انسان اور زمین کی حکومت (قسط 71)

رستم علی خان

مروی ہے کہ قوم بنی اسرائیل نے اپنے نبی حضرت شموئیل علیہ السلام سے کہا اے نبی اللہ ہمارے واسطے دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں پھر سے سلطمت دیوے کہ ہم خدا کے دشمنوں کو مار کر زیر کریں اور ایک بادشاہ ہم پر مقرر کر دیوے کہ جس کی قیادت میں ہم جہاد کریں- اس بات کو اللہ تعالی نے قرآن میں یوب بیان فرمایا؛ "تو نے نہ دیکھی ایک جماعت بنی اسرائیل میں موسی کے بعد جب کہا انہوں نے اپنے نبی کو مقرر کر دیوے ہمارے واسطے ایک بادشاہ کہ ہم لڑائی کریں اللہ کی راہ میں- وہ بولا یہ بھی توقع ہے تم سے کہ جب حکم ہو تم کو لڑائی کا تب نہ لڑو- وہ بولے ہم کو کیا ہوا کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں اور ہم کو نکال دیا ہے ہمارے گھر سے اور اپنے بیٹوں سے- پھر جب حکم ہوا ان کو لڑائی کا پھر گئے مگر تھوڑے ان میں سے- اور اللہ کو معلوم ہے جو ظالم ہیں-"

تفسیر میں لکھا ہے کہ بعد حضرت موسی علیہ السلام کے ایک مدت تک بنی اسرائیل کا کام بہتر رہا- پھر جب ان کی نیت بری ہو گئی اور کفر و سرکشی میں مبتلا ہوئے تو ان پر غنیم مسلط ہوا- جالوت نامی کافر بادشاہ نے ان کے اطراف کے شہر چھین لیے اور لوٹا اور ان کے فرزندوں وغیرہ کو بندی بنا کر لے گیا- باقی جو لوگ بھاگ گئے وہ وہاں سے شہر بیت المقدس میں جمع ہوئے اور پیغمبر خدا حضرت شموئیل سے کہا کہ اللہ سے ہماری فتح کے لیے دعا فرمائیں کہ ہمیں سلطنت عطا کرے اور ہمارے واسطے ایک بادشاہ با اقبال مقرر کر دے کہ ہم ظالموں سے خدا کے لیے جہاد کریں اور بغیر بادشاہ بااقبال کے ہم لڑ نہیں سکتے-

تب حضرت شموئیل نے ان سے فرمایا کہ تمہارا کیا پتا ہے کہ جب تمہیں لڑائی کا حکم دیا جائے تو تم لڑائی سے انکار کر دو اور مارے موت کے خوف کے گھروں میں دبکے رہو- چونکہ بنی اسرائیل نے ہمیشہ لڑائی اور جنگ کے حکم پر حیلوں بہانوں سے کام لیا تھا اور ہمیشہ لڑنے سے جان چھڑاتے تھے- اس واسطے حضرت شموئیل نے یہ بات کہی کہ اپنی بات پر پکے رہیں- تب کہنے لگے بھلا ہم کیوں نہ لڑیں گے جبکہ کافروں نے ہم سے ہمارا گھر املاک سب چھین لیا ہے اور ہمارے بیٹوں کو بندی بنا کر لے گئے ہیں سو ہم ضرور لڑیں گے اور عہد پکے کر لیے- مگر پھر جب لڑائی کا حکم ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب اپنے عہد سے پھر گئے-

القصہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا کہ نام جس کا طالوت تھا- بنی اسرائیل کے کسی آدمی کے پاس غلام تھا اور اس کے جانور وغیرہ چرایا کرتا تھا- ایک دن اس سے ایک جانور گم ہو گیا- جانوروں کے مالک نے اس سے گم ہونے والے جانور کی قیمت مانگی- اس کو یہ مقدور نہ تھا کہ قیمت اس کی دیوے- آخر ناچار ہو کر نبی شموئیل کے پاس گیا کہ مالک چوپایہ سے اس کے لیے سفارش کر دیں کہ وہ قیمت اس کی معاف کر دے-

حضرت شموئیل نے اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے- اس نے کہا میرا نام طالوت ہے- تب شموئیل نبی نے اسے غور سے دیکھا- کہتے ہیں کہ جب حضرت شموئیل نے بنی اسرائیل کے کہنے پر دعا کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے انہیں ایک لاٹھی جنت سے لا کر دی اور فرمایا کہ جس شخص کا قد اس لاٹھی کے برابر ہو گا وہ بنی اسرائیل کا نبی ہو گا اور نام اس کا طالوت ہو گا- تب حضرت نے اس کا قد اس لاٹھی سے ناپا تو برابر ہوا-

تب حضرت نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہیں بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کرے گا- اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ایک غلام ادنی ہوں اور ایک جانور کی قیمت ادا نہیں کر سکتا پھر میں بھلا کیونکر بادشاہ ہو سکتا ہوں- حضرت شموئیل نے فرمایا یہی حکم ہے اللہ کا میرے واسطے- بعد اس کے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللہ تعالی تم میں طالوت کو بادشاہ کرے گا- تب انہوں نے حضرت شموئیل سے کہا کہ بھلا اللہ تعالی اس کو ہمارے اوپر بادشاہ کیسے مقرر کر سکتا ہے- کیونکہ اس سے زیادہ حق تو ہمارا ہے بادشاہت میں کہ ہم میں سے کوئی بادشاہ بنے- کیونکہ اس کے پاس مال و دولت اور خزانوں کی زیادتی بھی نہیں ہے جو کہ ہمارے پاس ہے- اور یہ کہ اس سے ایک جانور گم ہو گیا جس کی قیمت ادا کرنے کی اسطاعت بھی اس کو نہیں سو یہ کس طرح ہمارا بادشاہ ہو گیا-

تب حضرت شموئیل نے فرمایا کہ بیشک اس کے پاس مال و دولت کی کشائش نہیں ہے لیکن اللہ تعالی نے اسے تمہارے لیے پسند کیا ہے بطور بادشاہ اور عطا کی ہے اسے کشائش علم میں اور بدن کی قوت اور طاقت میں- اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنا ملک عطا کرتا ہے اور اللہ گنجائش کرنے والا ہے اور سب جانتا ہے- اور بنی اسرائیل نے طالوت کو ایک غلام حقیر جان کر اس پر التفات نہ کیا اور کہنے لگے اے نبی اللہ اس کی بادشاہی کی کیا علامت ہے- اگر کوئی نشانی واضح اس کی بادشاہی کی مل جائے کہ واقعی بادشاہت کے قابل ہے تو ہم مانیں گے اور اس کے مطیع و فرمانروا ہونگے- تب حضرت شموئیل نے فرمایا کہ نشانی اس کی بادشاہی کی یہ ہے کہ تنہا جا کر دیار عمالقہ سے تابوت سکینہ تم کو لا دے گا۔

چنانچہ جب بنی اسرائیل نے طالوت کے بادشاہ ہونے کی نشانی مانگی تو حضرت شموئیل نے فرمایا کہ طالوت اکیلا عمالقہ سے تابوت سکینہ واپس لا دے گا- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "اور کہا ان کو ان کے نبی نے کہ نشانی اس کی سلطنت کی یہ ہے کہ لے آوے تمہارے پاس ایک صندوق جس میں دلجمعی ہے تمہارے رب کیطرف سے اور باقی وہ چیزیں جو چھوڑ گئے تھے موسی و ہارون کی اولاد اٹھا لاویں اس کو فرشتے اس میں نشانی ہے پوری اگر تم یقین رکھتے ہو تو-"

پس شموئیل نے طالوت کو اقبال مند دیکھ کر کہا تم بنی اسرائیل میں بادشاہ ہو گے- چنانچہ اب میدان کی طرف جاو تابوت سکینہ وہاں پاو گے- تب حضرت شموئیل کے فرمانے پر طالوت میدان کی طرف گئے اور دیکھا کہ تابوت سکینہ کو ایک رتھ پر دو بیلوں کی گردن پر ہانکتے فرشتے لیے آتے ہیں- طالوت جا کر اس رتھ پر بیٹھے اور بیلوں کو ہانکتے ہانکتے بنی اسرائیل کے گروہ میں لے آئے- اور بعض کہتے ہیں کہ فرشتے بحکم خدا رات کو تابوت سکینہ طالوت کے گھر پر پنہچا گئے-

بہرحال تابوت سکینہ بنی اسرائیل کو طالوت نے جب پنہچا دیا وہ دیکھ کر متعجب ہوئے اور ان کو بادشاہ اپنا بنایا اور مطیع و فرمانبردار ہوئے- بعد اس کے طالوت نے شکر خدا بجا لا کر بنی اسرائیل سے کہا چلو ہمارے ساتھ جہاد کو تاکہ جالوت اور اس کے لشکریوں سے جنگ کر کے اپنا مال و دولت اور املاک وغیرہ واپس لائیں اور اپنے ساتھیوں کو کہ جنہیں بندی بنا لیا گیا آزاد کروا کر لائیں- تب بنی اسرائیل والوں نے قبول کیا اور حضرت شموئیل نے ایک زرہ آہنی بنا کر  طالوت بادشاہ کو عنایت فرمائی اور فرمایا کہ یہ زرہ جس کے بدن پر راست آوے گی اس کے ہاتھ سے جالوت مارا جائے گا-

چنانچہ طالوت بادشاہ حضرت شموئیل سے رحصت ہو کر معہ غازیوں کے روانہ ہوئے- روایت میں آیا ہے کہ اسی ہزار آدمی تھے جو جالوت کیساتھ لڑنے کو گئے- مخبروں نے جا کر اسے خبر پنہچائی- یہ سنتے ہی وہ مردود بھی کمر ہمت باندھ کر اور لشکر نابکار جرار جو اس کا تھا لیکر مستعد بہ جنگ ہوا- اور ادھر بنی اسرائیل بھی ہمراہ طالوت کے کوچ کرتے ہوئے چلے جاتے تھے-  راستے میں طالوت نے ان سے کہا اللہ تمہیں آزمانے والا ہے- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "پس جدا ہوا طالوت فوجیں لیکر پھر کہا اللہ تم کو آزمانے والا ہے- ایک نہر ہے پس جس نے اس کا پانی پیا وہ میرا نہیں اور جس نے نہ پیا وہ میرا ہے مگر جو کوئی بھر لے ایک چلو پانی اپنے ہاتھ سے پھر پی گئے اس کا پانی مگر تھوڑے تھے جنہوں نے نہ پئیا-

الغرض طالوت بادشاہ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں آزمائے گا ایک پانی سے پس جو کوئی اس نہر سے پانی پیے گا وہ میرا نہیں ہو گا اور جو کوئی اجتناب کرے گا اس پانی سے سو ہمارا ہو گا- ہاں اگر کسی کو بہت زیادہ پیاس لگی ہو تو وہ اپنے ایک ہاتھ سے چلو بھر کر پی لے تو اس پر کوئی مضائقہ نہیں مگر زیادہ پینے کی اجازت نہیں ہے- چنانچہ بعد قطع منازل بیابان کے درمیان فلسطین کے وہ نہر ملی- پانی اس نہر کا انتہائی صاف شفاف مثل آبحیات ٹھنڈا اور شیریں نظر آ رہا تھا- پس لشکریوں نے جب وہ پانی دیکھا تو مارے پیاس کے باوجود حضرت طالوت کی ممانعت کے اس نہر سے پانی پی لیا مگر تھوڑے لوگوں نے بادشاہ کا کہا مانا اور پانی نہ پئیا یا پئیا بھی تو ایک ہاتھ سے چلو بھر کے گھونٹ بھر پانی پی لیا-

چنانچہ جنہوں نے پانی نہ پئیا انہوں نے دوسروں کو بھی اس پانی کے پینے سے منع کیا کہ بادشاہ نے اس پانی کو پینے سے منع کیا ہے اور ضرور اس میں کوئی بہتری ہو گی- باقی لوگوں نے کہا کہ ہم تو پیاس سے مرنے والے ہیں اور اس قدر شفاف اور ٹھنڈا پانی ہمارے سامنے ہے پس تم بیوقوف ہو جو بادشاہ کے کہنے میں آ کر پانی کو چھوڑے جاتے ہو پیاسا مرنے سے بہتر ہے پانی پی لیا جائے- تب جانوروں کی طرح نہر کے پانی میں منہ دھر کر خوب سیر ہو کر پانی پئیا تب ان پر اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا بسبب ان کی حکم عدولی کے- اور زیادہ پانی پی کر مزید پیاس اپنی بڑھائی- جس قدر زیادہ پانی پیتے جاتے اسی قدر زیادہ پیاس ان پر غالب آتی- تب طالوت بادشاہ نے ناچار ہو کر ان کو وہیں چھوڑا اور باقی لشکر کیساتھ آگے بڑھ گئے-

اور بعضوں نے روایت کی ہے کہ جنہوں نے بادشاہ کی حکم عدولی کی اور ممانعت کے باوجود پانی زیادہ پئیا اللہ تعالی نے ان پر پیاس کو غالب کر دیا- پھر جس قدر پانی پیتے پیاس بڑتی جاتی- اور پانی پیتے پیتے ان کی زبانیں باہر کو نکل پڑیں اور آنکھیں ابل کر باہر آ گریں اور پیٹ پھول گئے اور اسی حالت میں مر گئے- اور برعکس ان کے جنہوں نے بادشاہ کا حکم مانا اور پانی نہ پئیا یا پئیا بھی تو حکم کے موافق گھونٹ بھر پئیا وہ آرام سے رہے۔

چنانچہ جن لوگوں نے حکم کے موافق پانی نہ پئیا وہ آرام سے رہے- تفسیر میں لکھا ہے کل اسی ہزار آدمی طالوت بادشاہ کیساتھ گئے تھے اور ان میں سے محض تین سو تیرہ آدمی جالوت کیساتھ جنگ میں رہے باقی سب یا تو مارے لڑائی کے خوف کے بھاگ گئے یا نافرمانیوں کیوجہ سے اللہ کے عتاب کا شکار ہوئے- اور جنگ میں شریک ہونے والوں میں حضرت داود علیہ السلام اور ان کے بھائی بھی تھے-

راہ میں لشکر کیساتھ آتے وقت حضرت داود کو تین پتھر ملے- وہ پتھر بولے کہ ہم کو اٹھا لیجا جالوت نافرمان کو مارنے میں ہم تمہارے کام آئیں گے یا ہم ماریں گے- تب حضرت داود نے ان پتھروں کو اپنے ساتھ رکھا- چنانچہ جب طالوت کے لشکر کا جالوت سے سامنا ہوا تو کہنے لگے کہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں جبکہ جالوت کا لشکر کثیر ہے- ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے- ان میں سے جو لوگ کہ ایمان جن کے مضبوط تھے کہنے لگے اگرچہ ہم تھوڑے ہیں مگر خدا ہمارا مددگار ہے- پس غم نہ کرو اور ثابت قدم رہو بیشک فتح ہماری ہے- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "بہت جگہ جماعت تھوڑی غالب ہوئی جماعت کثیر پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کیساتھ ہے-

چنانچہ جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو لشکر طالوت نے اللہ سے دعا کی کہ الہی ڈال دے ہم میں جتنی مضبوطی ہے اور ٹھہرا ہمارے پاوں اور مدد کر ہماری اس کافر قوم پر- جالوت نے جب طالوت کے لشکر کی طرف دیکھا تو ان کی دلیری پر متعجب ہوا- اور اس کو شرم محسوس ہوئی کہ ہم لاکھ آدمی جری اور صاحب قوت و طاقت ہیں- ان تین سو تیرہ آدمی ضعیف کیساتھ ہم کو لڑنا کچھ جوانمردی نہیں ہے- تب طالوت کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ جو سپاہ تو لڑنے کو لایا ہے یہ قابل میرے لڑنے کے نہیں ہے- لہذا بہتر یہ ہے کہ خیال باطل چھوڑ دے اور میری اطاعت قبول کر تو میں تمہارے اور تمہارے لشکر کیساتھ نرمی والا معاملہ کروں گا- اور اگر تجھے اطاعت میری قبول نہیں تو میدان میں آ اور میرا سامنا کر-

تب طالوت نے حکم کیا اپنے لشکر میں کہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ جالوت مردود کا سر کاٹ کر جلدی لے آوے- اور جالوت کو یہ پیغام بھیجا کہ ہم اللہ کی راہ میں لڑنے کو آئے ہیں- تو مت گمان کر کہ لشکر تیرا کثیر ہے اور سپاہ میری قلیل ہے- پس جان لے کہ خدا میرا بزرگ و برتر ہے وہ مجھ کو ضرور غالب کر دے گا تجھ پر- اور ایسا بہت بار ہوا ہے اللہ کے فضل سے کہ جماعت تھوڑی غالب ہوئی جماعت کثیر پر اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے-

پس ناگاہ ایک لحظہ کے بعد ایک جوان شکل مہیب باحشمت تمام سلاح پوش گھوڑے پر سوار چوب نیزہ تلوار ہاتھ میں لیکر مخالف کے لشکرگاہ سے برصف کارزار آ کھڑا ہوا اور ایک نعرہ شیطانی مثل خر کے مارا اور کہا میں ہوں جالوت اور اکیلا ہی تم سب کے لیے کافی ہوں- پس جو تم میں صاحب ہمت و جوانمرد ہیں میرے سامنے آتے جاو-

چنانچہ اس بات کو سن کر طالوت نے اپنے لشکریوں سے کہا کہ تم سب میں کوئی ایسا ہے کہ اس مردود کا سر کاٹ کر لے آوے تو اس کو آدھی سلطنت عنایت کروں گا اور اپنی بیٹی اس سے بیاہ دوں گا- لیکن کسی بھی شخص نے جواب نہ دیا اور نہ ہی کوئی جالوت سے مقابلے پر جانے کو تیار ہوا- جب طالوت نے یہ حال دیکھا تو بددل ہوا اور کہا کہ اب جالوت ہم پر حملہ کرے گا اور سب کو مار ڈالے گا-

چنانچہ جب طالوت نے دیکھا کہ بنی اسرائیل میں کوئی شخص جالوت کے مقابلے پر جانے کو تیار نہیں ہو رہا تو خود چاہا کہ آگے بڑھ کر جالوت کا مقابلہ کرے- اس وقت ایک جوان قوت و طاقت والا سر پر خرد رکھ کر لباس حریر پہنے ہاتھ میں چوب لیے آگے آیا اور طالقت بادشاہ کو سلام کیا اور کہا کہ تم کچھ اندیشہ مت کرو- اور خاطر جمع رکھو- اللہ کے حکم سے میں جالوت سے لڑوں گا اور اگر اللہ نے چاہا تو اس کا مقابلہ کر کے اسے مار ڈالوں گا اور سر اس کا کاٹ کر لاوں گا-

طالوت اس جوان کی دلیری پر متعجب اور خوش ہوا اور پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے اور کس قبیلے سے ہو- اس جوان نے کہا میں اسرائیلی ہوں اور میرا نام داود ہے- اور میرے چھ بھائی اور بھی ہیں آپ کے لشکر میں اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور آپ کیساتھ کھڑے رہیں گے- طالوت نے اس سے پوچھا کہ اس پہلے بھی کبھی تم کسی جنگ میں شریک ہوئے ہو یا کسی سے لڑائی کی ہے- حضرت داود نے جواب دیا کہ اکثر سباع اور درندوں سے لڑا ہوں- تب دو بھائی حضرت داود کے جو طالوت کیساتھ جنگ میں شریک تھے آگے آئے اور طالوت بادشاہ سے کہا، اے حضرت ! داود کبھی کسی سے نہیں لڑا اور نہ ہی اس نے کبھی لڑائی دیکھی ہے اور وہ جو کہتا ہے حضور میں سب غلط ہے- اور جالوت مردود بڑا لڑنے والا ہے- اور جنگ آزمودہ ہے اس سے یہ کیونکر لڑے گا- اور وہ ضرور اسے نقصان پنہچائے گا- پس اسے رہنے دیں ہم اس کی جگہ جالوت سے مقابلہ کریں گے اور اسے مار گرائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔