غزوات رسولﷺ پر ایک اجمالی نظر   

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

غزوہ عموما ایسے جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے بنفس نفیس خود شرکت فرمائی ہو اور سریہ /سرایااس جنگ کوکہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺخود تشریف نہ لے گئے ہوں بلکہ صحابہ کرام کو کسی صحابی کی سپہ سالاری میں بھیجا ہو۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق غزوات کی تعداد 27اور سرایا کی تعداد 47 ہے۔ بعض مؤرخین نے اس سے اختلاف کر کے غزوات کی تعداد 25 اور سرایا کی تعداد 48 بتائی ہے اور بعض تبوک کے واقعہ کو شامل کر کے غزوات کی تعداد28بتاتے ہیں۔ آج کی تحریر کا موضوع رسول اللہ  ﷺ کے غزوات کا مختصر تعارف ہے۔ تمام غزوات میں مجموعی طور پر کل 148مسلمان شہید ہوئے۔ 293کفار ہلاک ہوئے اور 6070جنگی قیدی بنے۔

اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا غزوہ ’’غزوۃ الابواء‘‘ ہے اس کا دوسرا نام غزوہ ودان بھی ہے۔ یہ پہلی ہجری کے صفر کے مہینے میں پیش آیا۔ اس میں لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ اس غزوہ میں پرچم کا رنگ سفید تھا اور علمبردار سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔

 غزوہ بواط : یہ ربیع الاول کے ماہ اور 2ہجری میں پیش آیا، اس میں کل دو سو صحابہ شریک تھے۔ اس غزوہ کے دوران مدینہ کے امیر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے، پرچم سفید تھا۔

 غزوہ العشیرہ : یہ جمادی الاول 2 ہجری میں پیش آیا، اس میں بھی پرچم سفید تھا۔

غزوہ بدر الاولی: یہ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق غزوہ عشیرہ کے چند دن کے بعد پیش آیا، اس غزوہ میں آپ کرز بن جابر الفہری کے پیچھے نکلے تھے۔ اس نے چند مشرکین کے ساتھ مدینہ منورہ کی چراہ گاہ پر چھاپا مارا تھا اور کچھ مویشی لوٹ لئے تھے۔ اس میں جنگ کی نوبت نہ آئی، اس غزوہ میں پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔

غزوہ بدر الکبری: اسلامی تاریخ کا پہلا بڑا معرکہ جو اسلام اور کفر کے درمیان ہوا وہ غزوہ بدر الکبری ہے۔ جسے عام طور پر غزوہ بدر کہا جاتا ہے۔ یہ 17رمضان المبارک 2ہجری بمطابق 17 مارچ 624 عیسوی کو پیش آیا۔ اس کا مقام بدر جو مدینہ منورہ سے جنوب مغرب کی سمت 80 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 اور کفار کی تعداد 1000 تھی۔ اس معرکہ میں 14صحابہ شہید ہوئے اور بشمول ابو جہل کے 70کفار ہلاک ہوئے اور 70قیدی ہوئے۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔

غزوہ بنی سلیم :  غزہ بدر کے بعد رسول اللہ  ﷺ کو مصدقہ اطلاع ملی کہ قبیلہ غطفان کی شاخ بنو سلیم کے لوگ مدینہ پر چڑھائی کے لئے فوج جمع کر رہے ہیں۔ آپ کدر نامی چشمے تک مقابلے کے لئے تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام فرمایا لیکن کوئی لڑائی نہ ہوئی۔

غزوہ بنی قینقاع: یہ 2 ہجری میں شوالی کی پندرہ تاریخ کو پیش آیا، یہ مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں کا قبیلہ تھا جس نے عہد شکنی کی تھی اور جنگ کے لئے قلعہ بند ہو گئے۔ ان کے قلعے کا محاصرہ کیا گیا اور بالآخر وہ معاہدہ کر کے قلعہ سے باہر آگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے مال و اسباب سمیت جلا وطن ہونے کا حکم صادر فرمایا اور وہ اذرعات کی طرف چلے گئے۔

غزوہ سویق : 5ذی الحجہ 2ہجری میں پیش آیا۔ اس میں آپ ﷺ  ابو سفیان کے ساتھیوں کے مقابلے کے لئے نکلے مگر مشرکین بھاگ گئے۔ ان کی سواریوں پر ستو تھے لہذا وہ خود کو ہلکا کرنے کے لئے ستو کے تھیلے پھینکتے گئے۔ اسی لئے اس غزوہ کا نام سویق پڑ گیا۔ سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں۔

غزوہ انمار:  اس کو غزوہ ذی امر اور غزوہ غطفان بھی کہتے ہیں۔ یہ ربیع الاول 3ہجری میں پیش آیا۔ بعض کے نذدیک ربیع الاول نہیں بلکہ وہ محرم کا مہینہ تھا۔ اس غزوہ میں بھی لڑائی نہ ہوئی۔

غزوہ نجران: یہ ایک بڑی فوجی مہم تھی، جس میں تین سو صحابہ شریک تھے۔ ربیع الآخر 3ہجری میں حضور ﷺ نجران نامی علاقے میں تشریف لے گئے۔ یہ حجاز میں ایک معدنیاتی مقام ہے۔ دو مہینے وہاں قیام فرمایا۔ پھر واپس تشریف لے آئے۔

غزوہ احد: یہ غزوہ احد پہاڑ کے دامن میں ہوا۔ اس کی تاریخ 7شوال 3ہجری بمطابق 23مارچ 625ہجری تھی۔ مسلمانوں کی تعداد 1000 اور کفار کی تعداد 3200 تھی۔

 غزوہ حمرا لاسد: یہ غزوہ بھی 3ہجری شوال کے ماہ میں پیش آیا۔ جب احد کی جنگ ختم ہوئی تو کفار واپس چلے گئے۔ لیکن یہ خیال رہا کہ ابو سفیان مسلمانوں کو مغلوب سمجھ کر دوبارہ حملہ آورہو جائے گا، آپ  ﷺ نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کون ان مشرکین کا تعاقب کرے گا؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سمیت فورا 70صحابہ تیا ر ہو گئے۔ اس میں آپ  ﷺ مجاہدین کے ساتھ خود تعاقب میں روانہ ہوئے۔ مدینہ سے آٹھ میل دور شاہرہ پر خمیہ لگایا۔ ادھر ابو سفیان نے پھر سے حملہ آور ہونے کا سوچا لیکن قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد بن ابی معبد خزاعی جو اس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا لیکن درپردہ اسلام کا حامی تھا۔ اس نے ابو سفیان سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ مسلمانوں کا لشکر بہت بڑا ہے ، اس سے جنگ ممکن نہیں۔ ابو سفیان کو جراء ت نہ ہوئی۔ رسول اللہ  ﷺ تین دن قیام کے بعد واپس تشریف لے آئے۔

غزوہ بنی النضیر: مؤرخین و اہل سیر کے مطابق یہ واقعہ 4 ہجری کا ہے۔ لیکن اس غزوہ کی تاریخ وقوعہ پر اختلاف ہے۔ بخاری کی روایت کے مطابق یہ واقعہ غزوہ احد سے پہلے اور غزوہ بدر کے بعد ہوا تھا۔ اس غزوہ کا سبب یہود کا بدعہدی کرنا تھا، انہوں نے آپ  ﷺ پر پتھر گرا کر آپ کو شہید کرنے کی سازش کی لیکن اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب  ﷺ کو خبر دی، رسول اللہ  ﷺ ان کے ہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ قبیلہ بنو نضیر مضبوط قلعوں میں رہتے تھے ، آپ  ﷺ نے انہیں خبر دی کہ دس دن کے اندر یہ علاقے خالی کر دو، انہوں نے تعمیل نہ کی لہذا آپ  ﷺ صحابہ کرام علیھم الرضوان کو لے کر ان کی سرکوبی کے لئے تشریف لے گئے۔ اس غزوہ میں بھی علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔

غزوہ ذات الرقاع: اس غزوہ کی وجہ وہ بدو تھے جو مدینہ منورہ میں لوٹ مار کرتے اور صحراء میں خیمہ زن رہتے، کسی قلعے میں رہنے والوں کے مقابلے میں کھلے صحراء میں خیمہ زن بدؤوں پر قابو پانا مشکل تھا۔ اس لئے صرف خوف زدہ کرنے والی کاروائیوں پر اکتفاء کیا گیا۔ آپ ﷺ نے ایک تادیبی حملہ کیا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے مشہور ہوا۔اس موقع پر آپ کے ساتھ چار یا سات سو اصحاب تھے۔

غزوہ بدر الآخرۃ: اس غزوت میں مسلمانوں کی تعداد پندرہ سو تھی، کفار مکہ کی تعداد دو ہزار تھی۔ شعبان 4ہجری بمطابق جنوری 626عیسوی میں آپ نے بدر کا رخ فرمایا۔ فوج کا علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ مقابلے میں ابو سفیان آیا اور وادی مرالظہران میں خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ سابقہ شکستوں کی وجہ سے بددل تھا۔ اس مقام پر خیمہ زن ہونے کے بعد اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ابھی ہریالی نہیں ہے، جنگ تو تب موزوں ہو سکتی ہے جب ہریالی ہو، جانور چارہ کھا سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ لہذا میں واپس جا رہا ہوں اور تم بھی واپس چلو۔ ابو سفیان جیسے سردار کے اس طرح کے بیان کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے اور لڑائی کا مشورہ دے۔

غزوہ دومۃ الجندل: بدر الآخرۃ کے بعد سید کل عالم  ﷺ چھ ماہ تک مدینہ منورہ میں مکمل اطمینان سے رہے۔ کسی طرف سے جنگ کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ شام کے قریب مقام دومۃ الجندل کے ارد گرد آباد قبیلے ادھر سے گزرنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے فوج تیار کر لی ہے۔ لہذا آپ نے ایک ہزار اصحاب کو لے کر 25ربیع الاول کو کوچ فرمایا۔ اس سفر میں جنگی چال بدلی گئی، لہذا رات کو فوج سفر کرتی اور دن کے اوقات میں چھپ جاتے تاکہ دشمن کو خبر ہی نہ ہو۔ جب آپ دومۃ الجندل پہنچے تو وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ آپ نے کئی دستے ان کے تعاقب میں بھیجے لیکن کوئی ہاتھ نہ آیا۔

غزوہ بنی المصطلق: قبیلہ بنی مصطلق نے غزوہ احد میں قریش کا ساتھ دیا تھا اور بعد میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے تیار کیا اور شعبان 6 ہجری میں مریسع کے مقام پر قبیلہ بنی مصطلق سے جنگ کی۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔

غزوہ خندق / غزوہ احزاب: اس غزوہ میں تقریبا تین ہزار مسلمان شریک تھے۔ یہ غزوہ ذی القعدہ 5ہجری میں پیش آیا۔ کفار کی تعداد تقریبا دس ہزار تھی۔اس غزوہ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔

غزوہ بنی قریظہ: مدینہ منورہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس کا نام بنو قریظہ تھا۔ انہوں نے ریاست مدینہ کے ساتھ امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ لیکن غزوہ خندق میں انہوں نے بغاوت کر کے سازشیں کیں جو اللہ کے فضل سے ناکام ہوئیں۔ بعد میں مسلمانوں نے جنگ کر کے عہد توڑنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

غزوہ بنی لحیان: بنو لحیان قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ تھی۔ یہ مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں آباد تھے۔ بنو لحیان نے دھوکے سے دس صحابہ کو بلوایاکر شہید کر دیا۔ اس کی سزا دینے کے لئے آپ  ﷺ دو سو صحابہ کو لے کر مدینہ سے نکلے اور بطن غران میں پہنچ کر ان شہداء کے لئے دعا فرمائی۔ بنو لحیان آپ کی آمد کا سن کر چھپ گئے۔ ان کی تلاش جاری رہی لیکن وہ نہ ملے۔ اس دوران آپ نے صحابہ کے فوجی قافلے بھی روانہ فرمائے مگر بنو لحیان روپوش رہے۔

غزوہ ذی قرد/ غزوہ غابہ: اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ سے کئی میل دور غابہ ایک چراگاہ تھی۔ جس میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے شہزادے حضرت ذر رضی اللہ عنہ ان کے نگران تھے۔ ایک رات بنو غطفان کے ایک خاندان کے سردار عینیہ بن حصین نے غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا۔ اس کے بعد یہ غزوہ پیش آیا۔

غزوہ حدیبیہ: اس کو صلح حدیبیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور و معروف واقعہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر یہاں قلمبند کرنے سے معذرت ہے۔

غزوہ خیبر: یہ غزوہ 7ہجری محرم کے ماہ میں پیش آیا۔ خیبر کے مقام پر یہودیوں سے یہ جنگ ہوئی۔ اس میں اٹھارہ مسلمان شہید اور 93 یہودی ہلاک ہوئے۔

غزوہ عمرۃ القضاء:صلح حدیبیہ کے بعد جب ذی القعدہ کا چاند نظر آیا تو آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ میں حاضر تمام صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے عمرہ کی قضاء کے لئے جائیں۔ آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مدینہ میں ابو رھم غفاری رضی اللہ عنہ جانشین مقرر ہوئے۔جنگی سازو سامان لے کر گئے لیکن وادی یاجج میں پہنچ کر تمام ہتھیار رکھ دئیے اور دو سوافراد ان ہتھیاروں کی حفاظت پر مقرر فرمائے۔مسلمانوں کے پاس فقط تلواریں تھیں جو نیاموں میں تھیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھے۔ صحابہ نے آپ کو گھیر رکھا تھا اور لبیک کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔آپ نے عمرہ ادا فرمایا اور حسب وعدہ تین دن مکہ میں قیام فرمایا اور بغیر جنگ کے واپسی ہوئی۔

غزوہ فتح مکہ شریف: یہ رمضان 8ہجری میں پیش آیا جو جنوری 630عیسوی تھا۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس میں دو مسلمان شہید ہوئے جبکہ بارہ کفار ہلاک ہوئے۔ اس غزوہ میں جنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔ مشرکین مسلمانوں کی ہیبت سے ڈر چکے تھے۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہو گئی۔

غزوہ حنین: فتح مکہ شریف کے بعد دو قبیلے بنو ہوازن اور بنو ثقیف جو جنگجو سمجھے جاتے تھے، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نبی کریم  ﷺ بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ جب وادی حنین کے قریب پہنچے تو دشمن نے دونوں طرف سے زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان پریشان ہو گئے اور نو مسلم افراد ہراساں ہو کر بھاگنے لگے۔ نبی کریم ﷺ ہاتھ میں تلوار لے کر یہ فرماتے ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب‘‘۔ اس کے بعد شدت کی جنگ ہوئی اور بالآخر دونوں قبیلے مقابلے میں ڈٹ نہ سکے اور بھاگ نکلے۔ دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔

غزوہ الطائف: جب ہوازن کو شکست ہوئی تو وہ مالک بن عوف نصری کی قیادت میں طائف آ گئے اور یہاں قلعہ بند ہو گئے۔پہلے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فوج بھیجی بعد میں رسول اللہ ﷺ خود بھی طائف روانہ ہو گئے۔ آپ کا گزر نخلہ یمانیہ سے ہوا۔ پھر لیہ سے گزر ہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا قلعہ تھا جس کو آپ ﷺ نے منہدم کر وا دیا۔طائف پہنچ کر طائف کا قلعے کا محاصرہ فرمایا۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق چالیس دن تک محاصرہ فرمائے رکھا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے منجیق /توپ استعمال کی اور طائف کے قلعے پر گولے برسائے اور قلعے کی دیوار میں شگاف پڑ گیا۔

غزوہ تبوک: یہ غزوہ 9ہجری میں پیش آیا۔ یہ غزوہ شام کے عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا۔خبر آئی کہ ہرقل کی مدد سے مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن وہ خبر افواہ تھی۔ آپ تیس ہزار مسلم فوج کے ساتھ تبوک کے مقام پر تشریف لے گئے۔ وہاں چند دن قیام فرمایا اور عیسائی حکمرانوں کو مطیع بنا کرواپس تشریف لے آئے۔

اللہ کریم ہمیں سیرت رسول ﷺ کے تمام پہلوؤوں کی معرفت نصیب فرمائے۔ آمین۔ (والسلام)

تبصرے بند ہیں۔