تعلیم و تربیت کے لیے مارنے کی اہمیت و ضرورت 

قمر فلاحی

مارنے اور پیٹنے میں ایک گنا فرق ہے بطور تنبیہ اور رعب بٹھانے کیلئے ایک آدھ ہاتھ شفقت سے لگا دینا یا ایک آدھ چھڑی رسید کردینا اسے مارنا کہتے ہیں، اور غصہ کی حالت میں تابڑ توڑ چانٹے لگانا یا چھڑیاں برسانا اسے پیٹنا کہتے ہیں ۔

دروازے پہ دستک دینا مارنا ہے اور دروازے کو پیہم کھٹکھٹانا پیٹنا ہے۔

والدین،گارجین  اور اساتذہ کے اندر یہ دونوں اوصاف پائے جاتے ہیں جس کی تمیز عمل کے بعد ہی ممکن ہے ۔اگر مارنے کے بعد والدین گارجین اور اساتذہ کو خود بھی تکلیف ہو کہ آج خواہ مخواہ کیلئے بچہ پٹ گیا تو یہ اصلاح کیلئے مارنا ہوا اور اگر استاد و گارجین کو مارتے وقت مزہ ملتا ہو تو یہ پیٹنا کہلاتا ہے اور یہ سراسر ظلم ہے۔

مار ایک سزا ہے

مار ہلکی ہویا سخت بہر صورت ایک سزا ہے،مار احساس دلانے کیلئے ہوتی ہے، جب مار سے احساس بیدار نہ ہوتو اس میں خواہ جتنی بھی سختی برتی جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

قرآن وحدیث میں مارنے کا ذکر 

سورہ نساء میں اللہ سبحانہ نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہاری بیوی بغاوت  (نشوز) پہ آمادہ ہو تو پہلے اسے سمجھائو پھر خوابگاہ میں بستر الگ کرو پھر انہیں مارو ۔پھر جب وہ بات مان لیں تو تم بھی رک جائو۔

 وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ [النساء: ٣٤]

یہاں اللہ سبحانہ نے مارنے سے قبل نصیحت کرنے اور دوری برتنے کے بعد ایک سزا کا ذکر کیا ہے وہ مارنا ہے تاکہ مار پڑنے کے بعد نشوز ختم ہو جائے۔ گویا مارنا ایک سزا ہے مگر اس کا مقصد پاکیزہ ہے اور وہ ہے اصلاح یعنی نشوز سے روکنا۔

دوسرا پہلو اس آیت کا یہ ہیکہ اگر زبانی نصیحت سے کام نہ بنے تو بستر الگ کرنا اور پھر اس سے بھی بات نہ بنے تو مارنا کارگر طریقہ کار ہے۔

یہاں ایک بات اور ذہن میں تازہ رہے کہ پہلے ہی مرحلہ پہ مارنے کا عمل تربیتی پہلو سے غیر فطری ہے۔

حدیث مبارکہ میں بچوں کو نماز شروع کرانے سے متعلق یہ رہنمائی ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو انہیں نماز کیلئے ابھارو اور جب دس سال کا ہوجائے اور نماز نا پڑھے تو انہیں مارو یعنی مار کر نماز ادا کروائو۔

عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((مُرُوا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عَشْر، وفرقوا بينهم في المضاجع))؛ رواه أحمد وأبو داود، وهو صحيح.

یہ حدیث بھی مارنے سے قبل والدین کو تین سال تک نصیحت سے کام لینے کو کہتی ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ نصیحت سے ہی ممکن ہے کہ مارنے کی نوبت نہ آئے ۔اب ہمارا پہلے مرحلہ میں یہ سوچنا کہ مار ہی اس کا علاج ہے فطرت کے خلاف ہے۔

محبت کی مار بہتر ہے 

نصیحت کو پر اثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب یعنی طلبہ سے بیحد محبت کیا جائے ویسی محبت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تھی گو کہ یہ ممکن نہیں ہے مگر اس کم درجہ تو کی ہی جاسکتی ہے۔

مدرسة الاصلاح رام نگر بھوٹہا نیپال میں ہمارے ایک استاد رام کشن پنڈت ہوا کرتے تھے وہ ہم لوگوں سے اور ہم انسے بے انتہا محبت کرتے تھے ایک دفعہ ہوم ورک نہ کرنے پہ وہ ناراض ہو گئے اور  سے چند دنوں قبل غلط جواب دینے پہ ہم لوگوں کو باہر نکال کر مرغا بنوایا اور فوجیوں والی سزا دی، ہمیں ذرہ برابر بھی نہیں اکھرا (اس وقت ہم درجہ پنجم میں تھے) مگر ان کا ناراض ہونا ہم تمام طلبہ کیلئے سنگین ہوگیا، ہم لوگوں نے ہزار کوششیں کیں کہ وہ مسکرادیں مگر ناکام رہے۔ بالآخر چھٹی ہونے کے بعد ہم لوگوں نے ان  کے گھر کے راستے میں انکا راستہ روکا ہاتھ پکڑ کر معافی مانگی جب جاکر ہمارے سر مسکرائے۔ یہ ہوتی ہے محبت کی مار جو ہمارے سر نے ہمیں لگائی تھی۔

سیرت کی کتابوں میں یہ جملہ اکثر ملتا ہے "جائو میں تم سے بات نہیں کرتا،دیکھو میں ناراض ہوجائوںگا”

یہ انہی لوگوں کے لیے مستعمل ہے جو اپنے مخاطب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔

مارنے کا فائدہ 

عربی اول اور عربی دوم میں چند کتابیں بہت زیادہ محنت طلب ہوتی ہیں ۔جامعة الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ میں مولانا عبد البر اثری فلاحی صاحب اسباق النحو دوم کے بہت سخت استاد تھے خوب مارتے بھی تھے مگر اس کے باوجود تمام طلبہ کی خواہش ہوتی تھی کہ انہیں مولانا کا ہی سکشن ملے۔

ہمارے دو مشفق استاد مولانا وسیم ملک فلاحی صاحب  اور مولانا جاوید سلطان فلاحی صاحب دونوں بھی نہایت سخت تھے پہلے کا عالم یہ تھا کہ کان پکڑیں جب بھی طلبہ کو ہنسی آجائے اور جب ڈنڈا چلائیں تو لگے کہ پھول برسا رہے ہیں اور پھر اس کے بعد ندامت کا یہ عالم کہ نگاہ اوپر نہ اٹھے کہ آج مار پڑ گئ۔

ثانی الذکر استاد مولانا جاوید سلطان فلاحی حفظہ اللہ واقعی سلطان تھے کیا مجال کہ ایک بچہ بھی ہل جائے ۔جس دن نہ ہوں مانو عید ہے دوسری طرف نہایت شفیق بات بات پہ انعام لٹانے والے ۔ایک دفعہ ایک سبق پڑھارہے تھے مجھے وہ آتا تھا میں نے زیادہ توجہ نہیں دی استاد محترم نے صرف اتنا کہا کہ شمیم تم بڑے نیاز لگتے ہو ،میں اس جملے کو سمجھ بھی نہیں پایا تھا مگر شفقت بھرا یہ رعب مجھے آج بھی واللہ خوفزدہ کر دیتا ہے۔ مبادی القراءةالرشیدہ کے لاثانی استاد رہے۔

اور ان دونوں اساتذہ کی مار کا فائدہ ہمیں فضیلت تک ملتا رہا اور آج بھی مل رہا ہے ۔فجزاھم اللہ سبحانہ خیرا

 پیٹنے والے اساتذہ 

پیٹنے والے اساتذہ کی پہچان یہ ہیکہ انکے پاس انواع اقسام کی چھڑیاں ہوتی ہیں، یا پھر انکے سامنے جو دکھا اسی کو برسا دیا اور کچھ نہیں تو لات گھونسے لگادئے ۔ایسے اساتذہ اپنے تعلیمی اور تربیتی مشن میں بہت کم کامیاب ہوپاتے ہیں ۔انکے طلبہ مار کے عادی ہوجاتے ہیں اور پہلے سے یہ سوچ لیتے ہیں کہ آج مجھے اتنے ڈنڈے پڑنے ہیں۔

ہمارے دوستوں میں بعض ایسے رہے ہیں جو تیس تیس چھڑیاں کھانے کے باوجود اف نہیں کرتے تھے اور میں نے دیکھا کہ ان میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی۔

پیٹنے کی نفسیات 

اساتذہ کے پیٹنے کی نفسیات میں بہت حد تک انکی خانگی زندگی کا دخل ہوتا ہے جن کے گھر کے حالات کشیدہ ہوتے ہیں وہ اکثر اپنا غصہ بچوں پہ اتارتے ہیں ۔جبری مار مارنے والے اساتذہ زیادہ قابل بھی نہیں ہوتے ہیں۔ یہ اساتذہ شاید اپنا بدلا بچوں سے وصول کرتے ہیں۔

انہیں اساتذہ کے ظلم کی وجہ سے آج چھڑی رکھنا ایک جرم بن گیا ہے جس کی وجہ سے تعلیم و تربیت پہ دن بدن منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

چھڑی اور مار تعلیم وتربیت کا لازمی حصہ ہے اور یہ قرآن واحادیث کے علاوہ تجربات سے بھی مدلل ہے مگر اسی حد تک جب تک یہ مار ہے مگر جب یہ پٹائی اور دھلائی ہے تو حرام کی حد تک منع ہے انسان کیا اس کی اجازت جانوروں کے لئے بھی نہیں دی جاسکتی۔

تبصرے بند ہیں۔