حضرت ابراہیم علیہ السلام

تحریر: محمد کلیم … ترتیب: عبدالعزیز

                آج سے کوئی چار ہزار سال پہلے عراق میں بسنے والی قوم گمراہ تھی۔ کفر و شرک کی ہر برائی ان میں موجود تھی اور بت پرستی کا تو یہ حال تھا کہ اپنے ہاتھوں تراشے ہوئے بے ہنگم بت ان کی عبادت، نذر و نیاز اور عقیدت مندی کے مرکز تھے۔ انہی کو وہ اپنا سفارشی، مددگار، کارساز اور ملجا و ماویٰ سمجھتے تھے اور ان سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ ان کی طرف ہر بری نظر ڈالنے والے کی آنکھیں نکال سکتے تھے۔ راہِ حق سے ان کا یہ گریز کچھ تو ان کی فطری کجروی کی بنا پر تھا اور کچھ اس وجہ سے تھا کہ ایک عرصہ سے ان کی طرف کوئی ہادی اور بشیر و نذیر نہ آیا تھا۔ رہی سہی کسر نمرود نے پوری کر دی تھی۔ جو لوگوں کو ایک خدا سے ہٹاکر ان پر زور زبردستی اپنی خدائی کا رعب جماتا تھا۔

                ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے قوم کی اصلاح کرنے اور راہِ ہدایت دکھانے کیلئے اسی قوم کے ایک مشہور بت تراش و بت پرست آذر کے گھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیدا فرما کر منصب نبوت سے سرفراز فرمایا۔

                نبیوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ جس اصلاح کی دعوت وہ دوسروں کو دیتے ہیں اس پر سب سے پہلے خود عامل ہوتے ہیں اور جب کام کا آغاز کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر سے کرتے ہیں۔ یہ نہیں کرتے کہ اپنے گھر کی آگ بجھانے کے بجائے دوسرے گھروں کی آگ بجھاتے پھریں، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک و بت پرستی کے خلاف توحید کی تعلیم یوں پوری قوم کو دی۔

                ’’اور ابراہیمؑ کو یاد کرو جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تم تو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور طوفان باندھتے ہو، تو جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیار نہیں  رکھتے۔ بس خدا ہی کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اس کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو۔ اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ اور اگر تم (میری) تکذیب کرو تو تم سے پہلے بھی امتیں (اپنے پیغمبروں کی) تکذیب کر چکی ہیں اور پیغمبر کے ذمہ کھول کر سنا دینے کے سوا کچھ نہیں‘‘۔(عنکبوت:18-16)

                مگر حضرت ابراہیمؑ نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور اپنے باپ آذر سے کہا:

                ’’ابا جان! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں۔ ابا جان! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ دکھادوں گا۔ ابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں۔ شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ ابا جان! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں‘‘۔  (مریم: 45-42)۔

                آذر نے دعوتِ حق کو تسلیم نہ کیا۔ انسان کی یہ خاصیت ہے کہ جس حکم اور قانون کی زد خود اس کے ذاتی مفاد، اس کے نفس، اس کے خاندان اور اس کی اَنا پر پڑتی ہے اسے تعلیم نہیں کرتا اور سچی بات تو ویسے بھی کڑوی لگتی ہے، اس لئے وہ ان مشاغل کو تو ترک کیا کرتا الٹا ابراہیم کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگا:

                ’’ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کروں گااور تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مجھ سے الگ ہوجا‘‘۔  (مریم: 46)۔

                جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آذر سے بالکل مایوس ہوگئے تو علاحدہ ہوکر تن تنہا تبلیغ حق میں کوشاں ہوگئے اور مشرک قوم کے سامنے توحید کی تعلیم اور دین مبین کی دعوت پیش کی۔ اگر چہ قوم کی بدتمیزیوں کا آپ کو سخت مقابلہ کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ نے بڑی حاضر دماغی، ذہانت اور حسن بیان کے ساتھ ان سوالات کے جوابات دیئے اور ایسے ایسے دلائل پیش کئے کہ کفار سے کچھ جواب نہ بن پڑا۔

                حضرت ابراہیمؑ نے قوم سے سوال کیا کہ ’’تمہارا معبود کن ہے؟ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو؟‘‘ قوم اس سوال کے جواب میں اپنے بتوں کی لمبی چوڑی تعریفیں کرنے لگی۔ ان کے سامنے سرنگوں ہونے پر اظہارِ مسرت کیا اور کہاکہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے آئے ہیں اور بتوں کے تصرفات اور ان کی قوت کے متعلق من گھڑت قصے سنانے شروع کر دیئے۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا ’’پروردگاری اور پرستش کے لائق وہی ہستی ہے اور ہوسکتی ہے جو کائناتِ عالم کی ہرچیز کو پیدا کرنے والی اور اس کو پالنے والی ہو، جو فلاح دارین کی راہ دکھاتی ہو اور مادی و روحانی فوائد کی طرف رہنمائی کرتی ہو، جو بھوک میں رزق اور بیماری میں شفا بخشتی ہو، چونکہ تم اپنی مرضی اور خود ساختہ بتوں کے متعلق ان میں سے کسی چیز کا بھی دعویٰ نہیں کرسکتے، اس لئے تم پر واضح ہونا چاہئے کہ وہ ہرگز پرستش کے لائق نہیں ہیں۔ اور اگر تمہارے باپ دادا بھی یہی کرتے تھے تو وہ سب گمراہی پر تھے اور تم بھی گمراہی پر ہو‘‘۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کی جس دعوت کو لے کر اٹھے تھے اس کا اثر صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ان کے باپ دادا کے مسلک پر آنچ آتی تھی، بلکہ شاہی خاندان کی الوہیت اور حاکمیت، پجاریوں اور اونچے طبقوں کی معاشرتی اور سیاسی حیثیت اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آتی تھی۔ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے یہ معنی تھے کہ نیچے سے اوپر تک ساری سوسائٹی کی عمارت کو اُدھیڑ ڈالا جائے اور اسے از سر نو توحید الٰہ کی بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اس لئے حضرت ابراہیمؑ کی آواز کا بلند ہونا تھا کہ عوام، خواص، پجاری اور ایک عام آدمی سے لے کر نمرود جیسے مصنوعی خدا تک سب کے سب بیک وقت اس آواز کو دبانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔

                ایک داعی حق کیلئے ضروری ہے کہ مخاطبین کی طبیعت، ذہنیت، قوتِ جذب اور استعدادِ قلبی کا اندازہ لگاکر تبلیغ کرے۔ لوگوں کی نفسیات کو سمجھے بغیر دعوت و تبلیغ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اللہ کے نبی بڑے نباض اور مردم شناس ہوتے ہیں۔ وہ وقت اور موقع کی مناسبت سے بات پیش کرتے ہیں، چنانچہ جب حضرت ابراہیمؑ نے دیکھا کہ علمی دلائل سے قوم مطمئن نہیں ہوتی ہے تو آپ نے ایک اور سبق دینے کا فیصلہ کیا، تاکہ ان لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور ایمان لانے پر آمادہ ہوسکیں۔ بہر حال ایک دن موقع پاکر ان کے قومی بت خانے میں گھس گئے اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر ڈھیر کر دیا۔ لوگ جب لوٹ کر آئے اور اپنے چہیتے معبودوں کی یہ گت بنی ہوئی دیکھی تو حیران رہ گئے۔ مجرم کا پتہ چلانا مشکل نہ تھا، وہ سمجھ گئے کہ یہ کام سوائے ابراہیم کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اس پر انھوں نے حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تو الگ بات ہے۔ البتہ اس واقعہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ اپنے بے جان و خود ساختہ خداؤں کی حقیقت ان کے سامنے آگئی تھی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا واقعی یہ معبود بننے کے لائق ہیں؟

                لیکن جو قوم قبولِ حق کی استعداد کھوچکی ہو اس پر کوئی دلیل اثر نہیں کرتی۔ حضرت ابراہیمؑ کو اعلانِ توحید اور بت پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا یہ تجویز ہوئی کہ آپ کو آگ میں ڈال دیا جائے کیونکہ توحید کا اعلان ان کیلئے ایک ایسا کانٹا تھا جو ان کے عیش و آرام سے سجے ہوئے بستروں میں کھٹک اور بے چینی پیدا کر رہا تھا۔

                آگ کا زبردست اہتمام کیا گیا۔ دربارِ شاہی لگا۔ پوری قوم جمع ہوئی اور حضرت ابراہیمؑ کو ہاتھ پاؤں باندھ کر بھڑکتی ہوئی آگ کے سپرد کر دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کا دل نورِ ایمان سے منور تھا۔ آپ کو خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ تھا اور یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا، مگر وہ جس کو خود اللہ نے موحد اور اپنا خلیل کہا ہو ا کے پائے استقلال میں جنبش کس طرح آسکتی تھی؟ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا اور ادھر خدا نے آگ کو حکم دیا:

                ’’اے آگ! ابراہیم پر سرد ہوجا اور سلامتی بن جا‘‘۔  (الانبیائ:9)

                اس حیرت انگیز معجزہ کو دیکھ کر نمروہ سہم گیا اور اس کو اندازہ ہوگیا کہ ابراہیمؑ خدا کے پیغمبر ہیں۔ اس نے حضرت ابراہیم کو مرعوب کرنے کیلئے اپنے پاس بلوایا:

                ’’بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (نمرود کے) سبب سے کہ خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی۔ ابراہیمؑ سے پروردگار کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ جب ابراہیمؑ نے کہا میرا پروردگار تو وہ وہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ جِلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیمؑ نے کہا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال دے۔ یہ سن کر وہ کافر ششدر رہ گیا‘‘۔   (البقرہ:258)

                پھر جب اس سر زمین میں تبلیغ حق کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوئیں اور اشاعت حق کی تمام راہیں مسدود ہو گئیں تو آپ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ آپ نے فلسطین کا رخ کیا۔ اثنائے راہ میں کچھ عرصے کیلئے مقام حرّاں میں قیام فرمایا، لیکن جلد ہی آپ کو معلوم ہوگیا کہ یہاں کے لوگ بھی سیدھے راستہ پر نہیں آئیں گے، لہٰذا آپ وہاں سے مصر تشریف لے گئے۔ آپؑ کی اہلیہ حضرت سارہ ساتھ تھیں۔ مصر میں ایک عرصے تک قیام فرماکر آپ دوبارہ فلسطین پہنچے اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہ تھی، اس لئے آپ نے حضرت ہاجرہ سے شادی کرلی۔ جن کے بطن مبارک سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر بحکم خدا اپنے نورِ نظر حضرت اسمٰعیلؑ اور اہلیہ حضرت ہاجرہ کو لے کر مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں پہنچے، جہاں زندگی کے وسائل بھی موجود نہ تھے۔ پھر آزمائشوں کا سلسلہ ابھی ختم نہ ہوا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا اکہ اس کے حضور اپنی عزیز ترین متاع ’’اسماعیل‘‘ بھی نذر کرو:

                ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا ’’بیٹا! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘اس نے کہا ’’ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالئے، آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے‘‘۔ آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا۔ اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے باراہیم! تونے خواب سچ کر دکھا، ہم نیکی کرنے والے کو ایسی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچہ کو چھڑا لیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کیلئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں‘‘۔  (صافات:102 تا 110)۔

                غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی دعوتِ حق میں گزری اور اس راہ کی ہر آزمائش میں آپ پورے اترے۔ دنیا کی ہر عزیز سے عزیز اور قیمتی سے قیمتی شئے کو محبت الٰہی پر قربان کر دیا۔ پہلے وطن اور خاندان کو چھوڑا، پھر جان کی بازی لگادی اور اللہ کا نام لے کر آتش نمرود میں کود پڑے۔ اپنی عزیز بیوی اور اس بیٹے کو جو ایک عمر کی تمنا اور بڑی دعاؤں کے بعد پیدا ہوا تھا، سینکڑوں میل دور ایک بے برگ و گیاہ اور سنسان و ویران میدان میں اللہ کے حوالے کر آئے اور سب سے بڑھ کر اللہ کا اشارہ پاکر اپنے عزیز اور اکلوتے بیٹے تک کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ انہی قربانیوں کا صلہ تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری دنیا کے لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا:

                ’’یاد کرو کہ جب ابراہیم کو ا س کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہاکہ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (البقرہ:124)

                حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغام کوئی نیا پیغام نہ تھا۔ آپ کی تحریک کوئی نئی تحریک نہیں تھی اور آپ کی دعوت کوئی نئی دعوت نہیں تھی بلکہ اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ دعوت اب کئی منزلیں طے کرچکی تھی۔ حضرت آدمؑ کے زمانے میں تہذیب و تمدن اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا۔ اس لئے دعوت بھی محدود تھی لیکن حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں تہذیب و تمدن میں بہت ترقی ہوگئی تھی۔ انسانوں کی آبادی میں بہت وسعت ہوگئی تھی۔ معاشرتی ضروریات کافی بڑھ گئی تھیں۔ صنعت و حرفت کا ایک نیا دور شروع ہوچکا تھا۔ تجارت ایک ملک سے دوسرے ملک تک پھیل گئی تھی۔ غرض انسانوں کے وسیع میل جول نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ ان حالات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ گمراہ اقوام کو دین حق کی قبولیت پر آمادہ کیا جائے اور راہ مستقیم پر گامزن کیا جائے اور تحریک اسلامی کو عالمگیر حیثیت دی جائے اور اس کے استحکام اور اشاعت عام کیلئے ایک مرکز کو قائم کیا جائے۔ ان تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیمؑ کو اس کام کی تکمیل میں سخت سے سخت آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اسی کام کیلئے آپ نے فلسطین، مصر اور شام کو ہجرت فرمائی اور ہر جگہ تحریک کا چرچا کیا۔ حضرت اسمٰعیلؑ کو سر زمین عرب میں اسی کام پر مامور فرمایا۔ حضرت لوطؑ کو شام بھیجا اور خود فلسطین میں قیام فرمایا اور تحریک اسلامی کے استحکام کیلئے ایک دائمی مرکز بیت اللہ (مکہ) کو تعمیر فرمایا۔

موبائل: 9831439068           [email protected]

تبصرے بند ہیں۔