حیدرآباد میں فٹبال کی تاریخ

سلیم اللہ

(سابق پولیس فٹبال کوچ حیدرآباد)

ہندوستان میں فٹبال کی ترقی کی تاریخ حیدرآبادکے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ حیدرآباد میں فٹبال کے کھیل کا آغاز انگریزوں کے دور سے ہوا۔ اس سے قبل بھی غیر شعوری طور پر یہاں کے نوجوان اپنی مہارت کا اظہار کرتے ہوئے فٹبال کی طرز کے کھیل کھیلا کرتے تھے۔ حیدرآباد میں 1930ء کے آس پاس فٹبال کا آغاز ہوا۔ اور تقریباً دس سال تک غیر منظم طور پر کھیلا گیا۔ 1940ء تا 1950ء سقوط حیدر آباد سے قبل یہاں فٹبال کا سنہری دور رہا۔ اور نظام دور حکومت کی پولیس فورس کی ٹیم’’سٹی افغانس‘‘ کا اس کھیل پر دبدبہ قائم رہا اور اس ٹیم نے کئی ہونہار اور باصلاحیت کھلاڑی پیدا کئے ۔جن کے کارنامے گذرتے وقت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ دنیا بھر میں فٹبال کا چرچا ہے اور یہ کھیل ساری دنیا کا مقبول ترین کھیل بنتا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں عام طور پر اور حیدر آباد میں خاص طور پر فٹبال کا کھیل روبہ زوال ہے۔ ماضی میں حیدرآبادی فٹبال کا نام روشن کرنے والے کھلاڑی اور کوچ اس دنیا سے گذرتے جارہے ہیں۔ حیدر آبادی فٹبال کی ایک منظم تاریخ پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ تاکہ ماضی کی عظمتوں کو محفوظ کیا جا سکے چنانچے قدیم کھلاڑیوں سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اور دستیاب معلومات کو اکھٹا کرتے ہوئے حیدرآباد میں فٹبال کی یہ تاریخ پیش کی جارہی ہے جس کا مقصد حیدر آباد کے قدیم و نامور کھلاڑیو ں کو یاد کرنا ہے۔ اس مضمون میں حیدر آباد میں فٹبال کی ابتداء ‘حیدرآبادی فٹبال کا سنہرا دور ‘سٹی افغان پولیس ٹیم کے کارنامے‘سقوط حیدر آباد کے بعد حیدرآباد سٹی پولیس ٹیم کے کارنامے‘اولمپکس میں حیدر آبادی کھلاڑیوں کے کارنامے‘حیدرآباد کی قدیم ٹیمیں اور ان کے کھلاڑی‘حیدرآباد کے نامور فٹبال کوچ سید رحیم صاحب اور دیگر شخصیات کے کارنامے جنہوں نے حیدرآبادی فٹبال اور کھلاڑیوں کی تربیت کی اور 1970ء کے بعد حیدر آبادی فٹبال کے زوال کے اسباب پیش کئے جا رہے ہیں۔

عالمی سطح پرفٹبال کی شروعات:

فٹبال آج عالمی سطح کا ایک مقبول عام کھیل ہے۔ لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ فٹبال کا کھیل ہماری زندگی میں کیسے داخل ہوا۔ اس کھیل کا آغاز کب اور کہاں ہوا۔اور دنیا بھر میں لوگ اس کھیل کے دیوانے کیوں ہوئے۔ آج دنیا کی ہر تہذیب میں فٹبال کا کھیل رچا بسا ہوا ہے۔

زمانہ قدیم سے دنیا کی بڑی بڑی اقوام چینیوں‘جاپانیوں‘یونانیوں‘ایرانیوں اور اطالوی لوگوں میں فٹبال کی طرح کے کھیل کے آثار ملتے ہیں۔چین میں تین ہزار سال قبل فٹبال کی طرح کا کوئی کھیل کھیلا جاتا تھا۔فٹبال کے کھیل کے بارے میں بعض دلچسپ روایات بھی ملتی ہیں کہ چین اور مصر کے ساحلی علاقو ں میں بچوں کی چھوٹی چھوٹی تکڑیاں سوکھے ناریل کو پیرس ے ٹھوکر مارتے مارتے دور تک لے جاتے اور واپس لاتے تھے ۔ اس طرح فٹبال کی ابتدا ء ہوئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جرمنی اور ڈنمارک کے درمیان جنگ ہوئی تو دونوں ممالک کے سپاہی اپنی ذاتی دشمنی کے اظہار کے لئے مردہ فوجیوں کی کھوپڑیوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے دور تک لے جاتے اور لاتے ۔ان کا یہ مشغلہ فٹبال کے آغاز کا سبب بنا۔ یہ باتیں صرف روایات ہیں۔ تاہم موجودہ دور کے فٹبال سے ملتا جلتا فٹبال کا کھیل سب سے پہلے برطانیہ میں شروع ہوا۔ جبکہ وہاں 1863ء میں رگبی اور فٹبال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔اکٹوبر1863ء میں لند ن کے گیارہ کلبوں اور اسکول کی ٹیموں نے فٹبال کے کھیل کے اُصول و ضوابط طے کرنے کے لئے اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں ایک فٹبال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔آٹھ سال بعد برطانیہ میں اس فٹبال ایسوسی ایشن کے 50کلب رکن بن گئے۔اسی سال دنیا کا پہلا فٹبال ٹورنمنٹ ایف اے کپ کے نام سے کھیلا گیا۔ یورپ کے دیگر ممالک میں فٹبال کا ابھی آغاز ہی تھا کہ برطانیہ میں فٹبال کے بین الاقوامی میچ کھیلے جانے لگے۔1872ء میں برطانیہ اور اسکام لینڈ کے درمیان میچ کھیلا گیا۔برطانیہ کی فٹبال ایسو سی ایشن کے طر ز پر بہت جلد دیگر ممالک میں بھی فٹبال ایسو سی ایشن قائم ہونے لگے۔ جن میں اسکاٹش فٹبال ایسوسی ایشن1873ء‘ویلزفٹبال ایسوسی ایشن 1875ء اور آئرش فٹبال ایسوسی ایشن 1880ء شامل ہیں۔تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کے دیگر ممالک نیدر لینڈ۔ڈنمارک 1889۔نیوزی لینڈ1891۔ارجنٹائن1893۔چلی1895۔سوئٹزر لینڈ‘بلجیم1895۔اٹلی1898۔جرمنی ‘یورو گوئے1900۔ہنگری1901۔اور فن لینڈ1907شامل ہیں۔ 1904ء میں پیرس میں فٹبال کی عالمی تنظیم FIFAکا قیام عمل میں آیا۔اس کے بانی سات ممالک فرانس‘بلجیم‘ڈنمارک‘نیدر لینڈ‘اسپین‘سویڈن اور سوئٹزر لینڈ تھے۔ یہ بین الاقوامی فٹبال برادری مستعدی سے ترقی کرتی رہی۔FIFAکے رکن ممالک کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔اور 1925ء میں رکن ممالک کی تعداد 36ممالک اور 1930ء کے پہلے عالمی کپ تک 41ہو گئی۔آج FIFA کے رکن ممالک کی تعداد 204ہے۔یہ تنظیم ہر چار سال میں فٹبال کے عالمی کپ کے انعقاد کے علاوہ دیگر اہم بین الاقوامی مقابلے منعقد کرتی ہے۔فٹبال کے کھیل میں کلبوں کا مظاہر قومی ٹیموں سے اچھا ہے۔مانچسٹر یونائٹڈ ایک مشہور فٹبال کلب کا نام ہے۔فٹبال کے دیگرمشہور مقابلوں میں یورپین کپ۔ایف اے کپ۔یوایفا کپ۔اسپانش لیگ۔کوپا امریکہ وغیرہ مشہور ہیں۔ عالمی سطح پر مشہور ہونے والے عظیم فٹبال کھلاڑیوں میں پیلے۔ڈئیگو مراڈونا۔رونالڈو۔کاکا۔رونالڈینہیو۔لوئس فیگو۔کرسٹیانو رونالڈو۔تھیری ہنری۔زین الدین زیدان۔روبرٹو بجیو۔الیسانڈرو نیسٹا۔فرانسسکو ٹوٹی۔السانڈرو ڈیل پیرو۔ایلن شیرر۔وین رونی۔مائیکل اووین۔اسٹیون گیراڈ۔ڈیوڈ بیکھم۔فرانز بیکن بار۔شنائیڈر۔گیرڈ مُلر۔لوتھاس میتھاس۔بلاک۔اولیور کاہان۔جرگن کلینسمین وغیرہ۔ ہر عالمی کپ کے بعد کئی سوپر اسٹار کھلاڑی ابھرتے ہیں۔ عالمی کپ کی سونے کی ٹرافی کا نام جولس ریمٹ کپ ہے۔ عالمی کپ میں بہترین مظاہر کرنے والے کھلاڑیوں کو گولڈن بوٹ اور گولڈن بال کے خصوصی اعزازات دئیے جاتے ہیں۔فٹبال کا کھیل اب یورپ ‘امریکہ‘افریقہ‘ایشیااور آسٹریلیا سبھی بر اعظموں میں مقبول ہوگیا ہے۔

ہندوستان میں فٹبال کی تاریخ:

فٹبال یا ساکر ہندوستان میں بھی لوگوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ خاص کر عالمی کپ فٹبال ٹورنمنٹ کے دوران سارے ملک میں لوگوں پر فٹبال کا بخار چڑھ جاتا ہے۔تاہم عام دنوں میں یہ کھیل ہندوستان کی ریاستوں مغربی بنگال‘گوا‘کیرالا‘میزورم‘ منی پور اور سکم میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اور ان ریاستوں کے کلب فٹبال میں بہت شہرت رکھتے ہیں۔ہندوستان میں فٹبال کو متعارف کرانے میں بھی انگریزوں کا ہاتھ رہا ہے۔

ہندوستان میں فٹبال کی تاریخ انگریزی دور اقتدار سے شروع ہوتی ہے۔جبکہ فٹبال کو انگریزوں نے ہندوستان میں متعارف کرایا۔ابتدائی دور کے فٹبال میچ آرمی ٹیموں کے درمیان ہوا کرتے تھے۔برطانوی دور اقتدار میں بہت جلد یہاں فٹبال کے کلب قائم ہوئے۔ اور یہ کلب مشہور بھی ہوئے۔ہندوستان میں فٹبال کا پہلا میچ 1854ء میں کلکتہ کلب آف سیویلینس اور جنٹلمین آف بارکپور کے درمیان کھیلا گیا۔1872ء میں کلکتہ ایف سی کے نام سے ہندوستان کا پہلا فٹبال کلب قائم ہوا۔ اور آنے والے برسوں میں دیگر کلب جیسے ڈلہوزی کلب۔ٹریڈرس کلب اور نول والینٹرس کلب قائم ہوئے۔

ہندوستان میں فٹبال کا مرکز ہمیشہ سے کلکتہ رہا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہندوستان کے نامور فٹبال کلب جیسے موہن بگان۔ایسٹ بنگال اور محمڈن اسپورٹنگ کا تعلق کلکتہ سے ہی ہے۔1889ء میں نیشنل کلب آف انڈیا قائم ہوا۔ 1893ء میں IFAانڈین فٹبال ایسوسی ایشن کا قیا م عمل میں آیا۔1898ء میں ہندوستان کا قدیم ترین اور دنیا کا تیسرا قدیم ترین فٹبال ٹورنمنٹ ڈورانڈ کپ شروع ہوا۔ یہ کپ اُس وقت کے خارجہ سکریٹری برائے ہند سر مار ٹیمر ڈورانڈ کے نام سے شروع کیا گیا۔ مسٹر ڈورانڈ نے ہی اس ٹورنمنٹ کا افتتاح بھی کیا۔ کی سطح سے قطع نظر قومی سطح پر فٹبال کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان میں خواتین کا فٹبال:

ہندوستان میں 1990ء کی دہائی سے خواتین کے فٹبال کا آغاز ہوا۔جبکہ خواتین کا فٹبال فیڈریشن FFIکا قیا م عمل میں آیا۔مردوں کی طرح خواتین کے زمرے میں بھی مغربی بنگال سے بھی اچھی خواتین کھلاڑی ابھریں۔ایسٹ بنگال اور موہن بگان نے خواتین کے فٹبال کلب بنائے۔ ہندوستان کی خواتین فٹبال قومی ٹیم میں ذیادہ کھلاڑیوں کا تعلق منی پور اور مغربی بنگا ل سے ہے۔تاہم خواتین کے فٹبال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

حیدرآباد میں فٹبال کی ترقی

حیدرآباد میں فٹبال کی ابتداء:-شہر حیدرآباد ایک تہذیبی شہر ہے۔ ساری دنیا میں یہ شہر اپنی مخصوص تہذیب‘لوگوں کے رہن سہن‘تاریخی عمارتوں اور اردو زبان سے جانا جاتا ہے۔ شہر حیدر آباد کو آج سے چار سو سال قبل قطب شاہی فرماں روامحمد قلی قطب شاہ نے بسایا تھا۔ بادشاہ ایک اچھا شاعر بھی تھا۔ اس نے شہر حیدر آباد کو بساتے وقت اپنی ایک نظم ’’ مناجات‘‘ میں خدا کے حضور یہ دعا کی تھی۔

مرا شہر لوگاں سوں معمور کر 
رکھیا جوں توں دریا میں مِن یا سمیع

یعنی ’’اے خدا تو اس شہر کو لوگوں سے ایسے آباد کر جیسے دریا میں مچھلیاں ہوتی ہیں‘‘۔ شائد وہ قبولیت دعا کی گھڑی ہوگی کہ خدا نے شہر حیدر آباد کو لوگوں سے ایسے آباد کیا کہ اس کی زندگی کہ ہر میدان میں ترقی نے اس شہر اور یہاں کے رہنے والے حیدرآبادیوں کو ساری دنیا میں شہرت دلادی۔ شہر حیدرآباد کو ترقی دینے میں آصف جاہی سلاطین کا اہم رول رہا ہے۔ خاص طور سے آصف سابع میر عثمان علی خاں کے دور میں حیدر آباد میں کافی ترقی ہوئی۔ اور یہاں تعلیم ‘صحت اور زندگی کے دیگرشعبوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ کھیل کود کو بھی پروان چڑھانے کا موقع دیا گیا۔ شہر حیدر آباد میں فٹبال کے کھیل کا آغاز آصف جاہی سلاطین کے دورکی ہی یادگار ہے۔ یہ 1930ء کی بات ہے ۔جب کہ یہاں کے نوجوان فٹبال کو ایک بدلی ہوئی شکل میں کھیلا کرتے تھے۔ ہندوستان میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نہ ہونے کے سبب لوگوں کو دنیا کی دیگر قوموں کی ترقی کے بارے میں کم ہی معلومات تھیں۔ یہی وجہہ ہے کہ یورپ میں فٹبال کے کھیل کے بہت پہلے آغاز کے باوجود ہندوستان اور خاص طور سے حیدرآباد کے لوگوں کو اصل فٹبال کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ نوجوان کپڑے یا چمڑے سے بنی ہوئی گیند کو پیروں سے مار کر کھیلا کرتے تھے۔ یہ کھیل گلی کوچوں اور چھوٹے میدانوں پر ہوا کرتے تھے۔ 1930ء تا 1940ء تک بھی حیدر آباد میں فٹبال کا کھیل منظم نہیں تھا۔ کلب اور کھلاڑی رجسٹرڈ نہیں تھے۔ کھیل کا انداز اور اصول و ضوابط مقرر نہیں ہوئے تھے۔ کھلاڑی اپنی ذاتی صلاحیت کا مظاہر کرتا تھا۔ لوگو ں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ فٹبال ایک ٹیم گیم ہے اور اس میں کھلاڑیوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد جہاں بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں وہیں مقامی لوگ فٹبال سے بھی انگریزوں کے ذریعے متعارف ہوئے۔ برطانیہ میں انیسویں صدی میں ہی فٹبال کا باضابطہ آغاز ہوگیا تھا۔ہندوستان میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے داخل ہوئے ۔ ابتداء میں یہ ایک تجارتی کمپنی تھی جو بتدریج اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے سارے ہندوستان پر قابض ہوگئی۔ اس کمپنی نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں اپنی فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جن میں قابل ذکر چھاؤنیاں کلکتہ اور حیدر آباد دکن میں تھیں۔ حکومت برطانیہ کے یہ فوجی اپنی اپنی چھاؤنیوں میں ہر روز شام میں فٹبال کھیلا کرتے تھے۔اور شائقین فٹبال ان کے آپسی میچ دیکھنے کثیر مقدار میں جمع ہوا کرتے تھے۔ حیدر آباد میں جب انگریزوں کی کمپنی قائم ہوئی تو انگریز سپاہی یہاں فٹبال کھیلنے لگے۔ ان کے کھیل کو مقامی نوجوان دیکھا کرتے تھے ۔ اس طرح وہ فٹبال سے متعارف بھی ہوئے۔ اور وہ خود اپنے طور پر فٹبال کھیلنے لگے۔ انگریزوں کے کھیل سے قبل حیدرآبادی نوجوان فٹبال کھلاڑی غیر اصولی انداز میں کھیلا کرتے تھے۔ انگریزوں کے نظم وضبط اور کھیل کے اصولوں کو دیکھ کر مقامی کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے طریقوں میں تبدیلی لائی۔ دیکھ کر سیکھنا کے اصول کے مطابق بہت جلد یہاں کے فٹبال کے شوقین کھلاڑیوں نے کھیل کے اصول و ضوابط سمجھ لئے اور اپنے شوق اور صلاحیت کی بنا کھیل کے فن کو نکھارا۔ انگریزوں کی فوجی ٹیموں اور مقامی عوام کی ٹیموں کے درمیان دوستانہ فٹبال میچ ہونے لگے۔ یہ میچ حیدر آباد کے میدانوں بلارم ‘پیٹلہ برج ‘ملے پلی ‘مراد نگر‘نور خان بازار اور اے بیاٹری لائن پر ہونے لگے۔محلوں کی ٹیمیں آپس میں ایک دوسرے سے میچ کھیلنے لگیں۔یہ ایک قسم کے خانگی کلب میچ ہوا کرتے تھے۔ اکثر دو تین کلب والے آپس میں مل کر ایک ٹیم بناتے اور دوسرے محلوں کی ٹیموں کے ساتھ میچس کھیلا کرتے تھے ۔انفرادی میچس ذیادہ ہوتے تھے اور ٹورنمنٹ کم ہی ہوا کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں ایسو سی ایشن کی طرح قاعدے قوانین نہیں تھے۔ کھلاڑی اپنی مرضی سے کسی ایک ٹیم سے کھیلتا تھا۔ میچس کی زمرہ بندی کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ انڈر فائیو اور شاہ کراس طرز کے میچ ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی غریب تھے ۔انہیں ڈریس کوڈ کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ صرف ایک گیند مل جائے تو بس اسی سے فٹبال کھیلا جاتا تھا۔گیند خریدنے کے لئے کھلاڑی رقم چندے سے حاصل کرتے تھے۔مقابلے میں جیت ہار پر انعامی رقم نہیں ہوتی تھی صرف نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں کاپی قلم وغیرہ انعام میں دئے جاتے تھے۔کبھی مقابلے سے قبل ایک قسم کا معاہد ہوتا تھا جسے اس دور میں ’’دبکی نامہ‘‘ کہا جاتا تھا جس کا قاعدہ یہ تھا کہ ہاری ہوئی ٹیم جیتی ہوئی ٹیم کو لکھ کر دیتی کہ اس نے میچ میں شکست اُٹھائی ہے۔

اس دور میں نظام کی پولیس فورس کا نام سٹی افغان پولیس تھا۔اس کے دو بٹالین تھے۔ ایک پیٹلہ برج اور دوسرے عروب۔عروب بٹالین کے فوجی عرب اور پٹھان تھے۔ عربوں کی پولیس میسرم اور بارکس میں رہتی تھی۔ افغان پولیس شہر کے مختلف محلوں میں رہتی تھی۔یہ لوگ روہیلے کے نام سے مشہور تھے۔عروب ایمان داری اور دیانت داری میں لا جواب تھے۔انہیں خزانوں کی نگرانی اور مال کی حفاظت کے لئے متعین کیا جاتا تھا۔افغان پولیس محنتی اور جفا کش تھے۔انتظامی معاملات میں یہ لوگ اہم کردار ادا کرتے تھے۔ یہ پولیس کے سپاہی فٹبال کے شوقین تھے ۔ اور اپنی جسمانی ساخت اور پھرتی کو انہوں نے فٹبال کے کھیل کو نکھارنے میں استعمال کیا۔ اور بہت جلد سٹی افغان پولیس اور عروب کی فٹبال ٹیمیں حیدر آباد میں مشہور ہوگئیں۔یہ بات قابل ذکرہے کہ حیدرآباد فٹبال کی تاریخ کا محور پولیس ٹیمیں ہی رہی ہیں۔ ابتدائی دور کے اکثر کھلاڑی ناخواندہ تھے مگر کمال کا فٹبال کھیلتے تھے۔ قدرت نے انہیں کچھ ایسی صلاحیت دی تھی کہ ان کے کھیل کی وجہہ سے حیدر آباد اور ہندوستان کی فٹبال کی تاریخ میں ان کھلاڑیوں کا نام مشہور ہوگیا۔ اس دور کے کھلاڑی ڈسپلن کے پابند‘محنتی ‘سادگی پسند‘ اور چھوٹے بڑوں کا ادب و احترام کرنے والے تھے۔اس دور کے افسران دین یار جنگ‘محمد حسین صاحب اور مجید صاحب وغیرہ فٹبال کے شوقین تھے۔ انہوں نے اپنی پولیس فورس کو فٹبال کھیلنے کے مواقع فراہم کئے۔اس دور کے پولیس افسران کھلاڑیوں کو بغیر تعلیمی اسنادات اور بغیر کسی طبعی جانچ کے صرف ان کی کھیل کی مہارت کی بنیا د پر پولیس میں بھرتی کر لیا کرتے تھے۔ اس طرح اس دور میں کئی غیر تعلیم یافتہ اور بیروزگار نوجوان صرف اپنی فٹبال کے کھیل میں مہارت کی بنا روزگار سے جڑ گئے۔اور بڑی محنت اور لگن کے ساتھ صبح اور شام فٹبال کی پریکٹس کیا کرتے تھے۔ یونٹ آفیسرس بھی کھلاڑیوں کو ڈیوٹی سے شھوٹ دیتے تھے تاکہ وہ اپنے کھیل پر ذیادہ توجہ دیں۔کھلاڑیوں کا کام صرف فٹبال کھیلنا اور تنخواہ حاصل کرنا تھا۔ اس طرح پولیس افسران کی حوصلہ افزائی سے بھی حیدر آباد کی پولیس ٹیم کو فٹبال کے کھیل میں اپنا نام روشن کرنے کا موقع ملا۔
اس دور کے کوتوال بلدہ(سٹی کمشنر آف پولیس) جناب دین یار جنگ صاحب سٹی افغان پولیس اور سکندرآباد کے فوجی سپاہیو ں کے درمیان ہونے والے میچ دیکھنے خود تشریف لاتے اور پولیس ٹیم کی کامیابی پر حوصلہ افزائی کی خاطرکھلاڑیوں کو انعامات دیتے تھے۔ ان کی نقل کرتے ہوئے دیگر افسران بھی پولیس کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔

ابتداء میں حیدر آباد میں فٹبال کا کھیل غیر منظم تھا۔ صرف 1940ء کے بعدسے ہی حیدرآبادی فٹبال میں نظم و ضبط پیدا ہوا۔حیدرآباد میں فٹبال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ٹیمیں بننے لگیں ۔اور ان کا باضابطہ رجسٹریشن ہونے لگا۔ 1940ء کے بعد حیدر آباد میں جو فٹبال کلب درج رجسٹر ہوئے ان میں سٹی افغان‘جالی کامریڈ کلب‘میری گو راؤنڈ‘وہیکس سب ڈپو‘اعظم جاہی ملز‘ڈی بی آر ملز‘الیون ہنٹرس‘حیدرآباداسپورٹنگ‘نیشنل اسپورٹنگ‘اتھلیٹک کلب ‘فتح میدان ‘ وکٹری پلے گراؤنڈ‘گگن محلسکندر آباداسپورٹنگ‘ بلارم اسپورٹنگ ‘ سکندرآباد بلوز‘کنیڈی کلب ‘ رین بو کلب‘ عباس یونین کلب دارالشفاء‘ینگ مسلم فٹبال کلب جہاں نما‘گولکنڈہ اولڈوائز کلب ‘پرنس باڈی گراؤنڈ‘نظام باڈی گراؤنڈ‘سٹی کالج اور اولڈ بوائز حیدرآباد ہارسیس شامل ہیں۔ فٹبال کلبوں کی کثرت دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد میں ابتداء کے فوری بعد فٹبال کو بہت مقبولیت ملی۔

حیدرآباد فٹبال ایسو سی ایشن کا پہلا دفتر بیچلر کوارٹرز معظم جاہی مارکیٹ حیدر آباد پر قائم ہوا۔ فٹبال کے بڑھتے کلبس کے ساتھ ساتھ یہاں کے میدانوں میں بھی اضافہ ہوا۔اورجن میدانوں پر فٹبال مقابلے ہونے لگے ان میں پیٹلہ برج‘بارکس گراؤنڈ‘وکٹری پلے گراؤنڈ‘گاندھی بھون گراؤنڈ‘اے بیاٹری لائن گراؤنڈ‘ہل فورٹ گراؤنڈ‘گگن محل گراؤنڈ‘سعید آباد گراؤنڈ‘بلارم گراؤنڈ‘جمخانہ گراؤنڈ‘ترملگری گراؤنڈ وغیرہ شامل ہیں۔

حیدرآباد میں سٹی پولیس کلب کی تاریخ:

نظاموں کے شہر حیدر آباد میں 1920ء کی دہائی سے فٹبال کا در حقیقت آ غا ز ہوتا ہے۔ حیدر آباد ایف اے ٹیم کا قیام 1939ء میں عمل میں آیا۔اس ٹیم کے کوچ ایس اے رحیم تھے۔ ان کی کوچنگ میں ہندوستان نے دو ایشین گیمس گولڈ میڈل جیتے۔ وہ 1943ء سے اپنی وفات کے سال1963ء تک حیدر آباد فٹبال کلب کے سکریٹری رہے۔ شہر حیدر آباد سے پولیس سے اُ بھرنے والی ٹیم ’’سٹی افغانس‘‘ تھی۔جبکہ یہ نام نظام دور حکومت کی پولیس کا ہوا کرتا تھا۔ اس ٹیم نے آزادی سے قبل فٹبال میں کامیابیوں کا یک طویل سلسلہ قائم کیا۔حیدر آباد سٹی پولیس ٹیم کو شہرت اس وقت ملی جبکہ اس نے 1943ء میں بنگلور میں کھیلے گئے ایشین گولڈ کپ فائنل مقابلے میں رائل ایرفورس کی ٹیم کو شکست دی۔اس ٹیم میں برطانیہ کے نامور اولمپین کھلاڑی ڈینس کامپٹن بھی شامل تھے۔1950ء کے ڈورانڈ کپ میں کامیابی سے حیدر آبادی ٹیم نے ہندوستانی فٹبال میں اہم مقام حاصل کرلیا۔حیدر آباد پولیس ٹیم نے 1950ء تا1955ء مسلسل پانچ مرتبہ روورس کپ جیتا۔ اور مسلسل گیارہ سال تک ریاستی سطح کے لیگ مقابلے جیتے۔سال1950ء۔1957ء اور1959ء میں حیدر آباد سٹی پولیس نے 12قومی ٹورنمنٹوں میں حصہ لیا۔اور سبھی میں کامیابی حاصل کی۔جبکہ کھلاڑیوں کی پوزیشن 2-3-5کی ہوا کرتی تھی۔1940ء کی دہائی میں حیدر آباد میں فٹبال ٹیموں کے لئے کوچ رکھنے کا طریقہ کار نہیں تھا۔ اور یہ ٹیم کیپٹن کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ٹیم کو متحد رکھے اور کامیابی کی طرف بڑھائے۔اس زمانے میں کھلاڑی اپنے ادارے کے لئے کھیلتے تھے۔اور انہیں میچ جیتنے پر کوئی انعامی رقم بھی نہیں ملتی تھی۔مرحوم نور محمد جنہوں نے 1950ء تا1958ء نیشنل میچ کھیلے کہا کرتے تھے کہ اکثر پریکٹس کے دوران ہمیں ایک فٹبال دستیاب ہوتا تھا اور تازہ دم ہونے کے لئے ایک چائے کی پیالی ملتی تھی۔حیدرآبادی پولیس ٹیم نے شاندار فٹبال کھیلا اور کئی ایوارڈز اور ٹرافیاں حاصل کیں۔اور یہ ٹیم سارے ہندوستان میں عام آدمی کی پسندیدہ ٹیم سمجھی جاتی تھی۔اور کلکتہ کی کلب ٹیموں سے بھی ذیادہ مقبول تھی۔

سٹی افغان پولیس اور اس کے کارنامے:

آزادی سے قبل حیدر آباد میں فٹبال کے کھیل میں اپنانام روشن کرنے والی ایک مشہور ٹیم ’’ سٹی افغان پولیس‘‘ ہے۔یہ ٹیم 1930ء سے قبل قائم کی گئی۔یہ ٹیم حیدرآباد میں کلکتہ کی مشہور فٹبال ٹیم محمڈن اسپورٹنگ کی ہم پلہ سمجھی جاتی تھی۔ نائب کوتوال محمد حسین نے اس ٹیم کو تیار کرنے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کی کوشش سے اس ٹیم نے بمبئی‘مدراس‘بنگلور اور بھوپال وغیرہ میں میچ کھیلے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ اس ٹیم کے ابتدائی دور کے مشہور کھلاڑیوں میں محبوب خاں(سنٹر ہاف)‘شیر خاں(رائٹ بیاک)‘شمشیر خاں(سنٹر فارورڈ)‘تراب خاں (مینیجر اور کوچ)‘ایرئیا( گول کیپر)‘فروول (لیفٹ بیاک)‘جمال صاحب( رائٹ ہاف)‘شیخ صاحب(رائٹ آؤٹ)‘انور حسین( رائٹ ان)سوسے سینئر(لفٹ ان)‘قدوس صاحب (لفٹ آؤٹ)نانا صاحب(لفٹ ان) پوزیشنوں پر کھیلا کرتے تھے۔ اس ٹیم کے نامور کھلاڑیوں میں عزیز‘ نور‘ محبوب خاں‘لائق‘ ذوالفقاراور یوسف خاں آگے چل کر اولمپئین بنے۔ پیٹرک‘افضل ‘ایرئیا اور سوسے جونیر بھی بعد میں ٹیم کا حصہ بنے۔اس ٹیم کے بانیوں میں تراب خاں‘محبوب خاں‘ شیر خاں اور شمشیر خاں شامل تھے۔ اس ٹیم کے کھلاڑی اپنی ماہرانہ تکنیک اور پھرتی کے سبب مقبول تھے۔

سٹی افغان پولیس ٹیم نے مسلسل پانچ مرتبہ روورس کپ جیت کر ریکارڈ قائم کیا۔ اس وقت ٹیم کی شہر ت آسمان کی بلندی پر تھی اور ہر کوئی اس ٹیم کے کھیل کی تعریف کرتا تھا۔ اس وقت اس ٹیم کا مقابلہ کرکے اسے شکست سے دوچار کرنے کے قابل کوئی ٹیم مخالفت میں نہیں تھی۔ سٹی افغان پولیس ٹیم نے برطانیہ کی انٹر نیشنل درجے کی کئی ٹیموں سے میچ کھیلے اور ان میں کامیابی حاصل کی۔سٹی افغان پولیس ٹیم کے میچ حیدر آبا د میں پیٹلہ برج میدان پر ہوا کرتے تھے۔اس ٹیم نے ہندوستان کے مشہور ٹورنمنٹ ڈورانڈ کپ میں بھی حصہ لیا اور کامیابیاں حاصل کیں۔اس ٹیم کے کھلاڑی شمشیر خاں کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ انہیں محمڈن اسپورٹنگ سے کھیلنے کا کنٹراکٹ حاصل ہوا۔سٹی افغان پولیس نے سقوط حیدر آباد سے قبل کافی نام کمایا ۔ جب حیدر آباد کا ہند یونین میں انضمام عمل میں آیا تو اس ٹیم کا نام بدل کر سٹی پولیس کردیا گیا۔ 1950کی دہائی سے سٹی پولیس ٹیم اپنے نئے نام کے ساتھ ایک مرتبہ پھر حیدر آبادی فٹبال کے اُفق پر مشہور ہونے لگی۔ سٹی افغان پولیس ٹیم کے اکثر کھلاڑی سٹی پولیس میں بھی برقرار رہے۔ بعد میں اسٹیم کا حصہ بننے والے مشہور کھلاڑیوں میں نبی(گول کیپر)لطیف( رائٹ بیاک)کلیم الدین (سنٹر ہاف)عزیز الدین ( رائٹ بیاک)نور محمد ( رائٹ ہاف)پیٹرک( لفٹ ہاف)یوسف خاں اولمپین( جدا جدا پوزیشن)معین الدین (رائٹ آ’وٹ) سوسے جونئیر(رائٹ ان) ایڈورڈ(سنٹر فارورڈ)محمود علی (لفٹ آؤٹ)ذوالفقار صاحب( لفٹ ان) وغیرہ شامل تھے۔ بعد میں سٹی پولیس میں کھیلنے والے اہم کھلاڑیوں میں سلیم الدین ( گول کیپر) محمد یوسف (لفٹ آؤٹ) جعفر ( رائٹ آؤٹ)محمد اعظم (رائٹ بیاک)رشید خان( لفٹ بیاک) ستیہ نارائنا(سنٹر فارورڈ)شیخ اعظم‘محمد انصار‘محمد یوسف ‘سلیم اللہ ‘امرت سنگھ اور معین صاحب شامل ہیں۔سٹی پولیس ٹیم کی تربیت اور اسے ترقی دلانے میں ایڈیشنل آئی جی شیو کمار لال نے اہم کردار ادا کیا ۔ وہ فٹبال کے بڑے شوقین تھے۔ انہوں نے سٹی پولیس ٹیم کی سرپرستی کی۔جس کی بنا اس ٹیم نے تین مرتبہ روورس کپ‘تین مرتبہ ڈورانڈ کپ اور مقامی نظام گولڈ کپ بھی جیتا۔ عبدالسلام صاحب ڈی آئی جی اور سلڈانہ ڈی آئی جی نے بھی سٹی پولیس ٹیم کی کافی حوصلہ افزائی کی۔ٹیم کے کوچ ایم اے رحیم تھے جن کی ماہرانہ کوچنگ اور کھلاڑیوں میں ڈسپلن کی پابندی کی عادت پیدا کرنے کی وجہہ سے ٹیم نے ہندوستانی فٹبال میں اپنا وقار اور دبدبہ قائم رکھا۔ اس ٹیم نے بنگال کی مضبوط ٹیموں کو چیلنج کیا۔

اولمپکس اور حیدر آبادی فٹبال:

1952ء کے ہلسنکی اولمپک کھیلوں میں ہندوستانی – ٹیم میں حیدر آباد سے تین کھلاڑیوں سید خواجہ عزیز الدین ۔ نور محمد اور ایس کے معین الدین نے شرکت کی۔1956ء کے ملبورن اولمپکس میں ہندوستانی فٹبال ٹیم میں 8حیدرآبادی کھلاڑی شامل تھے۔جن کے نام اس طرح ہیں۔ پیٹر تھنگراج۔سید خواجہ عزیز الدین۔ محمد عبدالسلام۔ احمد حسین۔نور محمد ۔ جے کرشنا سوامی۔ دھرما لنگم۔کانن۔ تلسی داس بالا رام اور محمد ذوالفقار الدین۔اس اولمپکس میں ہندوستان کو چوتھا مقام حاصل ہوا۔دو سال بعد عزیز الدین کے زیر قیادت ہندوستانی ٹیم نے ٹوکیو میں منعقدہ ایشیاء کپ میں حصہ لیا۔اور تیسرے مقام پر رہی۔اس ٹیم میں حیدر آبادی فارورڈ کھلاڑی ڈی ایل کانن بھی شامل تھے۔

1960ء کے روم اولمپکس میں ہندوستان نے چوتھا مقام حاصل کیا۔ اس ٹیم میں حیدر آباد سے قومی ٹیم کے لئے 6کھلاڑیوں نے نمائندگی کی ۔جن کے نام اس طرح ہیں ۔تھنگراج۔ یوسف خان۔ایس ایس حکیم۔بالا رام۔ کانن اور حبیب الحسن۔1962ء کے جکارتہ ایشین گیمس کی فاتح ہندوستانی ٹیم میں ڈی ایم کے افضل اور یوسف خان شامل تھے۔ ان کھلاڑیوں کا تعلق حیدر آباد سے تھا۔ اس وقت حیدر آباد واحد ریاست تھی جس نے مغربی بنگال کے طاقتور فٹبال کو چیلنج کیا۔ ہندوستانی فٹبال ٹیم کا یہ سنہرا دور ذیادہ عرصہ باقی نہیں رہا۔ اور تنظیمی سطح پر سیاست اور گروہی رقابت اور علاقہ واریت سے 1980ء کی دہائی کے بعد سے ہندوستانی فٹبال روبہ زوال ہے۔

آندھرا پردیش پولیس فٹبال ٹیم کے نامور کھلاڑی:

سقوط حیدرآباد کے بعد سٹی افغان پولیس ٹیم کا نام بدل کر آندھرا پردیش پولیس ٹیمAPPرکھا گیا۔اس ٹیم نے کافی عرصے تک حیدرآباد ی فٹبال کا نام روشن کیا۔ اس ٹیم کے چند نامور کھلاڑیوں کا تعارف ذیل میں دیا جار ہا ہے۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہو ں نے اپنے ماہرانہ کھیل سے لوگوں کے دل جیتے۔اور محکمہ پولیس میں بھی اعلی عہدوں پر فائز رہے۔

دورا سوامی: فارورڈ انسائیڈ‘ہندوستانی ٹیم میں کئی مرتبہ کھیل چکے۔اپنی ہیڈنگ کے لئے مشہور رہے۔ انٹرنیشنل اور ایشین مقابلوں میں ہندوستانی ٹیم کی نمائیندگی کی۔CARہیڈ کوارٹر میں سب انسپکٹر بن کر ریٹائر ہوئے۔

محمود علی خلیفہ: لفٹ آؤٹ‘روورس کپ اور ڈورانڈ کپ میں اپنے بہترین کھیل کی وجہہ سے مشہور ہوئے۔ کئی سال تک APPٹیم میں کھیلے۔ CARمیں ہیڈ کانسٹبل بن کر ریٹائیر ہوئے۔

پنڈاری: ہاف‘کئی سال تکAPP ٹیم کے لئے کھیلے۔ روورس اور ڈورانڈ کپ میں بہترین مظاہر ہ کیا

صالح سینئیر: یہ بڑے اسٹائلش کھلاڑی تھے ۔ڈربلنگ میں ماہر تھے۔ آل انڈیا پولیس گیمس ‘روورس اور ڈورانڈ کپ میں یاد گار مظاہرہ پیش کیا۔

محمد یوسف: یہ بہت خوبصورت فٹبال کھیلتے تھے۔ پاس دینے اور لینے اور ڈربلنگ میں بڑی مہار ت تھی۔ پہلی مرتبہ انڈین ٹیم میں سلکشن ہوا تو کھیل کی سیاست کا شکار ہوئے اور نہیں گئے۔ دوسری مرتبہ اپنی ضدی طبیعت کی بنا نہیں گئے۔ انہیں بال کنٹرول میں کمال حاصل تھا۔ شائقین فٹبال کے پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ CPLمیں انسپکٹر کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔

سلیم الدین: گول کیپر:بڑے زندہ دل اور شرارتی طبیعت کے کھلاڑی رہے۔ فٹبال کے شوق میں پولیس ٹیم میں شامل ہوئے بغیر تنخواہ کے صرف اسپورٹس فنڈ سے جیب خرچ لے کر کھیلتے رہے۔ سٹی پولیس میں جائیداد نہ ہونے کے سبب فوجی بٹالین میں تقرر عمل میں آیا۔ اور کمانڈنٹ بن کر ریٹائر ہوئے۔

ایس اے رسول: گول کیپر‘1958ء سے دو تین سال تک بغیر تنخواہ کے APPٹیم میں کھیلتے رہے۔ شہر میں جائیداد نہ ہونے پر ان کا تقرر اننت پولیس میں ہوا۔ انسپکٹر بن کر ریٹائر ہوئے۔

وشواناتھ: APSPبٹالین میں بہ حیثیت سب انسپکٹر ان کا تقرر عمل میں آیا۔ کئی سال تک ٹیم میں کھیلتے رہے۔

ست نارائن: بٹالین میں بھرتی ہوئے۔کمانڈنٹ بن کر ریٹائر ہوئے۔

اشرف علی: 1963ء میں سری لنکا کے خلاف میچ کھیلا۔ انہیں اسٹیٹ الیون کا بہترین کھلاڑی مانا جاتا تھا۔

اقبال گول کیپر: کئی سال تک پولیس ٹیم میں کھیلے۔ پھر ساؤتھ سنٹرل ریلوے میں چلے گئے۔

جی جی شفیق: بڑے پھرتیلے اور چالاک کھلاڑی تھے۔ مد مقابل کے کھلاڑی کی نفسیا ت سے کھیلتے تھے۔ گول کیپر کے کام کے علاوہ میدان کے ہر حصے میں کھیلنے کی مہارت تھی۔ ہمیشہ گول بنانے کی فکر میں رہتے تھے۔ انہوں نے کئی زاویوں سے شاٹ لگا کر گول بنائے اور شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی۔ڈورینڈ‘روورس اور آل انڈیا پولیس گیمس میں نمایاں کار کردگی کے سبب یا در کھے جاتے ہیں۔

محمد عبدالغفور: ہائی اسکول کے زمانے میں بہترین کھیل پیش کرنے پر انہیں سب سے پہلےAPP ٹیم میں شامل کیا گیا۔تین سال تک شاندار کھیل پیش کیا۔ گھٹنے میں تکلیف کے باعث فٹبال چھوڑنا پڑا۔محکمہ پولیس میں ACPبن کر سبکدوش ہوئے۔
عبداللہ: کئی سال تک APP ٹیم میں کھیلے۔انسپکٹر بن کر سبکدوش ہوئے۔

معین چاند صدیقی: کچھ عرصے تک فٹبال کھیلا۔ پھر باسکٹ بال کھیلنے لگے۔ زخمی ہونے کے بعد کھیل ترک کردیا۔انسپکٹر بن کر سبکدوش ہوئے۔

محمد سلیم اللہ: مسلل 14سال تک APP ٹیم میں کھیلتے رہے۔NISبن کر پولیس ٹیموں کی کوچنگ کرتے رہے۔FIFAکوچ بنے۔ فیڈریشن کی کئی ذمہ داریاں نبھائیں۔ حیدرآبادی پولیس فٹبال ٹیم کی کوچنگ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

شوکت علی : گول کیپر‘ 1972ء میں تہران گیمس میں ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 15سال تک APP ٹیم کا حصہ رہے۔ تین سال تک اسٹیٹ ٹیم میں کھیلے۔ ترقی پاکر ڈپٹی کمشنر آف پولیس بنے۔

رشید خاں: 1967ء میں ایشین ٹیم دہلی کے لئے منتخب ہوئے۔10سال اسٹیٹ ٹیم میں اور 11سال APP ٹیم میں کھیلے۔ IFA ‘AIFF میں بہترین مظاہرہ پیش کیا۔

سبحان خاں: ایسو سی ایشن ٹیم اور آ ل انڈیا پولیس گیمس کے کامیاب کھلاڑی۔کئی بار اسٹیٹ ٹیم میں بھی کھیل چکے ہیں۔

جعفر: APP ٹیم کے بہترین فارورڈ کھلاڑی‘جئے پور راجستھان میں آل انڈیا پولیس گیمس کے دوران پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔کچھ عرصے بعد پھر کھیل جاری رکھا۔انسپکٹر بنے اور رضاکارانہ طور پر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

معین الدین: بہترین فارورڈ کھلاڑی‘اسٹیٹ الیون اور آل انڈیا پولیس گیمس میں کئی موقعوں پر گول بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔

صغیر علی: بٹالین میں بھرتی ہوئے۔ آل انڈیا پولیس گیمس میں حصہ لیا۔ہائی اسکول سے سیدھے پولیس ٹیم میں آنے والے کھلاڑیوں میں محمد عبدا للہ‘عبدالغفور‘سلیم الدین‘محمد یوسف‘پیٹرک ‘دورا سوامی‘اور ڈی ایم کے افضل شامل ہیں۔

انٹر نیشنل ریفری: معین الدین حسن‘جی ایم پنٹیا‘محمد اعظم‘ایس ایس حکیم۔

نیشنل ریفری: جی وائی لئیق‘مخدوم صابر‘نور محمد‘ایس کے معین الدین‘دھن کوٹی‘اے پیٹرک‘شجاعت علی خان‘کریم الدین نواب‘ایس اے سلیم۔

حیدرآبادی فٹبال کا زوال:

حیدر آبادی فٹبال کا زوال اور ہندوستانی فٹبال کا زوال تقریباً یکساں رہا ہے۔ ماضی میں حیدر آبادی کھلاڑیوں سے بھری ہندوستانی ٹیم میں آج کوئی بھی حیدر آبادی کھلاڑی شامل نہیں ہے۔ہندوستانی ٹیم کے لئے ماضی میں عظیم اولمپین پیدا کرنے والے مشہور حیدرآبادی فٹبال کلبس رو بہ زوال ہیں۔ یہ زوال1980ء کے بعد سے شروع ہوا۔جبکہ ٹی جی وینکٹیش AFPAکے صدر بنے اور الف خاں اعزازی سکریٹری بنے۔2002ء میں الف خاں کے انتقا ل کے بعد ان کے چھوٹے بھائی انیس الملک نے عہدہ سنبھالا۔وینکٹیش اور انیس کو ایسو سی ایشن سے نکا ل دیا گیا۔ تاہم انہوں نے ایسو سی ایشن کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کئی مقدمات دائر کردئے۔AIFFنے بعد میں مفاہمت کرائی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انہوں نے قابل اور معیاری کلبوں کو غیر منصفانہ طریقے سے بغیر کسی وجہہ کے معطل کرنا شروع کردیا۔اور غیر کار کرد کلبوں کا نام باقی رکھا۔جب کلب ہی نہ ہوں تو مقامی ٹورنمنٹ کہاں ہوں گے۔ اور ماضی کے فٹبال کلبس۔۔۔ اب حیدر آبادی فٹبال کی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں مغربی بنگال‘گوا ‘منی پور اور کیرالا وغیرہ میں فٹبال کی صورتحال پھر بھی بہتر ہے۔وہاں ریاستی سطح پر فٹبال کی ایسوسی ایشنیں طاقتور ہیں۔اگر ایسو سی ایسشن سرگرم ہو تو مقامی ٹورنمنٹوں کا انعقاد عمل میں آئے گا۔ اور کلبس کو اچھا مظاہر کرنے کا موقع اور حوصلہ ملے گا۔جبکہ آج حیدر آباد فٹبال کی ایک بھی سرگرم اور موزوں اسو سی ایشن نہیں ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ یہاں فٹبال کی ترقی رُ کی ہوئی ہے۔ یہاں کا مشہور نظام گولڈ کپ قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ اسٹیٹ لیگ بھی پابندی سے نہیں ہورہے ہیں۔جبکہ ماضی میں مجید چیلنج شیلڈ۔شیو کمار لا ل ٹورنمنٹ اور نامور کوچ رحیم صاحب کی یاد میں بھی ٹورنمنٹ ہوا کرتے تھے۔ حیدر آباد کے آخری دور کے عظیم کھلاڑیوں میں محمد حبیب تھے جو برق کی رفتار سے گول پر حملہ کرتے تھے۔ انہوں نے حیدر آباد میں ناقدری کی بنا اپنا تمام پیشہ وارانہ کیریر کلکتہ میں گذارا۔ وہ ہندوستان کی 1970ء کے بنکاک ایشیائی کھیلوں میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ اتفاق سے اس ٹیم کے کپتان ایک اور حیدر آبادی دروناچاری ایوارڈ یافتہ سید نعیم الدین تھے۔ منتظمین پر الزام عائد کرنا آسان ہے۔اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے حیدر آبادی فٹبال کو بچانے کے لئے کیا کیا۔ یہاں کھیل پر پیسہ نہیں لگایا جاتا۔جو کچھ باصلاحیت کھلاڑی ہیں وہ دولت کمانے کے لئے دوسری ریاستوں کا رُ خ کر رہے ہیں۔حیدرآباد کے فٹبال کی خاص طور سے پولیس ٹیم کی بدولت رونق تھی۔ حیدرآباد کے کھلاڑیو ں کی یہ خوبی رہی کہ قومی ٹیم وہ کبھی ایکسٹرا میں نہیں بیٹھے ۔حیدرآباد کے کھلاڑیوں نے بنگال کے لئے کھیلا ۔ لیکن بنگال کے کسی کھلاڑی کو حیدر آباد سے کھیلنے کا موقع نہیں ملا ۔ کیونکہ حیدر آباد میں ہمیشہ ایک سے ایک با صلاحیت کھلاڑی ماضی میں موجود ہوا کرتے تھے۔ ٹیم میں بعض کھلاڑی مشہور ہوجاتے ہیں بعض نہیں لیکن فٹبال گیارہ کھلاڑیوں کے اجتماعی کھیل کا نام ہے ٹیم میں ہر کھلاڑی کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ حیدر آباد کے فٹبال کا ماضی اس دور میں شاندار رہا جبکہ کھلاڑیوں کو درکار بنیادی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ آج انفرااسٹرکچر ‘دولت اور کوچنگ سب کچھ موجود ہے ۔ لیکن منصوبہ بندی نہ ہونے اور کھیل سے جذباتی لگاؤ نہ ہونے کے سبب حیدر آباد ی فٹبال اپنے ماضی کے شاندار کارناموں کو دہرانے سے قاصر ہے۔ نئی نسل کے بچوں سے امید ہے کہ وہ حیدر آبادی فٹبال کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کریں گے۔

حیدرآبادی فٹبال سے وابستہ عظیم شخصیات

پہلے فٹبال سکریٹری جناب احمد محی الدین صاحب:

حیدرآباد میں ابتدائی دور میں فٹبال کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور آزدای کے بعد لال بہادر اسٹیڈیم کی تعمیر سے قبل تمام گیمس کے سکریٹری جناب احمد محی الدین صاحب تھے۔ انہیں کھیلوں اور خاص طور سے فٹبال سے بے حد لگاؤ تھا۔ ابتداء میں جب فٹبال ایسو سی ایشن کا دفتر بیچلر کوارٹرز معظم جاہی مارکیٹ پر تھا اس وقت محی الدین صاحب دفتر کھلنے سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔ان کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ کبھی وہ خود ہی دفتر کی صفائی کا کام کر لیتے تھے۔

جناب احمد محی الدین صاحب کی عادت تھی کہ وہ صبح سویرے بیدار ہوجاتے‘شیروانی زیب تن کرتے اور اپنی سائیکل پر سوار ہو کر کھیل کے میدانوں کی طرف نکل پڑتے۔فٹبال کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ان کا معمول تھا۔ اپنے استعمال کے تمام ربر اسٹامپ ساتھ رکھتے اور جب بھی کسی ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا ہو یا کوئی دفتری کار وائی ہو فوری اپنا لیٹر پیڈ نکالتے ۔ درخواست لکھتے اور اس پر دستخط کرکے دفتر روانہ کردیتے۔ بہ الفاظ دیگر وہ حیدر آباد میں اسپورٹس کی ترقی کے لئے ہر وہ کا م کرتے جس سے کھیل اور کھلاڑی کو فائدہ پہونچے۔ جناب احمد محی الدین صاحب بڑے صاف گو اور کھلے دماغ کے انسان تھے۔ حق دار کو حق دلانا ان کے مزاج میں شامل تھا۔ ان کے دور کے کئی نامورکھلاڑی اونچے عہدوں تک پہونچے۔

لال بہادر اسٹیڈیم بننے کے بعد جناب احمد محی الدین صاحب نے کچھ عرصے سکریٹری کے ذمہ داری جناب ہادی صاحب کے سپرد کی اور بعد میں یہ ذمہ داری اس دور کے ایک اور فٹبال کے ماہر کوچ اور شائق جناب سید عبدا لرحیم صاحب کے سپرد کردی۔ اور وہ والی بال کھیل کی ترقی میں لگ گئے۔ کھلاڑیوں کو جمع کرنا اور کوچنگ کیمپس منعقد کروانا جناب محی الدین صاحب کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ ان کے دور میں کئی انٹر نیشنل کھلاڑی تیا ر ہوئے۔ اور ملک کا نام روشن ہوا۔انہوں نے مختلف اسپورٹس ایسو سی ایشنوں کو اور انجمنوں کو اولمپک ایسو سی ایشن کے تحت جوڑنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا۔ فتح میدا ن انڈور اسٹیڈیم کی تعمیر میں ان کی کاوشوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ محکمہ پولیس میں شیوکمار لا ل صاحب اور اے کے نمبیار صاحب کو اسپورٹس سے قریب کرنے میں جناب احمد محی الدین صاحب کا عمل دخل نا قابل فراموش ہے۔ اسی طرح ساؤتھ سنٹرل ریلوے میں جناب اشرف علی صاحب کو اور محکمہ پی اینڈ ٹی میں راگھولو صاحب اور آرٹی سی میں کلیان راؤ صاحب کو ٹیمیں تیار کرنے کے لئے راغب کرنے میں محی الدین صاحب کا اہم کردار رہا ہے۔ اس طرح حیدر آباد میں اسپورٹس کے فروغ خاص طور سے فٹبال کے ابتدائی دور میں فروغ میں حیدرآباد فٹبال ایسو سی ایشن کے پہلے سکریٹری جناب احمد محی الدین صاحب کی خدمات ناقابل فروش رہی ہیں۔

جناب شیو کمار لال صاحب IGP

حیدرآبادفٹبال کے عروج کا زمانہ شیو کمار لا ل صاحب کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ اور اے کے نبیار صاحب کے دور کے بعد زوال پذیر ہوتا ہے۔حیدرآباد فٹبال کے بہی خواہوں میں شیو کمار لال صاحب کا نام سر فہرست آتا ہے۔یہ پولیس ٹیم کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے فٹبال کے بہی خواہ پولیس افسران کے ذکر کے بغیر پولیس ٹیموں کے کار نامو ں کا ذکر ادھورا سمجھا جائے گا۔

پولیس ایکشن کے بعد اس دور کے کوتوال بلدہ جناب دین یار جنگ کے تعاون سے کئی نامور اور اچھے کھلاڑی حیدر آباد سٹی پولیس میں بھرتی ہونا شروع ہوئے۔ شیو کمار لال کی کوشش رہتی تھی کہ فٹبال جاننے والے نوجوانوں کو کسی طرح پولیس میں ملازمت مل جائے۔ اگر سٹی پولیس میں جائیداد یں نہ ہوتیں تو وہ کسی قابل نوجوان کو سی پی ایل عنبر پیٹھ میں بھرتی کروادیتے تھے۔ اگر وہاں بھی کوئی جائیداد خالی نہ ہوتی تو وہ کھلاڑی کو APSPبٹالین میں ملازمت دلادیتے تھے۔ اگر کوئی کھلاڑی اچھے کھیل کا مظاہر ہ کرتا یا ہندوستانی ٹیم کے لئے منتخب ہوتا تو شیو کمار لال اس کھلاڑی کو ترقی دلاتے تھے۔ اور اپنی فٹبال سے دلچسپی کا ثبوت دیتے تھے۔حیدرآباد کے کئی خانگی کلب کے کھلاڑی شیو کمار لال کی حوصلہ افزائی دیکھ کرAPPٹیم میں کھیلنے کے خواہش مند رہتے تھے ۔شیو کمار لال صاحب کی حوصلہ افزائی سے کئی کھلاڑی ملازمت میں اعلی عہدوں پر فائز ہو کر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔شیو کمار لال اچھے کھلاڑی کو اس قدر چاہتے تھے کہ ملازمت میں اس کے ناز نخرے بھی برداشت کرتے تھے۔ان کا ناقابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں حیدر آباد فٹبال ایسو سی ایشن کو فعال اور متحرک بنایا۔وہ جناب رحیم صاحب کوچ کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔انہیں کھلاڑیوں کو پرکھنے میں بڑی مہار ت تھی۔ کھلاڑی بھی ان کے معیار پر پورے اتر تے تھے اور بھر پور کھیل پیش کرتے تھے۔شیو کمار لا ل صاحب کے مشورے فٹبال فیڈریشن میں قبول کئے جاتے تھے۔ وہ اس با ت کی کوشش میں رہتے کہ کوئی ماہر اور با صلاحیت کھلاڑی ریاست سے باہر جا کر دوسری ریاست کے لئے نہ کھیلے۔ اس کے لئے وہ کھلاڑیوں کو اونچے عہدوں کا پیشکش کرتے تھے۔ اس دور میں اکثر نوجوان کھلاڑیوں کی یہ تمنا رہتی تھی کہ وہ اے پی پولیس ٹیم کے لئے کھیلے ۔ کیونکہ یہ واحد ٹیم تھی جو آل انڈیا ٹورنمنٹ کھیلنے کے لئے حیدر آباد سے مدعو کی جاتی تھی۔یہی وجہہ تھی کہ اے پی پولیس ٹیم شائقین کی بھی پسندیدہ ٹیم تھی۔ ٹیم میں کھیلنے والے گیارہ کھلاڑیوں کے علاوہ ریزرو کھلاڑی بھی بڑے ماہر ہوا کرتے تھے۔ اس لئے نوجوان کھلاڑیو ں کو پولیس ٹیم میں منتخب ہونے کے لئے کافی وقت درکار ہوتا تھا۔ شیو کمار لال اور عبدا لرحیم صاحب کے دور کے بعد کھلاڑی بہتر معاوضے کی تلاش میں مغربی بنگال کے کلبوں کا رُ خ کرنے لگے۔

شیو کمار لال کی اسپورٹس سے دلچسپی کو خراج پیش کرنے کے لئے گوشہ محل اسٹیڈیم کی تعمیر کے بعد اس کا نام شیو کمار لا ل اسٹیڈیم رکھا گیا۔ اس دور کے چیف منسٹر بورگل رام کرشنا راؤ صاحب کے ہاتھوں 19اکٹوبر 1956ء کو اسٹیڈیم کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس اسٹیڈیم کی تعمیر میں جناب علی رضا صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جناب شیو کمار لا ل صاحب کے معاون پولیس افسران میں اے کے نمبیار‘جی ایس سلڈھانہ صاحب‘کرشنما چارلو صاحب‘ایس اے سلام صاحب‘شٹی صاحب‘وشواناتھ صاحب‘KLڈینھم صاحب اور جی ایم مظہر الدین صاحب قابل ذکر ہیں۔ اس طرح حیدرآباد پولیس ٹیم کو ایک نامور پولیس ٹیم بنانے میں تعاون کرنے والوں میں جناب شیو کمار لا ل صاحب ایک اہم نام بن کر سامنے آتے ہیں۔ ّ ٖٖکوچ ایس اے رحیم:-سیدعبدالرحیم ہندوستانی فٹبال ٹیم کے نامور کوچ رہے۔ان کی زیر نگرانی ہندوستانی ٹیم نے تین مرتبہ اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔اور دو مرتبہ ایشین گیمس میں گولڈ میڈل جیتا۔ وہ1943سے 1963اپنے انتقال تک بیس سال حیدر آباد فٹبال ایسو سی ایشن کے سکریٹری رہے۔1951ء میں سید عبدالرحیم نے این اے فروول سے حیدرآباد پولیس ٹیم بنائی۔اور اس ٹیم کی تیاری میں مسلسل کوشش کی۔پیشہ سے مدرس سید عبدالرحیم فٹبال کے کھیل کے ماہر تھے۔انہوں نے اپنے کھلاڑیوں میں بے مثال تکنیکی صلاحیت‘نظم وضبط اورہمت و حوصلہ پیدا کیا۔ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنی اختراعی کوچنگ کے طریقوں کے سبب حیدر آبادی فٹبال کو شہرت دلانے والے نامورکوچ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔انہوں نے دوران کوچنگ ڈربلنگ کے بغیر ٹورنامنٹوں کا انعقاد عمل میں لایا۔ تاکہ سنگل ٹچ پاسنگ اور کھلاڑیوں کے کامبینیشن کو بہتر بنایا جا سکے۔انہوں نے کھلاڑیوں کو دونوں پیروں کی یکساں صلاحیت دلانے کی خاطر کمزور پیر سے کھیلنے کے ٹورنمنٹ بھی کرائے۔جس میں کھلاڑی کو صرف اپنے کمزور پیر سے کک مارنے اور گیند روکنے کی اجازت ہوتی تھی۔یعنی اگر کوئی کھلاڑی دائیں پیر کا ذیادہ استعمال کرتا ہو تو اس پر پابندی تھی کہ وہ کھیل کے دوران صرف بایاں پیر ہی استعمال کرے۔ رحیم صاحب کی اس اختراعی کوشش سے کھلاڑیوں کو اپنے دونوں پیر مضبوط بنانے اور کھیل کے معیار کو بہتر بنانے کا موقع ملا۔ انہوں نے ایک اور نیا طریقہ ایجاد کیا اور ایک قد کے کھلاڑیوں کو لے کر پارکوں میں میچ کھلائے ۔ اس طرح کی تکنیک سے حیدر آبادی فٹبال کو تقریباً تیس سال تک ہونہار کھلاڑی دستیاب ہوئے۔ رحیم صاحب نے کوچنگ کے دوران اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے کھلاڑی میدان پر کھیل کے دوران ڈسپلن کا مظاہر کریں۔اور شاندار کھیل پیش کریں۔ ان کے تربیت یافتہ کھلاڑیوں میں جمال۔عزیز۔سوسے جونیر۔اور نور محمد نے مسلسل پانچ سال تک بغیر زخمی ہوئے میچ کھیلے۔ان کھلاڑیوں نے ہمیشہ اسپورٹس مین شپ کا مظاہر کیا۔ اور کبھی ریفری کے فیصلہ پر سوال نہیں اٹھایا۔اس وقت بھی جبکہ میچ سنسنی خیز ہوتا تھا۔ رحیم صاحب کے زیر نگرانی ٹیمیں اپنے نظم و ضبط‘ٹیم اسپرٹ اور کبھی ہار نہ ماننے کے جذبے سے کھیلا کرتی تھیں۔

تبصرے بند ہیں۔