کرکٹ : صرف کھیل تماشا یا کچھ اور بھی؟

عبدالرشیدطلحہ نعمانی

دور حاضر میں کھیل کود معاشرے کا ایک اہم جز بن چکاہے، جسے اب صرف کھیل کود نہیں؛ بلکہ  ایک مستقل فن کی حیثیت حاصل  ہے۔ آج ہمارے ماحول میں قسم قسم کے کھیل رائج ہیں جسے لوگ سیر و تفریح اور دلچسپی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کھیل کود کو اپنا نصب العین اور مقصد زندگی بنالیا ہے ؛مگر بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ  ہم اس  بات پرسنجیدگی کےساتھ غورکریں کہ اسلام میں کھیل کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے جواز کے کیا اصول ہیں؟ کس قسم کا کھیل اسلام میں جائز ہے اور کون کون سے کھیل ناجائز ہیں؟ کیونکہ انسانی زندگی کا اصل مقصد اطاعت خداوندی ہے، اللہ رب العزت نے انسان کو زمین پر خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے بھیجا،اسے اس زمین کی اصلاح کا حکم دیا اور اس کے لئے قواعد و ضوابط متعین کیے، نیز اس کائنات میں اپنے فرامین واحکام کے نفاذ کا اسے ذمہ دا ربنایا۔

 ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’ پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں حالات کی درستگی کے بعداپنا نائب بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیا عمل کرتے ہو‘‘؟(یونس)ساتھ ہی ساتھ اس بات کی تلقین بھی فرمائی کہ زمین میں فتنہ و فساد برپا مت کرو!(الاعراف)زمین پر فساد وبگاڑ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس یا دوسروں کی اطاعت شروع کردے، اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی راہِ ہدایت کو چھوڑکر ایسے اصول و قوانین کو اپنائے جو کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’ دنیاشیریں ہے، (جو زبان کو اچھی لگتی ہے) اور سرسبز و شاداب ہے (جو نظر کو بھاتی ہے) اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں جانشیں بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ لہٰذا دنیا کے قریب ہونے سے ڈرو اور عورتوں کے فتنے سے بچتے رہو‘‘(صحیح مسلم)، لہٰذا ہر وہ کام جو دنیا میں فساد ( اور سب سے بڑا فساد شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے) کا باعث اور عبادت الٰہی میں حائل ہو وہ اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ فساد بگاڑ پیدا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ہر وہ کام جو اللہ تعالی کے ذکر میں داخل نہیں ہے وہ کھیل تماشہ یا بھول ہے، سوائے چار کام کے، اپنا گھوڑا سدھانا، اپنے ا ہل و عیال سے دل لگی کرنا، دو نشانوں کے درمیان چلنا، تیراکی سیکھنا۔ (سنن النسائی الکبریٰ) نیز فرمایا:’’ مقابلہ جائز نہیں ہے؛ مگر صرف تین چیزوں میں، اونٹ دوڑ، گھوڑ دوڑ اور تیر اندازی‘‘۔ (سنن ابو داؤد)

جائز وناجائزکھیلوں کے تعلق سے اصولی طور پر حکم معلوم کرنے کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کا یہ فتویٰ ہم سب کے لئے چشم کشا ہے،جسے ملحوظ خاطر رکھنا ازبس ضروری ہے،مفتی صاحب ؒارقام فرماتے ہیں:

(الف) وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی معتد بہا فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی (عدم جواز کی) حدیث کا مصداق ہے۔

(ب) جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو، وہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع ملا ہوا نہ ہو اور من جملہ امور خلاف شرع، تشبہ بالکفار(کفار کی نقالی) بھی ہے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ گیند کا کھیل، خواہ کرکٹ وغیرہ ہو، یا دوسرے دیسی کھیل، فی نفسہ جائز ہیں، کیوں کہ ان سے تفریح طبع او رورزش وتقویت ہوتی ہے، جو دنیوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی، لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہ بالکفار نہ ہو، نہ ہی لباس کے طرز میں انگریزیت ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوں، نہ اپنے نہ دوسروں کے او رنہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریاتِ اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے، اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ، ٹینس وغیرہ کھیل سکتا ہے، تو اس کے لیے جائز ہے، ورنہ نہیں، آج کل چوں کہ عموماً یہ شرائط موجودہ کھیل میں نہیں ہیں، اس لیے ناجائز کہا جاتا ہے ( امداد المفتیین جدید1002,1001)

غورکیاجائے تو آج عالمی سطح پر کھیلےجانے والےتمام کھیل، صرف کھیل نہیں ؛بلکہ  ایک وسیع کاروبار ہیں جسے حلت وحرمت، سود ورشوت، قمار وجوےکےامتیاز کے بغیربےدریغ کھیلاجارہاہے، آج بہت سے لوگوں کا مشغلہ ہی کھیل اور کھلاڑی ہیں ؛حتی کہ مسلمان جوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی ہر ذمہ داری بھول کر کھیل اور کھلاڑیوں میں دلچسپی لے رہا ہے اوریہ وبا صرف اورصرف مردوں تک نہیں ؛بلکہ خواتین وبوڑھوں تک عام ہوچکی ہے۔

کرکٹ کا پس منظر :

انگریزوں کے ناپاک قدم جب ہندوستان پرپڑےتو انہوں نے مشرقی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے،بہ طور خاص کرکٹ بھی اپنے  ساتھ لائے؛مگر یہ کھیل ان کی توقع کے مطابق مطلوبہ مقام حاصل نہ کرسکا،جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ کھیل،کثیر صرفہ کا متقاضی  تھااور دوسری وجہ یہ تھی کہ  اسے کھیلنےکے لیے کافی وقت بھی درکار تھا۔ چناں چہ انہی اعدائے اسلام کے اشارہ پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس کھیل کو فروغ دینا شروع کیا،چوں کہ ہرکمپنی اپنے مصنوعات کا فروغ چاہتی تھی،اس لیے انہیں  کوئی ایسی مشتہر چیز چاہئے تھی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لمبے زمانہ تک اپنی طرف متوجہ رکھ سکے، کرکٹ میں وہ تما م باتیں موجود تھیں،اس غرض سے کرکٹ کو شہروں شہروں، گلیوں گلیوں اور گھروں گھروں تک پہنچانے کے لئے میدان (اسٹیڈیم) بنوائےگئے، مختلف انعامی اسکیموں کے لالچ میں لوگوں کی توجہ اس کھیل کی طرف مبذول کرائی گئی، کھلاڑیوں پر مال وزر کے دہانے کھول دیئےگئے،ہزاروں، لاکھوں ڈالروں میں ان کو نہلادیاگیا۔ پھر کیا تھا کرکٹ کا جنون ان پر مسلط ہوگیا، یوں دیکھتے دیکھتے ایک قلیل مدت میں کرکٹ عالمی کھیل بن گیا۔

کرکٹ کے مضر اثرات، ماحول ومعاشرہ کو کس طرح ناکارہ کرتے ہیں اور ملک ووطن کے سرمایہ دارانہ نظام پر کتنا بر اثرڈالتے ہیں اس کی سرسری رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکیم محمد ادریس حبان رحیمی فرماتے ہیں  کہ:

کرکٹ پر اسی(۸۰) ارب ڈالر سالانہ خر چ ہوتے ہیں، ٹی، وی، چینلز پر سال بھر میں بارہ لاکھ گھنٹے یہ کھیل دکھایا جاتا ہے، اس وقت دنیا کے سترہ کروڑ لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، دنیا میں کرکٹ انڈسٹری کی مالیت گندم کے بجٹ کے برابر ہے، ایک انداز ے کے مطابق ایک ورلڈ کپ پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اگر وہ مریضوں پر خرچ کی جائے تو دنیا کے تمام مریضوں کو ڈاکٹر، نرس اور دوائیں مفت مل سکتی ہیں ایک ورلڈ کپ کے خر چ سے پوری دنیا میں اسکول کھولے جاسکتے ہیں، صحرائے عرب کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے چار ورلڈکپ کے دوران جتنی رقم مشروبات، برگروں اور ہوٹلوں پر خرچ کی جاتی ہے اس رقم سے چالیس کینسر کے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں، دنیا کے ایک تہائی بھوکوں کو خوراک دی جاسکتی ہے، پاکستان جیسے چار ملکوں کو قرضے سے پاک کیاجاسکتا ہے، ورلڈ کپ میں جتنی بجلی خرچ ہوتی ہے وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین جیسے ملک کی چھ ماہ کی برقی ضرورت پوری کرسکتی ہے، ورلڈ کپ پر جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے اتنا تیس ملک مل کر پورے سال پیدا نہیں کرتے، ورلڈکپ کے موقع پر جتنی شراب پی جاتی ہے وہ پورا برطانیہ مل کر پورے سال نہیں پیتا، اس پر جتنا عام شہریوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر آدھی دنیا پورا مہینہ چھٹی کرے تو بھی اتنا ضائع نہیں ہوگا۔ (ملخص از گناہوں کے انبار)

کرکٹ کے دینی و دنیوی نقصانات :

کرکٹ جس کا جنون اس حد تک بڑھ چکاہے کہ نوجوانوں کی غالب اکثریت اپنی زندگی کے قیمتی اوقات اوراصل سرمایہ اسی میں ضائع کرتی جارہی ہے،انہیں سود وزیاں کا کوئی احساس نہیں، نفع  ونقصان کا کوئی شعور نہیں،روشن مستقبل کےلیے کوئی تیاری نہیں۔ کچھ افراد ریڈیو پر کمنٹری سننے میں مصروف ہیں، کچھ اپنے موبائل پر کرکٹ اسکور کاایس ایم ایس جاری کرنے میں لگے ہوئےہیں، اور بعض تو ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ دیکھنے کوبڑا کارنامہ سمجھ رہے ہیں؛حالاں کہ یہ بے شمار مُنکَرات ومفاسد اور برائیوں پر مشتمل ہے، مثلاً؛(1)نیم عُریاں عورتوں کا اسکرین پر دکھائی دینا۔ (2) اُس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز باجماعت کا فوت یا قضا ہوجانا۔ (3) ملازمین کے فرائض وواجبات میں کوتاہی وخلل کا واقع ہونا۔ (4) مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبا واسٹوڈینٹس کی تعلیم کا متأثر ہونا۔ (5) نیز مدارس ومساجد جو پڑھنے لکھنے اور عبادت کی جگہیں ہیں، اُن میں اِسی عنوان پر گُفت وشُنید، بحث ومُباحَثہ اور تذکِرہ وتبصِرہ کا ہونا۔ (6) کھیل کے دنوں میں سرکاری ونیم سرکاری، شخصی ونجی اداروں کا معَطَّل ہوکر رہ جانا،وغیرہ، یہ سب ناجائز اُمور ہیں۔ اور ہر ایسا کھیل کھیلنا ودیکھنا، جو انسان کو اُس پر واجب حقوق( خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد) سے غافل کردے، یا منکرات ومنہیاتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں، ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، شریعتِ اسلامیہ اپنے ماننے والوں کو اس طرح کاکھیل کھیلنے ودیکھنے سے منع کرتی ہے۔ لہٰذا کرکٹ کھیلنا، کھلانا، میدان یا ٹی وی پر دیکھنا دکھانا، اسی طرح ریڈیو پر اس کی کمنٹری سننا سنانا، موبائل پر کرکٹ اسکور کا ایس ایم ایس منگوانا، اور اس پر بحث ومباحثہ کرنا، یہ سب معصیت اورگناہ کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرنا، اور زندگی کے قیمتی اوقات کو ضائع کرنا ہے، اور یہ دونوں چیزیں شرعاً حرام ہیں۔ ( المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة)

آئی پی ایل میچ کی تباہی :

کرکٹ کے عام میچ ہی مذکورہ بالا معاصی کےعلاوہ جوے اور سٹے کو فروغ دینے کے لئے کیا کم تھے کہ آئی پی ایل نے  بڑے پیمانے پر قماربازی کی سطح میں کئی گنا اضافہ کردیا، ہردن مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ خبریں پڑھنے اور سننےکو ملتی رہتی ہیں کہ سٹے بازی کے جرم میں فلاں کو گرفتار کیاگیا، فلاں پر جرمانہ عائدکیاگیا، فلاں مقام پر دھاوا بولاگیا۔ وغیرہ

نہایت افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد بھی اسی کبیرہ گناہ کی مرتکب  اور اس ناجائز عمل کی شوقین نظر آرہی ہے؛ جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے: اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟(سورۂ المائدۃ)

اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے دوست سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں تومحض یہ کہنے کی وجہ سے وہ صدقہ کرے۔ ‘‘ (صحیح بخاری)

درحقیقت جوا، اس مذموم خواہش اور لالچ کا نام ہے کہ بغیر محنت کیے دوسرے کا مال ہتھیا لیا جائے۔ اول اول توجوئے کے تمام شرکاءاپنی مرضی و اختیار سے اس میں حصہ لیتے ہیں،اس میں حصہ لینے والا کوئی بھی شخص اپنا مال ہارنے کی خواہش و ارادے سے حصہ نہیں لیتا ؛بل کہ ہر شخص کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ جیت جائےاوردوسرے کا مال ہتھیالے۔ یونہی کھیل ہی کھیل میں جو لوگ اپنا مال ہار جاتے ہیں وہ دل سے اسے قبول نہیں کرتے اور جیتنے والے کے خلاف ان کے دل میں شدید نفرت و عدوات پیدا ہو جاتی ہے؛ اسی لیے جو ا کھیلنے والا آخرمیں اکثر لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد پر اتر آتے ہیں، قتل و غارت  تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے، جوا کھلانے کے منتظم اکثر و بیشتر بد دیانتی اور ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں اور اکثر صرف وہی جیتتے ہیں اور جوا کھیلنے والے سب ہارجاتے ہیں ؛ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان رنجش اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ جوئے باز،مال و متاع کی محبت اور ہوس میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کامزاج، حرص، لالچ، نکمے پن اور بے کار رہنے کا بن جاتا ہےمزیدبرآں ایسے شخص کا دل ذکر الہی اور نماز کی طرف مائل نہیں ہوتا،اس کے دل میں اﷲ کی یاد کے بجائے مال ہارنے کا پچھتاوا اور آئندہ دوسروں کا مال جیتنے کی آرزو کا بسیرا ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ کچھ نقصانات تو ایسے ہیں کہ جن کاموازنہ مال و دولت سے کیا ہی نہیں جا سکتا جیسے پاک نسلوں کی تباہی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، احساسات کی موت، گھروں کی تباہی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبانِ فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا فقدان، یہ وہ نقصانات ہیں جن کی تلافی روپے پیسے سے کسی صورت ممکن ہی نہیں۔

 دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری انسانیت کو عقلِ سلیم اور فہم مستقیم عطا فرمائے اور اعتدال کے ساتھ زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔