انسان اور زمین کی حکومت (قسط 107)

رستم علی خان

سبا اور حمیر کی عظمت اور اقتدار اور وسعت فتوحات کی روایتیں عرب میں اس قدر متواتر ہیں کہ ان کے قدر مشترک سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اشعار میں بھی کثرت سے واقعات مذکور ہیں- عربوں کے خیالات کے موافق سلاطین حمیر نے ایران کے انتہائی مقامات فتح کر لیے تھے- زولقرنین جس کو عوام سکندر کہتے ہیں اہل عرب کے نزدیک اسی حمیری خاندان کا فرمانروا تھا- شاہنامہ میں مذکور ہے کہ کیکاوس کو شاہ ہاماوران نے گرفتار کر لیا تھا- علامہ ثعلبی نے تاریخ ایران میں (جو یورپ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے) لکھا ہے کہ یہ ہاماوران حمیر کا بادشاہ تھا اور یہ ہاماوران اصل میں وہی عربی حمیہ ہے، مزید یہ بھی لکھا ہے کہ سوادیہ جو کیکاوس کی زوجہ تھی اور فردوسی کے بیان کے موافق سیاوش پر عاشق ہو گئی تھی اسی حمیری بادشاہ کی بیٹی تھی اور اس کا اصلی نام سعدیہ تھا جبکہ ایرانیوں نے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو سوادیہ کر لیا تھا-

یورپ کی تحقیقات حال سے بھی سبا اور حمیر کے اعلی درجہ کے تمدن کا ثبوت ملتا ہے- پروفیسر نولدیکی جرمنی کا مشہور مستشرق لکھتا ہے؛ "ولادت مسیح سے ہزار سال قبل جنوبی اور مغربی عرب یعنی یمن جو حمیر اور سبا کا ملک تھا اور جو اپنی بارش گرما کے باعث زراعت کے لیے نہایت موزوں تھا’ تمدن کے اس رتبہ تک پنہچ چکا تھا کہ اس کے کثیر التعداد کتبات اور شاندار عمارات کے آثار سے آج بھی ہمارے جذبات مدح ستائش کو تحریک ہوتی ہے اور اہل یونان و روم نے اس کو دولت مند عرب کا جو لقب دیا تھا بیجا نہ تھا- تورات میں متعدد عبارتیں ہیں جو سبا کی عظمت و شوکت کی شہادتیں دیتی ہیں- چنانچہ ملکہ سبا کا حضرت سلیمان سے ملاقات کا قصہ خاص طرح پر قابل زکر ہے-"

کتابت کا فن جو سبائیوں نے بہت ابتدائی زمانہ میں شمال سے لیا تھا، اب اس کو خود انہوں نے عرب کے اکثر حصوں میں ہر طرح کے کاروبار میں جاری کر دیا، یہاں تک کہ ایک طرف دمشق اور دوسری جانب ابی سینیا تک اس کو پھیلا دیا-

نابتی حکومت جو شام کی حدود سے متصل تھی اور جو قوم ثمود کی مراوف یا ان کی قائم مقام تھی اس کی نسبت فارسٹر صاحب اپنے جغرافیہ میں لکھتے ہیں؛ "ان مختصر بیانات سے معلوم ہوا ہو گا کہ زمانہ قدیم میں نابت نام اور اثر نہ صرف ریگستانی اور صحرائی عرب پر مستولی تھا’ بلکہ حجاز اور نجد کے صوبہائے عظیمہ پر بھی حاوی تھا- نابتی جہاں ایک طرف منافع تجارت سے بہرہ اندوز ہونے میں کمال رکھتے تھے، وہاں دوسری طرف سچے بنو اسماعیل کے خطرات جنگ کے لیے بلکل مستعد رہتے تھے-فلسطین و شام میں ان کی غار نگریوں اور خلیج عرب میں مصری جہازات پر ان کی رہزنی نے بارہا تاجدارن مقدونیہ کو ان کی دشمنی پر آمادہ کر دیا لیکن روما کی مجموعی قوت سے پیشتر کوئی شے ان کو نہ روک سکی اور روما کی اطاعت بھی انہوں نے اسٹرابو کے زمانہ میں بلکل مجبورانا متشہبا انداز سے قبول کی-"

یہ قدیم سلطنتوں کا حال تھا، اسلام سے قبل یہ تمام سلطنتیں برباد ہو چکی تھیں- ان کے بجائے یمن میں صرف بڑے بڑے سردار رہ گئے تھے جن کو قیل یا مقول کہتے تھے- عراق میں آل منذر کا خاندان قائم تھا جو فارس کے زیر اثر تھے، حورنق اور سدیر عرب کی مشہور عمارتیں اسی سلسلہ کی یادگار ہیں- شام کی حدود میں غسانی خاندان فرمانروا تھا جو قیصران روم کا فرمانروا تھا، جن کا اخیر فرمانروا "رواجبلہ بن الایہم غسانی” تھا-

تہذیب و تمدن کے لحاظ سے عرب کے مختلف حصے بلکل مختلف حالت رکھتے تھے- مانسیو لیبان فرنساوی نے اصول عمران کی بنا پر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کا تمدن کسی زمانہ میں اوج کمال تک پنہچ چکا تھا- کیونکہ اصول ارتقاء کی رو سے کوئی قوم دفعتہ اعلی درجہ کی تہذیب و تمدن تک نہیں پنہچ سکتی- یہ ایک قیاسی استدلال ہے، تاریخ سے بھی اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے بعض حصے مثلا یمن کسی زمانہ میں انتہا درجہ کی ترقی تک پنہچ چکے تھے- یورپ کے محققین آثار قدیمہ جنہوں نے یمن کے آثار قدیمہ کی تحقیقات کی ہے اور پرانے کتبوں کو پڑھا ہے وہ یمن کی قدیم تہذیب و تمدن کا اعتراف کرتے ہیں۔

صنعا اور قلیس کے زکر میں یاقوت تموی نے معجم میں قدیم آثارات عجیبہ کا تذکرہ کیا ہے اور گو اس میں بہت کچھ مبالغہ ہے تاہم اصلیت کا حصہ بھی کچھ کم نہیں-

اس طرح عرب کے وہ مقامات جو ایران اور شام سے متصل تھے، مثلا خیرہ جو آل نعمان کا پایہ تخت تھا- اور حوران جو خاندان غسان کا صدر مقام تھا تہذیب و تمدن سے خالی نہ تھا-

مورخین عرب کا دعوا ہے کہ یمن نے ایک زمانہ میں اس حد تک ترقی کی تھی کہ وہاں کے سلاطین نے تمام ایران فتح کر لیا تھا- چنانچہ سمرقند کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ یمن کا ایک بادشاہ جس کا نام شمر تھا اس نے سمرقند کو کھدوا کر برباد کر دیا تھا- ایرانی اس بنا پر اس مقام کو شمرکند کہنے لگے جو بعد میں مصرب ہو کر سمرقند ہو گیا-

عظیم الشان قلعوں اور عمارتوں کے آثار جو اب بھی کچھ کچھ باقی ہیں اب بات کی قطعی شہادت ہیں کہ اس ملک میں بھی کسی دور میں اعلی درجہ کا تمدن موجود تھا- علامہ ہمدانی نے اکلیل میں تمام آثار قدیمہ کا زکر کیا ہے- چنانچہ صفتہ الجزیرہ العرب میں لکھتے ہیں؛ "یمن کے مشہور قدیم قصر اور ایوان جن کا ذکر اہل عرب نے اشعار اور امثال میں کیا ہے کثرت سے ہیں اور ان کے متعلق اشعار کا ایک دفتر موجود ہے-” اس کے بعد مصنف نے لکھا ہے کہ میں اس موقع پر صرف ان ایوان اور قصر کے نام گنوا دیتا ہوں، اور وہ یہ ہیں؛ "غمدان، بلعم، ناعط، صرواح، سلحسین، ظفار، مکر، صہر، شبام، غیمان، یثبون، ریام، براقش، صمین، روثان، ارباب، ہند، ہنیدہ، عمران اور بمخیر-"

ان میں سے غمدان اور ناعط کا حال معجم البلدان میں تفصیل سے مذکور ہے اور ان کی عظمت و رفعت کے متعلق ایسی باتیں نقل ہیں جن پر ایشیائی مبالغہ کا دھوکہ ہوتا ہے-  سلحسین کے متعلق لکھا ہے کہ ستر برس میں تعمیر ہوا- شام کے متعلق لکھا ہے؛ "ان میں ان کے متعدد ہیبت انگیز قلعے ہیں-” قلعہ ناعط، وہب بن منبہ کے زمانہ تک موجود تھا، اس کے ایک کتبے کو محدث موصوف نے پڑھا تو معلوم ہوا سولہ سو برس کی تعمیر ہے- (گو اس بارے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن یہاں احتصار کیساتھ بیان کیا ہے تاکہ سلسلہ زیادہ طویل نہ ہو-)

لیکن عرب کے اصلی اور اندرونی مقامات میں تہذیب و تمدن کی یہ حالت نہ تھی، عربی زبان نہایت وسیع ہے باوجود اس کے جن چیزوں کو تمدن اور اسباب معاشرت سے تعلق ہے، ان کے لیے خاص عربی میں الفاظ نہیں ملتے بلکہ ایران یا روم سے مستعار آئے ہیں- مثلا "سکہ” کے لیے ایک لفظ بھی نہیں "درہم اور دینار” دونوں غیر زبان کے لفظ ہیں-درہم یونانی لفظ "درخم” ہے اور یہ وہی لفظ ہے جو انگریزی میں "ڈرام” ہو گیا ہے- "چراغ” معمولی چیز ہے تاہم اس کے لیے عربی میں کوئی لفظ نہ تھا، چراغ کو لیکر سراج کر لیا- پھر ایک مصنوعی لفظ بنایا "مصباح” یعنی ایک آلہ جس سے صبح بنائی جاتی ہے- اسی طرح کوزہ کے لیے بھی کوئی لفظ نہیں کوزہ کو کوز کر لیا ہے- لوٹے کو "ابریق” کہتے ہیں جو "آب ریز” کا مصرب ہے- تشت فارسی کا لفظ تھا جس کو عربی میں طست کر لیا ہے جبکہ پیالہ کو کاس کہتے ہیں جو فارسی لفظ کاسہ سے ماخوذ ہے- کرتہ کو عربی میں قرطق کہتے ہیں یہ بھی فارسی لفظ ہے جبکہ پاجامہ کو سروال کہتے ہیں جو کہ شلوار کی بگڑی ہوئی صورت ہے-

جب ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے لفظ نہ تھے تو تمدن کے بڑے بڑے سامان کے لیے کہاں سے لفظ آتے- اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب نے کسی زمانہ میں جو ترقی کی تھی آس پاس کے ممالک کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر کی تھی، اس لیے جو مقامات ان ممالک سے دور تھے اسی اصلی حالت میں رہ گئے-

احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور صلعم کے زمانہ تک عیش و نعمت کے سامان بہت کم تھے- مسلئہ حجاب کے شان نزول میں بخاری وغیرہ میں مذکور ہے کہ کہ اس زمانہ تک گھروں میں بیت الخلاء وغیرہ نہ تھی مستورات رفع حاجت کے لیے باہر جایا کرتی تھیں- ترمذی باب الفقر میں ہے کہ اس وقت تک چھلنیاں نہ تھیں- بھوسے کو پھونک کر اڑاتے تھے اور جو رہ جاتا وہی آٹا ہوتا تھا- بخاری کی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ رات کو گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے- ابو داود میں ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں آنحضرت صلعم کی صحبت میں تھا لیکن میں نے آپ سے حشرات الارض (کیڑے مکوڑوں) کا حرام ہونا نہیں سنا- اگرچہ اس حدیث کی شرح میں محدثین لکھتے ہیں کہ ایک راوی کے نہ سننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعی آنحضرت صلعم نے حشرات الارض کی حرمت نہیں بیان فرمائی، لیکن اس سے اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے عرب کیڑے مکوڑے وغیرہ بھی کھایا کرتے تھے- تاریخ اور ادب کی کتابوں میں یہ تصریح موجود ہے کہ عرب "کنکھجورا، گرگٹ، سہی” اور جانوروں وغیرہ کا چمڑہ کھاتے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔