خدمت قرآن کا عظیم موقع

محمد سالم قاسمی سریانوی

ساری تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے سزاوار ہیں، جس نے محض اپنی توفیق سے آج سے ہمیں باقاعدہ ’’درس قرآن‘‘ کی عظیم خدمت کا موقع دیا، پہلے بھی بارہا اس پر غور کیا اور کسی نظام عمل کا جائزہ لیا، لیکن شروعات نہیں کی ہوسکی تھی، اس لیے کہ ہر چیز کا اللہ کے یہاں ایک مقررہ وقت ہوتا ہے، چناں چہ اللہ کی توفیق سے آج ہی بعد نماز مغرب جامع مسجد انس (رضی اللہ عنہ) پچھم جامع مسجد سریاں مبارک پور اعظم گڑھ میں باقاعدہ ’’درس قرآن‘‘ کا آغاز کیا گیا، ان شاء اللہ یہ سلسلہ ہفتہ واری ہوگا اور اسی ترتیب سے چلتا رہے گا۔ الحمد للہ اس پر بہت ہی عمدہ رد عمل رہا، اور لوگوں نے خوب سراہا، اللہ سے دعا ہے کہ اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کو کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

’’درس قرآن‘‘ کی اہمیت وافادیت اہل علم وبصیرت کے یہاں مسلم ہے، کسی کو اس سے انکار نہیں ہے، لیکن آج کل موجودہ حالات کے تحت اس کی اہمیت وافادیت مزید دو چند ہوجاتی ہے، کیوں کہ ہندوستان جن نازک حالات سے دو چار ہے، اس کی نظیر نہیں ہے، ایسے پس منظر میں عام مسلمانوں اور دیگر برادران وطن کو قرآن کے آفاقی وعالم گیر پیغام سے روشناس کرانا اور اس کے مطابق پابند عمل بنانا نہایت ہی ضروری ہے۔

بعثت نبوی ﷺکے مقاصد کے تحت جو تیسرا مقصد ہے وہ اسی حوالے سے ہے، جس کو اللہ رب العزت نے ’’تعلیم کتاب‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، اور در حقیقت قرآن کی تعلیم، اس کے معانی ومفاہیم کی تعیین، خدا کے آفاقی وابدی پیغام کی جو تشریح خود جناب رسول اللہ ﷺ کرسکتے ہیں اس کا تصور کسی اور سے نہیں ہوسکتا، قرآن ہی نے ایک جگہ نزول قرآن کا مقصد ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔ (سورۃ النحل:۴۴)

’’کہ ہم نے آپ کی جانب ذکر یعنی قرآن نازل کیا ہے تاکہ آپ ان سے کھول کھول کر وہ باتیں بیان کریں جو ان کی جانب نازل کی گئی ہیں اور تاکہ وہ لوگ غور وفکر کریں ‘‘، اس لیے اس عظیم ومبارک مقصدکو ہمیں بھی اپنی زندگی کے اندر اتارنا ہوگااور اس کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگاہے۔

آج کے اس مادی ودہریاتی دور میں جہاں اور علوم اسلامی سے کنارہ کشی ہوئی ہے، وہیں قرآن وپیغام قرآن سے عام طبقہ دور ہوچکا ہے، اس کے معانی ومضامین سے نابلد ہے، قرآنی اسلوب کے مطابق قوموں کے عروج وزوال سے ناواقف ہے، اس کمی کو دور کرنے اور عام مسلمانان عالم کو قرآن سے قریب کرنے کا ایک آسان ذریعہ ’’درس قرآن‘‘ ہے، اسی لیے ہر دور میں اس کی افادیت محسوس کی گئی ہے، بل کہ بقول حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ مسلمانوں کے زوال کے دو اسباب میں سے ایک سبب قرآن سے دوری ہے، جس میں لفظا ومعنی بُعد دونوں داخل ہے، اسی لیے انھوں نے مالٹا کی جیل میں ہی یہ طے کرلیا تھا کہ جیل سے آزاد ہونے کے بعد اس کو پھیلانا ہے، اس کے لیے انھوں نے نظام عمل بنایا اور ہر دو طریقہ لفظا ومعنی قرآن کو عام کرنے کی کوشش کی۔

الحمد للہ! ہندوستان کے ایک بڑے حصہ میں ’’دروس قرآن‘‘ کے مبارک سلسلے جاری ہیں، لیکن پھر بھی بہت سی جگہوں پر اس کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا، اس لیے جو حضرات اس مبارک سعی میں لگے ہیں وہ اس میں استحکام پیدا کریں، دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کریں، اورجہاں اس کا نظام نہیں ہے وہاں کے علماء وفضلاء اس جانب خصوصی توجہ دیں اور جلد ہی سلسلہ شروع فرمادیں، یہ نظام ایسے مستحکم انداز میں پورے ہندوستان میں پھیلانے کی ضرورت ہے کہ  کوئی بھی خطہ وعلاقہ اس سے محروم نہ رہے۔اگر ہم نے اپنی کوشش سے ہندوستانی عوام کو قرآن سے قریب کرلیا اور ان کو پیغام قرآنی وتقاضائے قرآنی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو ان شاء اللہ بہت جلد ہی اس مفید نتائج ظہور پذیر ہوں گے، جہاں یہ سلسلہ جاری ہے وہاں اس کے خاطر خواہ فوائد سامنے آرہے ہیں۔

واللہ الموفق وہو المستعان

تبصرے بند ہیں۔