الوداع شین وارن : اسپن گیند بازی کا موسیقارِ اعظم خاموش

صفدرا مام قادری

                ایک بار کسی صحافی نے عظیم شہنائی نواز استاد بسم اللہ خاں سے کھیل کود کے بارے میں اُن کی دل چسپیوں کو جاننے کے لیے یہ سوال کیا تھا کہ اُنھیں کون سا کھیل پسند ہے؟ بسم اللہ خاں نے اُسی مانوس نیم گمشدگی اور خواب ناکی میں جواب دیا : فٹ بال۔ صحافی نے پو چھا کہ فٹ بال آپ کو کیوں پسند ہے؟ مسکراتے ہوئے ناخدائے شہنائی نے جواب دیا: یہ کھیل بہت راگ سے کھیلا جاتا ہے۔ شین وارن کو گیند پھینکتے ہوئے اور وکٹ لیتے ہوئے میدان میں یا ٹیلی ویژن پر جس کسی نے بھی لائیو دیکھا ہو،اُسے اپنے آپ معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ گیند بازی نہیں تھی،سنگیت کی لہروں کی کوئی پیش کش تھی۔ تار پہ انگلی رکھیے اور ساز کے  بطن سے سُر پھوٹنے لگتا ہے۔ شین وارن کے داہنے ہاتھ اور اس کی انگلیوں میں موسیقار کی وہ روح پیوست تھی۔ بڑے غلام علی خاں لتا منگیشکر کے بارے میں اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں کہتے تھے کہ یہ کبھی غلطی سے بھی بے سُری نہیں ہوتی ہے۔ شین وارن وکٹ لے یا نہ لے مگر اُس کا  سُر اور اُس کا آہنگ وہی رہے گا۔ وزن و بحر میں کبھی کوئی گڑبڑی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

                باون برس تو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے۔ شین کی جو فٹ نس تھی، اِ س سے تو کوئی کہہ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ آخری سفر پر نکلنے کے لیے تیّار بیٹھا ہوا ہے۔ کرکٹ میں اُس کی کامیابیاں،  ناکامیاں،  تنازعات اور اُس کا کھلنڈراپن ؛ مخالفین کو رَوندنے کا ہنر،  پھبتیاں کسنے میں وہ کسی آسٹریلئن سے کمزور نہیں تھا۔ ذاتی زندگی میں بھی آئے دن وہ جھمیلے خریدتے رہا۔ موت بھی کچھ ایسے ہوئی کہ نہ وطن ہاتھ آیا اور نہ آئی۔ پی۔ ایل کے لیے ہندستان تک پہنچ پانے کی گنجائش پیدا ہو سکی۔ بے وطنی میں تھائی لینڈ کے ہوٹل کا کمرا آخری سانسوں کا گواہ بنامگر اُس کی شخصیت کے ہزاروں دشمن بھی اُس میں مقناطیسیت دیکھتے تھے۔ کوئی جادو تھا جو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ آسانی سے ہمیں یاد نہیں آتا کہ پندرہ سال پہلے جو کرکٹر ریٹائر ہو چکا ہو، وہ روزانہ کھیل کے شائقین کے درمیان موضوعِ بحث کیوں کر بنا ہوا ہوتا تھا۔ آپ اُس کی تنقید کر سکتے تھے مگر اُس سے محبت کرنے کے لیے مجبور تھے۔ دنیا بھر میں ایسے کرکٹر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گننے والے ہی ملیں گے۔

                آسٹریلیائی کرکٹ اپنی تیز گیند بازی کے لیے ہر دور میں شہرت رکھتی تھی۔ جس زمانے میں شین وارن مقابلہ جاتی کرکٹ کا حصّہ بنا، تھامسن اور ڈینس للی کی روایت تھی اور میک گرا اور بریٹ لی جیسے ساتھی سر گرمِ سفر تھے۔ اُس سے کوئی چار پانچ دہائیوں قبل آسٹریلیا میں رچی بینو جیسے ماہر اسپنر ہوا کرتے تھے۔ اِس درمیان اوور پورا کرنے کے لیے وہ ٹیم کچھ کام چلاؤ اسپنرز سے فائدہ اُٹھاتی تھی۔ ایک ساتھ پانچ پانچ تیز گیندباز میدانِ کار زار میں مخالفین کو پست کرنے کے لیے حملہ آور ہوتے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے سنہرے دنوں کے بعد آسٹریلیا نے ہی فاسٹ بالروں کی قطاریں لگا کر رفتار کی سوداگری کرکے کرکٹ کے میدان کو جنگی بیڑے میں تبدیل کر دیا تھا۔

                ایسے مشکل اور ناممکن ماحول میں 1992ء میں شین وارن آسٹریلیائی ٹیم کا حصّہ بنتاہے۔ آغازکا تو یہ حال ہے کہ ڈیڑھ سو سے زائد رن خرچ کرکے روی شاستری کا اُنھیں وکٹ میسّر آیا۔ ہندستان جیسا ملک ہو تو اگلے میچ میں اُنھیں ڈراپ کر دیا جاتا مگر آسٹریلیائی ٹیم نے اُنھیں بڑے میچوں کے لیے مشقّت کرنے کی خاطر تیّار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اگلے ہی برس ایشز کے دوران انگلینڈ کے عظیم بلّے باز مائک گیٹنگ کو جو اُنھوں نے گیند پھینکی اور بولڈ کیا،  اُس کا ویڈیو جس نے نہ دیکھا ہو، اُسے کیوں کر یقین آئے گا کہ کوئی گیند 180 ڈگری پر کیسے گھوم کر وکٹ چٹخا سکتی ہے۔ کرکٹ کے ماہرین نے اُسے صدی کی گیند یعنی ’بال آف دی سنچوری ‘قرار دیا۔ اُس کے بعد شین وارن نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کے پرستاروں کی کبھی دھڑکنیں تھمیں۔ وہ روز کھیل کے میدان پر ایسی کرامات اور کرشمہ سازیاں کرتے ہوئے پائے جاتے رہے۔ ایسا اکثر ہوتا کہ شین وارن کی بال کو بلّے باز دور سے دیکھ کر ڈک کرنے یا اپنے وکٹ کو بچانے کا تہیّہ کیے ہوئے کھڑے ہوئے ہیں مگر گیند رخصت ہوتے ہوئے تقریباً باہر پہنچ کر ایسے واپس آتی تھی جیسے بھولا ہوا رستہ اُسے یاد آ گیا ہو۔ بلّے باز مجبور اور بے بس وکٹ گنوانے کے لیے تیار۔

                شین وارن نے ایک معدوم ہوتے فن یعنی لیگ اسپن کو اپنے لیے منتخب کیا۔ اُن سے ٹھیک پہلے پاکستان کے عبد القادر اُس ڈھہتی ہوئی دیوار کے سائے میں ایک مختصر مدّت کے لیے اپنا وجود وقایم رکھنے میں کامیاب ہوئے تھی۔ آف اسپن کے جلوے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔ کھیل کے ماہرین رفتہ رفتہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہے تھے کہ لیگ اسپن گیند بازی کے فن کے رمز آشنا اب تاریخ کے دفینوں میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو چکے ہیں۔ گیند بازی کی تہذیب و ثقافت کے رکھوالے کے طور پر جب شین وارن دنیائے کرکٹ میں وارِد ہوئے تو اُن کے مخالف بلّے بازوں میں سچن تیندولکر اور برائن لارا، انضمام الحق اور محمد یوسف اور سنت جے سوریہ یا کمار سنگاکارا کا دور تھا۔ 1998ء کے ہندستانی دورے پر شین وارن نے کہا تھا کہ اُسے سچن تیندولکر کے ڈراونے خواب سونے نہیں دیتے۔ یہ محض شگوفے بازی نہیں تھی۔ اپنے عہد کے عظیم کریکیٹر اور بلّے باز کی تعظیم کا ایک طور تھا۔ وہ برائن لاراکو اپنے مقابِل لوگوں میں سب سے مشکل بلّے باز قرار دیتا تھا۔ اِن بلّے بازوں کو جب جب اُس نے آوٹ کیا، اُس کے چہرے پر فاتحِ عالَم ہونے کا اطمینان ہوتا تھا۔ شین وارن کو کرکٹر کی حیثیت سے اِس انداز نے اعتبار بخشا۔

                شین وارن بڑے میچوں کا فاتح تھا۔ دنیا میں ہزاروں کھلاڑی نظر آئیں گے جو روزانہ عمومی مقابلے جیتتے ہیں اور خاص مقابلے ہار جاتے ہیں۔ یہ درست کہ ہر روز مقابلے جیتے نہیں جا سکتے۔ ہندستان کے پچھلے کپتان وراٹ کوہلی پر اُن کے ناقدین یہ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ وہ بڑے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ شین وارن کے بارے میں اصلی پتے کی بات یہی ہے کہ جس دن اُس کی بدولت ٹیم کو جیتنا ہے، اُس دن اُس کی اُنگلیوں میں جادو کی چھڑی سما جاتی ہے اور وہ دو چار دس اووروں میں اپنے کپتان کو اعزاز دے کر رخصت ہو جاتا ہے۔ 1999 ء کا ورلڈ کپ کون بھولے گا جب کئی طرح کے تنازاعات میں پھنسے ہونے کی وجہ سے شین وارن ابتدائی میچ میں نہیں شامل کیے گئے مگر جیسے ہی ٹیم میں اُن کا داخلہ ہوا،سیمی فائنل کھیلتے ہوئے اُن کا فن اُن کے قدموں میں لوٹتا ہوا مخالف ٹیم کو تباہ و برباد کر گیا۔ اُنھیں ’مین آف دی میچ‘ کا اعزاز دیا گیا۔ پھر فائنل کا دن آیا اور بڑے میچوں کا یہ شہزادہ اچانک اپنے مخالفین پر ٹوٹ پڑتا ہے اور آسٹریلیا فاتحِ عالَم ہوتی ہے اور شین وارن ’مین آف دی میچ ‘قرار دیے جاتے ہیں۔

                شین وارن کی وکٹ بے جان اور سوکھے ہوئے پچوں پر نہیں ہیں۔ اُس نے فاسٹ بالروں کی معاونت کے لیے بنائی گئی پچوں پر اپنی کلائی کا جادو دِکھایا۔ ایشز کی ڈیڑھ سو برس کی تاریخ میں 195 وکٹ تنہا کسی ایک کھلاڑی نے لیا تو وہ شین وارن ہی ہے۔ یہ سب کے سب تیز اور ہری گھاس کی چراگاہ تھے۔ ایک کلینڈر سال میں 96 وکٹ۲۰۰۵ء میں شین وارن نے ہی لیے تھے۔ 2؍جنوری 2007 ء کو انگلینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے جب اُس نے کرکٹ کو الودع کہا تو یہ سچائی سب جانتے تھے کہ اُس میں ابھی کھیلنے کے سارے امکانات موجود تھے۔

                اگلے برس 2008ء میں ائی۔ پی۔ ایل کا پہلا سال تھا۔ شین وارن راجستھان رائلس میں کوچ اور کپتان بن کر میدان میں اُترا۔ سچن تیندولکر، راہل دراوڑ، مہندر سنگھ دھونی، ویریندر سہواگ، ایڈم گل کرسٹ اور نہ جانے کیسے کیسے کھلاڑیوں کا ایک نئے فارمٹ میں نقطۂ آغاز تھا۔ شین وارن اپنی تمام عظمتوں کے باوجود آسٹریلیا کے کبھی کپتان نہیں بن سکے تھے۔ دنیا نے دیکھا کہ اپنی کوچنگ، کھیل کی صلاحیت، کپتانی اور پوری ٹیم میں پرفارمنگ جوش بھر دینے کی صلاحیت نے آئی۔ پی۔ ایل کا پہلا خطاب شین وارن کے قدموں میں لا کر رکھ دیا۔ اُس کے بعد سے محدود سطح پر کوچنگ اور کمینٹری کرتے ہوئے شین وارن نظر آتے رہے۔ 2020ء میں وبائی ہنگامہ خیزی اور افرا تفری کے دوران دوبئی میں نو خیز اسپنروں کی تربیت کرتے ہوئے وہ اُسی جوش اور جذبے سے میدان میں نظر آئے۔ رپورٹوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آئی۔ پی۔ ایل 2022 ء میں شامل ہونے کے سلسلے سے ہی وہ آسٹریلیا سے نکلے تھے مگر موت کے پنجے نے اُنھیں بے وجہ گھسیٹ لیا۔

                آئی۔ سی۔ سی  نے سو برس کے گیند بازوں کی کار کردگی کے مطابق پانچ’ آل ٹائم گریٹ‘ گیند باز چننے کا فیصلہ کیا تو اُس میں شین وارن کی شمولیت لازم تھی۔ شین وارن نے کمزور ٹیموں کے آخر کے بلّے بازوں کے وکٹ اپنی جھولی میں نہیں بھرے۔ کرکٹ کے رکارڈ بک میں ایسے بہت سارے مشہور کردار ہیں۔ اُس نے شیر کی طرح بڑے بلّے بازوں کو اور معرکے سر کرنے والے لوگوں کو زیر کیا۔ وہ بہادر تھا اور جیسی بہادری پندرہ برس میدانوں پر دکھاتا رہا، اُسی طرح نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوا اور نہ کہیں گڑگڑانے کی ضرورت پڑی۔ خدا نے اُسی شان سے اُسے اُٹھا لیا۔

تبصرے بند ہیں۔