اپریل فول

مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ

ابھی اپریل کی پہلی تاریخ آنے کو ہے، اس تاریخ کے آتے ہی بہت سے لوگ اپریل فول منانے کی سونچ میں پڑجاتے ہیں، اور کچھ ایسی چھوٹی باتیں بولنے یا کوئی ایسی چھوٹی خبر کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں جو سننے والوں کو حیرت واستعجاب میں ڈال دے اور کچھ لمحہ کے لئے سننے والوں کو حواس باختہ کردے۔

 اس دن جھوٹ بولنے اور جھوٹ کے ذریعہ لوگوں سے ہنسی مذاق کا سلسلہ ایک قدیم سلسلہ ہے، محققین کے بقول اس کی ابتداء فرانس میں ۱۵۶۴ ؁ء کے بعد اس طرح ہوئی کہ  ۲۱؍مارچ سے  ۱؍ اپریل تک ان کے تہوار کا سلسلہ ہوتا ہے اور اپریل کی پہلی تاریخ کووہ  ہدایا اور تحائف ایک دوسرے کو دیا کرتے ہیں، اور ہنسی مذاق کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اس دن جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔

جبکہ بعض محققین کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی عیسوی میں اسپین اور جرمن میں اس کا رواج ہوا، کیونکہ اسپین میں پہلی اپریل کو مذہبی اعتبار سے ایک مقدس دین سمجھا کاجاتا ہے، اور جرمن میں ۱؍اپریل کو جرمنی قائد ’’بسمارک ‘‘ کا برتھ ڈے منایا جاتا ہے، اس لئے ان دونوں جگہوں پر اس دن ہنسی مذاق کی خاطر جھوٹ بولنا یا کوئی جھوٹی خبر عام کرنا درست سمجھا جاتا ہے اور اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : www.wikipedia.org )

بہر حال اس کا تاریخی پس منظر جو بھی ہو، یہ غیر مسلموں کی عید کا ایک حصہ اور ان کے مراسم میں ہے، جسے اختیار کرنے کی مسلمانوں کو اجازت نہیں ہے ؛ کیونکہ مسلمانوں کی عیدیں اور ان کے اعمال شریعت میں متعین ہیں، شریعت اسلامیہ میں مسلمانوں کے لئے  ہفتہ میں ایک عید : جمعہ اورسال میں دوعیدیں: عید الفطر اور عید الاضحی متعین ہیں اور ان دِنوں کے اعمال بھی متعین ہیں، ان عیدوں کے علاوہ کسی اور دن کو عید قرار دینا درحقیقت شریعت میں تبدیلی اور بدعت ہے، اس لئے غیر مسلموں کے ان غلط طریقوں کو اختیار کرنا اور ان کے تہواروں کے مراسم کو انجام دینا مسلمانوں کے ہرگز جائز نہیں ہے۔

مزید یہ کہ اپریل فول کی بنیاد جھوٹ پر ہے، جبکہ اسلام نے جھوٹ کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ ہنسی مذاق ہی کی نیت سے کیوں نہ ہو۔کذب کی حرمت اور اس کے برے انجام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے :

ایاکم والکذب فان الکذب یہدی الی الفجور وان الفجور یہدی الی النار ( ابوداؤد : ۴۳۳۷، بخاری : ۵۶۲۹ )

’’تم جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائیوں تک پہونچاتا ہے اور برائیاں جہنم میں پہونچاتی ہیں‘‘

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

اذا کذب العبد تباعد عنہ الملائکۃ میلا من نتن ماجاء بہ (ترمذی : ۱۸۹۵)

’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں‘‘

ایک روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

اکبر الکبائر الاشراک باللہ وقتل النفس وعقوق الوالدین وقول الزور (بخاری : ۶۳۶۳)

’’کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا‘‘

ان روایات سے جھوٹ کی خطرناکی اور اس کی حرمت واضح ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے، تو جس عمل کی بنیاد جھوٹ پر ہو اس کی اسلام میں کیسے اجازت ہوسکتی ہے ؟!بلکہ اس کو بھی بہت بڑا گناہ سمجھا جائے گا۔

بعض لوگ اپریل فول کو محض مذاق سمجھ کر جائز تصور کرتے ہیں، حالانکہ ہنسی مذاق اور دل لگی وغیرہ کے لئے بھی خلاف حقیقت بات بولنااسلام میں جھوٹ کہلاتا ہے اور ممنوع ہے، ایک روایت میں آپ  ﷺ کا ارشاد ہے :

ان العبد لیقول الکلمۃ لا یقول الا لیضحک بہا اہل المجلس یہوی بہا ابعد ما بین السماء والارض۔ (شعب الایمان :۴۴۹۲)

’’بے شک بندہ کوئی بات صرف اس لئے کہتا ہے، تاکہ حاضرین مجلس ہنسیں، وہ اپنی اس (خلاف حقیقت ) بات کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں پہونچے گا، جتنی آسمان وزمین کے مابین دوری ہے ‘‘

 اپریل فول میں جھوٹ بولنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چند لمحہ کے لئے کسی کو کسی فکرو غم یاکسی خوف میں مبتلا کردیا جائے، جب کہ احادیث میں اس بھی منع کیا گیا ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور آپ کے چند اصحابؓ بھی آپ کے ساتھ، ایک صحابیؓ  کو نیند آگئی تو بعض صحابہ نے مذاق میں ان کی رسی کو چھپادیا، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا :

لا یحل لمسلم ان یروع مسلم؍ا (مسند احمد : ۲۳۱۱۴)

’’کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے‘‘

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر مسلموں کے اس جھوٹے رسم : اپریل فول کی اسلام میں بالکل ہی اجازت نہیں ہے، اور یہ حرام ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے اور رسول اللہ ﷺ سے منقول یہ دعا کرنی چاہئے :

اللہم طہر قلبی من النفاق و؍عملی من الریاء ولسانی من الکذب وعینی من الخیانۃ فانک تعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور (مشکاۃ المصابیح : ۲۵۰۱ )

’’اے اللہ میرے دل کو نفاق سے، عمل کو ریاکاری سے، زبان کو جھوٹ سے اور آنکھ کو خیانت سے پاک کردے، بے شک تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں پوشیدہ راز سے واقف ہے ‘‘

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔