی آبیاری کے لیے پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ نے اپنی ساری توانائیاں و صلاحیتیں خرچ کر ڈالیں تھیں، وہ ملت جس کی شان و شوکت اور عروج اپنوں کی غفلت اورغیر وں کی عیاری کی وجہ سے ماندہ پڑا ہو ا ہے۔ معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امت محمدیہ ﷺکی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں، وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں، جوتحقیق و جستجو کے میدانوں کے شاہسوار اور علم کے شناور ہوں، جو دنیا کو امن و سلامتی کادرس اور محبت کا پیغام دینے والے ہوں۔ ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین، امت کے معماروں، نگرانوں، قائدین اور رہبروں کے ساتھ ہو۔

یہی میری تمنا ہے اور یہ میری جستجو اسی لئے تو کہتے ہیں کہ والدین کے بعد استاد ہی انسان کو بلندیوں میں پرواز کے ہنر سکھاتا ہے طلبہ عزیز اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ دنیا کا معزز ترین پیشہ معلمی کا پیشہ ہے بس استاد یہ سمجھے کہ میں اسکول نہیں بلکہ مسجد جارہا ہوں جہاں مجھے بندگان  رب الکریم  کو نیکی اور  پارسائی  کا درس دینا ہے یہ میری مزدوری نہیں بلکہ یہ میری زمہداری ہے یہ میرے لئے عبادت ہے سعادت ہے  آخر پر آپ سے کہتا چلوں کہ ہم سب کی تعمیر میں اساتذہ نے سخت محنت و مشقت کی ہے عزت کی بلندیوں پر کبھی اپنے اساتذہ سے منہ نہ موڑیں  بلکہ ہمیشہ خود سے زیادہ ان کی عزت کیا کریں یہی ہے نوید فلاح و کامرانی۔

تبصرے بند ہیں۔