ایک دنیا کی دنیا جگر کی مریض تھی

محمد صابر حسین ندوی

مرے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا

 کیا مجھے اے جگر مبارک! یہ شکست فاتحانہ

جگر مراد آبادی اپنے عہد کے ایک عظیم و نامور شاعر تھے، اصل نام علی سکندر اور تخلص جگر مراد آبادی تھے،اتر پردیش کے شہر مراداباد میں ۶؍اپریل ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے،اور آپ کی وفات ۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء گونڈا میں ہوئی،جگر صاحب کے متعلق حق ہے کہ یہ کہا جائے غالب و مومن کے بعد وہ روایتی غزل گوئی جس کی بنیاد فارسی تغزل، نزاکت خیال اور معاملہ بندی پر پڑی تھی، وہ حسرت و جگر پر ختم ہوگئی، اور ان میں سب سے آخر جگر ہی رہ گئے تھے، جو اس تحتی بر اعظم کے ادبی حلقوں کے ملک الشعرائی کا حق رکھتے تھے، ہندوستان و پاکستان کے مشاعرے ان کی شرکت کے بغیر معتبر نہیں سمجھے جاتے تھے، اور لکھنوء تو ان کے نام سے بخوبی واقف تھا، بلکہ ان کے نام کا شور و غوغا تھا، ان کی شاعری و خوش نوائی کی دھوم مچی ہوئی تھی، اسی لئے تو شوکت تھانوی کا یہ بلیغ اور معنی خیز جملہ مشہور ہے ’’ ایک دنیا کی دنیا جگر کی مریض تھی‘‘۔ لیکن افسوس کہ ایسے بھلے آدمی کو مے نوشی کی لت کہاں سے پڑ گئی تھی، یہ کہنا مشکل ہے، لیکن دل و جگر کی کشمکش ان کی زندگی میں ہمیشہ جاری رہی، جگر پر بار بار اور سخت حملے ہوئے، سوزش جگر نے ہمیشہ اپنی تسکین کا سامان مانگا اور سید انشاء کی زبان سے ہمیشہ کہا:

لگا کے برف میں ساقی صراحی مے لا

 جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شے لا

 ان سب کے درمیان ان کے دل نے پاسبانی نہ چھوڑی، یہ غالبا ان کے شریف النسب اور فطرت اصلی کی خوبی تھی، اور یہ کہ وہ جوانی میں حضرت اصغر گونڈوی کی تحریک سے قاضی عبد الغنی صاحب منگلوری سے بیعت ہوگئے تھے، جن کا سلسلہ حضرت مہاجر امداد اللہ مکی رحمہ اللہ سے جا ملتا تھا، اس تعلق نے اثر کئے بغیر نہ چھوڑا، بالآخر اس نے جگر صاحب کو بزم خرابات سے نکال کر اہل دل کی صف میں بٹھا دیا اور اس چیز کو جس کے متعلق کسی کہنے والے نے کہا ہے، ہمیشہ کیلئے چھڑا دیا:

اے ذوق دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

مولانا عبد الباری ندوی رحمہ اللہ حضرت جگر کی اس کشمکش سے واقف تھے، اور کسی موقع پر کہا تھا کہ ’’جگر کا جگر خراب ہے ؛لیکن دل اچھا ہے، شاید اسی بنا پر آپ کو کہنے کا حق تھا :

منہ سے لگا ہوا ہے اگر جام مے تو کیا 

 ہے دل سے یاد ساقی کوثر لگی ہوئی

دل وباطل کی جنگ میں ہمیشہ حق کو ہی غلبہ رہتا ہے، اسی کا پرچم لہراتا ہے،چنانچہ پھر وہ وقت جلد ہی آگیا، جب وہ اپنے یاران کہن اور خاص طور پر اپنے پرانے دوست جوش ملیح آبادی سے یہ کہنے کے قابل ہوئے:

تو بہت پہلے جہاں تھا وہیں ہے اب بھی

دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہونچے

اب وہ جو جوش و حرارت بادہ انگوری سے حاصل کرتے تھے، اب وہ حرارت و جوش پیمانہ دل اور میخانہ وطن سے حاصل کرنے لگے، ان کا کلام اور نمکین، پرزور اور نشاط انگیز و ولولہ انگیز ہوگیا تھا،وہ میکدہ دل سے جام بھر بھر کر انڈیلتے تھے، اور عشق الہی میں ہر کسی کو سرشار کئے جاتے تھے،ان کا سوزدروں ہی زمانے کا غم بانٹتا تھا، اور حرف و قلم کی روشنائی میں بھگو کر دنیا کو جگا تا تھا، عالم و صوفی اور درویش ہر ایک نے ان کی قدر کی اور ان کے کلام عشق سے فائدہ اٹھایا، جس کا اندازہ ’’شعلہ طور‘‘ اور’’آتش گل‘‘کے موازنہ سے لگایا جاسکتا ہے۔

جائیے کس واسطے اے درد میخانہ کے بیچ

کچھ عجب مستی یے، اپنے دل کے پیمانے کے بیچ

جگر صاحب کی ایک بہت بڑی خاصیت یہ تھی کہ ان کی تلخ نوائی اور آشفتہ بیانی بھی گوارا کر لی جاتی تھی، جس وقت بے اطمینانی و مایوسی کا صاف اظہار اور آزادی کے چشمہ رواں کے سراب ہونے کا اعلان جرم سمجھا جاتا تھا، اس وقت نہ صرف آپ اپنی بات کہہ جاتے تھے؛ بلکہ آپ تو داد بھی وصول کر لیا کرتے تھے، ذرا ان اشعار کو دیکھئے!

چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں

کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے

یہ میکدہ کی، یہ ساقی گری کی ہے توہین

 کوئی ہو جام بکف کوئی شرمسار آئے

خلوص و ہمت اہل چمن پہ ہے موقوف 

 کہ شاخ خشک بھی پھر سے برگ و بار آئے

دراصل یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے کہ اگر ایک شاعر ان حدود سے تجاوز کرے، اور اشارے و کنایہ کا پردہ اٹھا کر صاف صاف کہنے لگے تو پھر وہ شاعر نہیں؛ بلکہ واعظ و محتسب اور سیاسی رہنما بن جاتا ہے، اس لئے اس سے زیادہ صراحت اور بلند آہنگی، ایک شاعر کو زیب نہیں دیتی اور جگر صاحب ادب وشاعری کے اندر حدود و آداب سے خوب واقف؛ بلکہ اس راہ کے استاد تھے، یہ اشعار دیکھئے!

با ہمہ ذوق آگہی ہائے رہے پستی بشر

 سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر

شورش درد الاماں، گردش دہر الحذر

بہکے ہوئے سے قافلے سہمی ہوئی سی رہگزر 

حضرت جگر مرادآبادی کی انہی سوزشوں کو علمائے ربانیین نے خوب سراہا ہے، بالخصوص اس سلسلہ میں سیدی ابوحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ذکر ناگزیر ہے،جو کہ آپ کیلئے سند عالی کی حیثیت رکھتا ہے،مفکر اسلام حضرت مولانا سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جناب جگر مرادابادی مرحوم سے بڑا گہرا و جذباتی تعلق رکھتے تھے، بلکہ دونوں صاحبان کے دل کی تپش یکساں تھی، جگر صاحب جب بھی لکھنوء تشریف لاتے، تو وہ خود مولانا کے پاس حاضر ہوتے اور اپنے منتخب اشعار سناتے، مولانا اپنی پسندیدہ نظم و غزل کا مطالبہ بھی کرتے تھے؛ جسے وہ بنا کسی ناز بردار کئے پیش کرتے تھے، کہتے ہیں کہ ایک شاعر کو اپنا ہر کلام ایسا ہی عزیز ہوتا ہے؛ جیسے باپ کو اپنی اولاد، جس میں ایک دوسرے کو ترجیح دینا تعلق اور جذبہ فطری کی توہین ہے، لیکن جگر صاحب کا معاملہ حضرت مولانا کے ساتھ بہت مخلصانہ تھا، اس سلسلہ میں وہ غایت درجہ ایثار اور بے نفس ثابت ہوئے تھے، حضرت مولانا اور جگر صاحب کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی، اور کئی مواقع پر ہوئی جن کا مطالعہ یہ بتلاتا ہے؛ کہ یہ دونوں صاحبان حب فی اللہ کے مصداق تھے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو اگرچہ جگر صاحب کی شہرت تھی اور خاص طور پر اودھ میں دھوم دھام تھی؛ تب بھی صرف چارلوگ لکھنوء سے گونڈہ نماز جنازہ میں شرکت کیلئے پہونچے تھے، جن میں حضرت مولانا بھی شریک تھے۔

 یہ تعلق ہی کی بات ہے کہ حضرت مولانا نے جگر صاحب کے اشعار کو تحریر و تقریر میں خوب استعمال کیا ہے، آپ مرحوم ’’آتش گل‘‘ کے یہ دو شعر بہت پسند کیا کر تے تھے:

آتا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کی توڑ کے آ

اے ہوش و خرد کے دیوانے، یاں ہوش و خرد کا کام نہیں

دوسرا شعر یہ ہے۔

پینے کو تو سب پیتے ہیں جگر میخانہ فطرت میں لیکن

 محروم نگاہ ساقی ہے، وہ رند جو دور آشام نہیں

مولانا کی دوسری پسندیدہ غزل چھوٹی بحر میں ہے، لیکن اس میں غضب کی شوخی اور روانی ہے:

کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن

  لاکھ بلائیں ایک نشیمن

اس کے یہ دو شعر تو ضرور سنیے!

کامل رہبر قاتل رہزن 

  دل سا دوست نہ دل سا دشمن

عشق ہے پیارے کھیل نہیں

   عشق کارے شیشہ و آہن

تیسری غزل ایسی ہے کہ جو شاعری کے دائرہ سے نکل کر تاریخ و فلسفہ حیات کو چھوتے اور چشمک کرتے ہیں، جس کا مطلع یہ ہے:

وہ سبز ننگ چمن ہے، جو لہلہا نہ سکے

 وہ گل ہے زخم بہاراں جو مسکرا نہ سکے

اسی غزل کا وہ شعر جو مقام انسانیت اور امکانات و مضمرات سے لبریز ہے، جسے آپ نے اجتماعات میں اور عام و خاص محفل میں بھی موضوع سخن بنایا ہے:

گھٹے اگر تو بس اک مشت خاک ہے ورنہ

 بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے

جگر صاحب کو پسند کرنے اور ان کے کلام کی مٹھاس و تعلق کا تذکرہ خود حضرت مولانا نے ان الفاظ میں کیا ہے، آپ کہتے ہیں: ’’جگر صاحب کے یہاں وہ جنس ملی جو عام شعراء کے یہاں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے، وہ صرف اقبال کے یہاں ملتی تھی، یعنی خیالات کی جدت، فکر کی بلندی، طبیعت کی خودداری اور عزت نفس، رسم و آئین کہن سے انحراف، خواہ وہ معاشرت کا، خواہ شعر و ادب کا جس کو بے آزار بغاوت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں، بے لوثی اور بے غرضی، گہری شرافت اور انسانیت بلندی، ناآسودہ تمنا اور لامحدود طلب، اب وہ غزل سنتے چلئے جو فرمائش پر جگر صاحب نے بار بار سنائی، اور وقت بھی ان کا نغمہ آہنگ حوالے انہیں نے شروع کیا تھا، اور انہیں کے ساتھ چلا اور جو ان کے کلام کی گہرائی اور روح کی بے چینی کے ساتھ بہت ہم آہنگ تھا، کانوں میں گونج رہا یے، اس غزل میں ان کے اخلاق کی سچی تصویر اور ان کی طبیعت کی خودداری اور ارجمندی بھی شراب کی طرح کھنچ کر آگئی ہے‘‘:

جب تک کہ غم انسان سے جگر انسان کا دل معمور نہیں

جنت ہی سہی دنیا لیکن جنت سے جہنم دور نہیں

 (دیکھئے: پرانے چراغ: ۱۸۹/۱)

تبصرے بند ہیں۔