ریو اولمپک میں ہار کے بعد بھی کھلاڑیوں پر پیسوں کی برسات

برازیل کے شہر ریو میں منعقد ہوئے اولمپک کھیلوں میں ہندوستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔ہندوستان کا ایک بھی کھلاڑی قابل ذکر مظاہرہ نہیں کرسکا ۔اس مایوس کارکردگی کا جائزہ لینا ضروری تھا کیونکہ کھیلوں کے فیڈریشنوں اور بورڈپر بدعنوانیو ں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں ۔اولمپک میں مسلسل شکست کے بعد کئی سابق کھلاڑیوں اور تجزیہ کاروں نے یہ الزامات عائد کئے تھے کہ کس طرح صلاحیت مند کھلاڑیوں کو درکنار کرکے تعلقات یا دوسری بنیادوں پرناقص کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتاہے ۔اولمپک میں ملی ہار اس بد عنوانی کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے ۔مگر ان تمام الزامات اور اولمپک میں تمغوں کی جگہ ہاتھ آئی مایوسی کا تجزیہ اور تحقیق کرنے کے بجائے ہارے ہوئے کھلاڑیوں پر سرکاروں نے بلا سوچے سمجھے پیسوں کی برسات کردی۔ اگر گولڈ میڈل جیتنے کے بعد بھی اتنے انعام و اکرام سے نوازا جاتا تب بھی یہ اقدام قابل تحسین نہ ہوتا ۔یہ سراسر عوام کے پیسے کا زیاں ہے ۔ریو میں شکست کے بعد بھی پی سی سندھو اور ساکشی ملک کو کھیل رتن دینے کا کیا جواز ہے ۔ابھی ان کھلاڑیوں نے کھیلنا شروع کیاہے اگر اس عمر میں شکست کے بعد انکی اتنی پذیرائی کی جائیگی تو کیاہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ یہ کھلاڑی بہتر کاکردگی کا مظاہرہ کرینگے ۔کھیل کے ابتدائی دنوں میں اس قدر نوازا جانا انکی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کے بجائے سہل پسندی کا شکار بنادے گا۔
ہندوستان کی دو خاتون کھلاڑیوں نے ریو اولمپک میں میڈل جیتے ہیں ۔پی سی سندھو کو بیڈ منٹن کے فائنل میں شکست کے بعد چاندی کا میڈل ملا اور ساکشی ملک کو پہلوانی میں ہار کے بعد تانبے کا میڈل دیا گیا ۔ان دو کھلاڑیوں کے علاوہ کسی بھی شعبہ میں کوئی کھلاڑی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا ۔پی سی سندھو اور ساکشی ملک کی ہمت اور حوصلہ کی پذیرائی ہونی چاہئے ۔انکی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے میں کھیل فیڈریشن اہم کردار ادا کریں تاکہ آئندہ وہ ملک کے لئے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں ۔مگر کھلاڑیوں پر اتنی پیسوںکی برسات نہ کی جائے کہ عوام خود کو ٹھگا سا محسوس کریں ۔اس لئے کہ دو ہارے ہوئے کھلاڑیوں کی اتنی پذیرائی کرکے حکومتیں کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں ۔پی سی سندھو کو تلنگانہ سرکار نے پانچ کروڑٖ،آندھرا پردیش سرکار نے تین کروڑ،دہلی سرکار نے دو کروڑ، اترپریش سرکار نے ایک کروڑدینے کا اعلان کیا تھا ۔اسکے علاوہ مختلف کھیل تنظیموں نے تین کروڑ روپے دینے کا اعلان کیاہے۔ساکشی ملک کو ہریانہ سرکار نے ڈھائی کروڑ،دہلی و اترپردیش سرکار نے ایک ایک کروڑاور تلنگانہ سرکار ایک کروڑ روپے دیگی ۔ساکشی کو ریلوے نے پچاس لاکھ الگ سے دینے کا علان کیا اور انکے والد کو نوکری میں پرموشن بھی دیا جائیگا۔ اسکے علاوہ مذکورہ دونوں کھلاڑیوں کو نوکریاں بھی دی جائینگی ۔مرکزی حکومت میڈل جیتنے پر جو انعام و اکرام سے نوازتی ہے وہ ان انعامات سے الگ ہے ۔اتنا پیسہ ساری عمر محنت کرکے بھی نہیں کمایا جاسکتا جتنا اولمپک میں ہارکر بھی ان کھلاڑیوں نے کمایا ہے ۔اگر اتنا پیسہ کھلاڑیوں کی صلاحیت اور انکے فن کو نکھارنے پرپہلے خرچ کیاجاتا تو یقینا اولمپک میں ہندوستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی اتنی مایوس کن اور شرمناک نہیں ہوتی ۔دوسرے ملکوں کے مقابلے ہمارے ملک میں کھلاڑیوں پر پہلے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ۔’’ہندوستان‘‘ اخبار کے مہیا کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق ریو اولمپک میں بھیجے گئے ایک کھلاڑی کی تیاری پر پر امریکہ نے ۷۴ کروڑ ،برطانیہ نے ۴۸ کروڑ،چین نے ۴۷ کروڑ روپے خرچ کئے ۔جبکہ ہندوستانی سرکار نے ریو میں بھیجے گئے سبھی کھلاڑیوں پرکل ۱۶۰ کروڑ روپے خرچ کئے۔وزارت وسائل انسانی ترقی (human resource development ministry) کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان میں ایک کھلاڑی پر ہرروز ۳ پیسے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ان اعداد و شمار پر غور کریں تو ہمارے کھلاڑیوں کی غربت اور محنت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔جو ممالک اولمپک میں اچھا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اپنے کھلاڑیوں کو انعامات سے کم نوازتے ہیں انکی تیاری پر زیادہ پیسہ صرف کرتے ہیں ۔ہمارے یہاں اسکے برعکس ہوتاہے ۔اگر اتنا پیسہ ان کھلاڑیوں کی تیاریوں پر خرچ کیا جاتا توریو کے نتائج باالکل مختلف ہوتے ۔مگر ہماری حکومتیں میڈل جیتنے کے بعد پیسوں کی برسات کرتی ہیں اس سے پہلے کس فیڈریشن اور کس بورڈ کا کیا حال ہے اور کھلاڑی کس بری حالت میں میڈل جیتنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اسکا جائزہ لینے کی فرصت کسے ہے۔
ہندوستان میں میڈل جیتنے والے سابق کھلاڑیوں کی کتنی بری حالت ہے یہ ہم سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں ۔کیا ان کھلاڑیوں نے ملک کے لئے اپنا پسینہ نہیں بہایا تھا ۔ہماری سرکاریں ان کھلاڑیوں کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتی ہیں ؟۔سابق میڈل جیتنے والے کھلاڑی معمولی مزدوریاں کررہے ہیں اور حال کے میڈل جیتنے والوں پر لاکھوں کروڑوں روپوں کی بارش کی جارہی ہے یہ ناانصافی ہے ۔یوں بھی جب بات کھیلوں کی آتی ہے تو ہمارے ملک کی عوام گونگی بہری بن جاتی ہے ۔کرکٹ پر کتنا پیسہ صرف کیاجاتاہے یہ سبھی جانتے ہیں ۔یہ پیسہ عوام کی گاڑھی محنت کی کمائی ہوتی ہے جسکا اس طرح زیاں ہوتاہے ۔آئی پی ایل نے تو شرم و حیا کو بالائے طاق رکھدیا اور معمولی کھلاڑیوں کو بھی اسٹار کا درجہ دلادیا۔اب تو عالم یہ ہے کہ اگر ایک کھلاڑی آئی پی ایل میں شامل کرلیا گیا تو اسکی غربت لمحوں میں ختم ہوجاتی ہے ۔مگر وہ غریب محنت کش جو سڑکوں پر ، ملوں اور فیکٹریوں میں دن رات مزدوری کرتاہے اسکی غربت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔آئی پی ایل میں شامل کئے جارہے کھلاڑیوں اور اولمپک میں شکست کھاکر بھی کروڑوں کمانے والی کھلاڑیوں کی طرح کیا یہ مزدور طبقہ ملک کی ترقی اور فلاح کے لئے اپنا پسینہ نہیں بہاتاہے ۔اس ملک میں جتنا پیسہ فضول کاموں پر خرچ ہوتاہے اگر ملک کی غریب عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ کیاجاتا تو آج غربت کا یہ عالم نہیں ہوتا۔وہ سرکاریں جو ہر محاذ پر ناکام ہوتی جارہی ہیں وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے کھلاڑیوں پر بے تحاشہ پیسے نچھاور کرتی ہیں تاکہ عوام کے درمیان انکی فیاضی کے چرچے ہوں ۔
ہم قطعی اس کے خلاف نہیں ہیں کہ کھلاڑیوں کا اعزاز نہیں ہونا چاہئے ۔انکی پسماندگی کو ختم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اس اعزاز کے طریقے مختلف ہوں ۔کھلاڑیوں کے کھیل کو بہتر بنانے اور انکی تیاریوں پر توجہ دینی چاہئے ،انکی غربت اور پسماندگی کو دورکرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔کھلاڑیوں کو اس لائق بنایا جائے کہ وہ کھیل پر توجہ دینے کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل خاندان کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔تاکہ انکی روزمرہ کی ضرورتیں انکے کھیل کو متاثر نہ کرسکیں ۔اگر کھلاڑی اپنے گھر اور خاندان کی طرف سے مطمئن رہیں گے تبھی وہ اپنے کھیل میں بہتری لاسکیں گے۔ساتھ ہی سابق کھلاڑیوں کو بھی یکسر فراموش کیاجانا قابل مذمت ہے ۔ایسے کھلاڑی جو مختلف کھیلوں میں ملک کا سر فخر سے بلند کرتے آئے ہیں اگر غربت اور افلاس کی وجہ سے وہ معمولی مزدوریاں کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرتے ہیں تب بھی ملک کا سر شرم سے نیچا ہو تاہے ۔حکومتیں عوام کے پیسوں کو فضول خرچ نہ کرکے ایسے ضروری اقدامات کریں کہ موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کی مشکلات اور پسماندگی کو دور کیاجاسکے۔

عادل فراز لکھنؤ
09936066598

تبصرے بند ہیں۔