کثیر لسانی فارمولہ

ابوفہد

 پڑھنے، پڑھانے کے باب میں شاید سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز زبان ہی ہے  اور اِس کے باجود ضروری اور اہم ہے کہ زبان کسی بھی علم کو حاصل کرنے یا معلوم شئے کو ظاہر کرنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اوریہ معلوم ہے کہ ذرائع اصل نہیں ہوتے وہ ہمیشہ ثانوی حیثیت میں ہوتے ہیں مگر زبان کا معاملہ اِس کلّئیے سے کچھ الگ ہے، کم از کم اِ س معنیٰ میں الگ ہے کہ زبان کو محض ایک ذریعہ ہونے کے باوجود بھی اولیت حاصل ہے کیونکہ زبان ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر ہم کسی بھی کام کو اس کے انجام تک نہیں پہنچاسکتےبلکہ آغاز بھی نہیں کرسکتے۔ اس کی ہمیں سب سے پہلے مرحلے میں ضرورت ہوتی ہے، یہ زندگی کے ہر موڑ پر ہماری انتہائی ضرورت بن کر ابھر تی ہے، جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں۔ قرآن خود اس کی عظمت کا گواہ ہے، قرآن نے اُسے انسان کی امتیازی خصوصیات میں بیان کیا ہے۔ سورہ ٔ رحمان میں ہے :

 الرَّحْمَـٰنُ ﴿1﴾ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ﴿2﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ ﴿3﴾ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ﴿4﴾

’’وہ رحمٰن ہی ہے، جس نے قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ ‘‘

آج کے دن سے لے کر ماضی کے اُس آخری دن تک چلے جائیں جب زبانوں نے اپنی ترقی یافتہ شکل وصورت حاصل کرلی تھی اور وہ اقوام عالم میں تہذیبی وراثتوں کا قیمتی جوہر قرار پاگئیں تھیں، آپ دیکھیں گے کہ اس عرصے میں جتنے بھی اہم لوگ دنیا میں گزرے وہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر، کم وبیش پانچ سے آٹھ دس زبانوں پر دسترس رکھتے  تھے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں میں کئی تو بے پڑھے لکھے بھی تھے۔

 علی میاں ندوی سے لے کر اقبال، ابوالکلام، سیدمودودی، سید قطب اور محمد علی جوہر تک اور محمد علی جوہرسےاحمدرضاخاں، قاسم نانوتوی، شبلی، سرسید، فضل حق خیرآبادی، شاہ صاحب و ابن تیمیہ تک ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ہیں، ان میں سے کسی کو بھی دیکھ لیں یہ سب کے سب ہفت زباں تھے۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ سب ہفت زباں تھے بلکہ بیک وقت ایک سے زائد زبانوں میں اظہارِ خیال کی قدرت بھی رکھتے تھے۔ ایک سے زائد زبانوں میں اظہارِ خیال کی قدرت کا حاصل ہونا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کرامتیں حاصل ہوجائیں یا پھر ان سے قریب تر حیثیت والی کوئی اور شئے۔

 مولاناعلی میاں کے تعلق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ اردو ان کی مادری زبان تھی یا عربی، انہیں دونوں زبانوں پر یکساں قدرت حاصل تھی، وہ ان دونوں زبانوں کے علاوہ، انگریزی، ہندی اور فارسی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے عربی زبان اُسی عمر میں سیکھ لی تھی جس عمر میں دوسرے افراد اپنی مادری زبان سیکھتے ہیں، وہ صر ف تیرہ سال کے تھے اور عرب مہمانوں کے ساتھ عربی میں بات کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ( 1908ء ) اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اوراطالوی وغیرہ پر بھی عبور رکھتے تھے۔ غالب واقبال نے دو دو زبانوں میں شاعری کی۔ مولانا حمیدالدین فراہی کواردو، عربی، انگریزی، عبرانی اور سریانی پر بھی عبور صاحل تھا۔ عرب کے مشہور ادیب احمد امین کم وبیش پانچ زبانیں جانتے تھے۔ اورشایدآپ کو یہ سن کر حیرت ہو کہ انہیں عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ اردو اور ہندی بھی اچھی طرح آتی تھیں۔ علامہ شبلی کو اردو کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ’ شبلی القلم‘ ہونااچھے بھلے قلم کاروں کے لیےبھی بڑے فخر کی بات تھی مگرکم ہی لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کا اشہب قلم عربی میں بھی اسی طرح چلتا بلکہ دوڑتا تھا جس طرح اردو میں دوڑتا اور چلتا تھا۔ سرسید مادری اور مقامی زبان کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور روسی بھی جانتے تھے۔ مولانا احمدرضا خان تین زبانوں میں شعر کہتے تھے، بلکہ اس وقت کے جتنے بھی شاعر تھے، وہ فارسی اور اردو میں یکساں قدرت رکھتے تھے، اور کئی شاعر بیک وقت کم ا ز کم دو دو زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ بہادر شاہ ظفرکواردو، فارسی اور عربی تین زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ پطرس بخاری (پرفیسر احمد شاہ بخاری )اردو کے علاوہ پشتو، فارسی اور انگریزی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔ ان کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ اور طوطیِ ہند امیر خسرو فارسی، اردو، سنسکرت اور پوروی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ شاعری آدمی اسی وقت کرسکتا ہے جب اسے اس زبان پر پوری قدرت حاصل ہو۔

یہ تو خیر ماضی کی بات تھی۔ دورِحاضر میں بھی ممبرومحراب، ادب وصحافت، صنعت وحرفت، تصنیف وتالیف اوراسپورٹس کے مختلف میدانوں سے وابستہ ہزاروں ایسے افراد مل جائیں گے کہ ان کے تعلق سے ہفت زبانی کی دعویداری ہر طرح سے درست اور مبنی بر حقیقت ہوسکتی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان تمام کی شخصیات کو عالمی میعار ووقار عطاکرنے میں ان کی خاندانی وجاہتوں، مہارتوں اور کسبی وہبی صلاحیتیوں اور ان تمام علوم وفنون کے عل الرغم جن پر انہیں دسترس حاصل تھی، سب سے زیادہ اور بڑا کردار اگرکسی چیز کا ہے یا ہوسکتا ہے تو وہ ان کی اِسی ایک خصوصیت اور لیاقت کا ہے کہ وہ ہفت لسا ن تھے۔ یقینا ایسا ہی ہے کہ ہفت لسانی ہمہ دانی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور درست بات تو یہ ہے کہ ہمہ دانی ہر حال میں ہفت لسانی کی مرہونِ منت ہے کیونکہ اِ س کے بغیر ہمہ دانی کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

ہر ایک فن اور کسی بھی طرح کی مہارت کا اپنا ایک رعب ہوتا ہے اور ہفت لسان ہونے کا بھی اپنا ایک رعب ہے جو دوسرے کسی بھی فن اور ہنر کے رعب سے کہیں زیادہ بڑا اور با اثر ہے۔ ہفت زبان ہونا یعنی کئی زبانیں جاننا آدمی کی راست ترقی کا ذریعہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آدمی خود کو انٹر نیشنل پلیٹ فارم پر متعارف کروانے کا اہل ہوجاتا ہے، امنگیں بڑھتی ہیں اوراس کے مطالعات، مشاہدات اور تجربات میں توسع، گہرائی اور ہمہ گیری پید اہوتی ہے۔ صدیوں پر محیط انسانی ارتقاء کا تجربہ اور تجزیہ حقیقی معنیٰ میں وہی لوگ کرسکتے ہیں یا کرتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہیں۔ جب ہم کوئی زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم صرف ایک زبان ہی نہیں سیکھتے بلکہ اس سکے توسط سے اس سے متعلق ایک پوری تہذیب، ثقافت، تاریخ، ادب اور اہل زبان کی نفسیات اور تاریخی وموروثی خصوصیات سے بھی کما حقہ واقفیت حاصل کرتے ہیں، کم از کم اس وقت جب ہم کسی زبان کو ترجیحی بنیادوں پر سیکھتے ہیں۔ تو ایک نئی زبان کا جاننا محض ایک زبان ہی کا جاننا نہیں ہے بلکہ ایک نئی تہذیب کا جاننا بھی ہے۔

 چیکوسلوواکیہ کی ایک مثل ہے:

’’Learn a new language and get a new soul‘‘

  ’’ ایک نئی زبان سیکھو اور ایک نئی روح حاصل کرو‘‘

زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقاء سے ہے۔ گرچہ ہفت زبانی بذات خود انسانی ارتقاء کے لئے ضروری نہیں لیکن یہ انسانی ارتقاء کا تجربہ و تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ڈاکٹر احمد امین نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہےکہ’’ پہلے میں صرف اپنی مادری زبان عربی ہی جانتا تھا۔ مگر اس کے بعد جب میں نے انگریزی سیکھ لی تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا پہلے میں صرف ایک آنکھ رکھتا تھا اور اب میں دو آنکھ والا ہوگیاہوں۔ اگر میں صرف اپنی مادری زبان ہی جانتا تو یقیناً معرفت کے بہت سے دروازے مجھ پر بند رہتے۔ ‘‘ مذکورہ مثال کا زیادہ تر تعلق اندرون ِ ذات سے ہے۔ یہ مثال نئی زبان جاننے کے خارجی عوامل اور فوائد کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ اس لیے یہ مثال نئی زبان کی اہمیت بیان کرنے کے بارے میں آدھی ادھوری وضاحتیں کرتی دکھائی دیتی ہے پوری نہیں۔ اس مثال میں جو کچھ رہ گیا تھا وہ احمد امین نے بیان کردیا ہے۔

عموما ہوتا یہی ہے کہ زیادہ ترلوگ مادری زبان کے علاوہ دیگرزبانیں عمر کے درمیانی یا آخری حصے میں سیکھتے ہیں۔ ان کی ضروریات مختلف اور جدا ہوتی ہیں، کچھ لو گ اپنے مطالعے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اپنے کاروبار کو مزید پھیلانا چاہتے ہیں یا پھر بعض دوسرے لوگ کوئی جاب پانے کے لیے زبانیں سیکھتے ہیں۔ وجہ خواہ کوئی بھی ہو ایک سے زائد زبانیں سیکھنا تقریبا ہر کامیاب یا کامیابی کی چاہت رکھنے والے ہرانسان کا اولین کنسرن رہا ہے۔ اور ہر زمانے میں رہا ہےاورجب زبانیں اتنی ہی ضروری اور اہم ہیں تو اس بات کے لیے کیا امر مانع ہے کہ زبانیں سکھانے کا عمل پرائمری درجات سے ہی شروع کردینا چاہئے اور اس قدر باقاعدگی اور اہتمام کے ساتھ شروع کردینا چاہئے کہ اسکول کے طلبہ انٹر تک اور مدارس کے طلبہ عالمیت تک تین سے پانچ زبانیں بحسن وخوبی سیکھ لیں۔ آخر جب زبان کے مقابل کسی حدتک کمتر درجے کے علوم و فنون اور خاص کر ایکٹوٹیز تعلیمی اداروں میں بار پاسکتی ہیں اور اپنے تماتر طمطراق اور ادائے کج کلاہی کے ساتھ پاسکتی ہیں توپھر زبانیں کیوں نہیں۔ اور پھر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ زبانیں سیکھنے کے لیے فراغت کے بعد کا وقت ہی کیوں مختص کیا جائے جبکہ اس قسم کی کوئی بھی چیز جاننے اورسیکھنےکی بہترین عمریہی بچپن کی عمر ہے۔ نکلتی ہوئی عمر میں حفظ قرآن کی طرح زبانیں سیکھنا بھی زیادہ دشوار ہوتا ہے اور اس کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی شاید کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی نوعیت سے ایکسسٹ ضرور کرتا ہے کہ مادری زبان اتنی آسان اور غیر مادری یا غیر ملکی زبان اس قدر مشکل کیوں ہے۔ یہ سوال اکثر طالب علم کرتے ہیں اور اس کا سب سے بہتر جواب یہ  ہے کہ زبان کو جو چیز مشکل بناتی ہے وہ بذات خود زبان کا لفظی، صوتی یا اس کانحوی وصرفی نظام نہیں بلکہ کچھ خارجی عوامل ہیں، جو زبانوں کے سیکھنے کے عمل کے ساتھ ہمیشہ کے لیے لگے ہوئے ہیں۔ ان عوامل میں یہ بھی ایک بڑا عامل ہے کہ  آپ کوئی زبان کس عمر میں اور کس ماحول میں سیکھ رہے ہیں اور وہ زبان آپ کی اپنی مادری زبان کے خاندان سےقربتوں اور دوریوں کے تعلق سے کس طرح کی نسبتیں رکھتی ہے۔ جو زبان آپ سیکھنا چاہتے ہیں وہ آپ کی اپنی مادری زبان، اس کی تہذیب اور اس کے نظام ِحرف وصوت سے اور اس ماحول سے جس میں وہ زبان پل کر جواں ہوئی ہے اور خود آپ پلے بڑھے ہیں اور پڑھے لکھے ہیں، جس قدر مختلف، دُور اور غیر مانوس ہوگی، اس کا سیکھنا آپ کے لیے اسی قدر مشکل اور صبر آزما کام ہوگا۔ زبان خواہ کوئی بھی ہو وہ بذات خود مشکل یا آسان نہیں ہوتی بلکہ اس کو خارج کی کچھ دوسری چیزیں مشکل یا پھر آسان بناتی ہیں۔ ایک ہندوستانی کے لیے عرب ی زبان مشکل ہوگی اور ایک عربی کے لیے ہندوستان کی کوئی بھی زبان ہندی یا اردو اسی طرح مشکل ہوگی، اسی طرح دیگر زبانوں کا معاملہ بھی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زبانوں کے ساتھ سہل اور مشکل ہونے کی نسبتیں محض ڈرامائی ہیں یا پھر یہ کہ وہ اپنی معنویت میں خارجی اثرات کا دخل رکھتی ہیں۔

یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ طلبا ء کا سب سے زیادہ وقت زبانیں سیکھنے پر صرف ہوتا ہے۔ ابتدائی درجات سے لے کر گریجویشن اور پی ایچ ڈی تک بھی بلکہ بے شمار طلبہ اس کے بعد تک بھی زبانیں ہی سیکھتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی عمر کے اس حصے کو بھی زبانیں سیکھنے پر صرف کردیتے ہیں جو کسی بھی اکیڈمک پرسنالٹی کے لیے تصنیف وتالیف اور تحقیق وتدوین کے لیے وقف ہونا چاہئے۔ اور اگر یہ ہمارے تعلیمی اداروں کے سسٹم کی خرابی یا کجی کے باعث ہوتا ہے تو پھر یہ صریح ظلم بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر یہ طالب علم کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے تو پھر کوئی اِس کا کیا کرے کہ آدمی سب سے زیادہ ظلم خود اپنی ذات پر ہی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی جو وہ بظاہر دوسروں پر ظلم کررہا ہوتا ہے۔

 شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائمری اور سکنڈری درجات میں زبانیں سکھانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں ہوتی۔ اور زبانیں سیکھنے میں جو کمی رہ جاتی ہے طلبہ اسے اپنے طور پر پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹس میں کئی کئی سال کی محنت و کوشش کے ذریعہ پورا کرتے ہیں۔ اگر ان کی یہ ضرورت ابتدائی، ثانویہ اور عالیہ درجات ہی میں پوری کردی جائے تو وہ اپنا بہت سارا وقت بچا سکیں گے اور خود زبان سکھانے والے انسی ٹیوٹس کی ماراماری بلکہ مہاری سے بھی محفوظ رکھ سکیں گے۔ جہاں دنیا کی دو سب سے قیمتی چیزیں پیسہ اور وقت کی بربادی کے سوا طلبہ کو مزیدکچھ نہیں ملتا۔ اور اگر ملتا بھی ہے تو وہ وقت اور پیسے کی ایسی بربادی کی قیمت پر ملتا ہے جس بربادی کا کوئی کفارہ نہیں، نہ شریعت میں نہ فطرت میں۔ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی ادارہ، اسکول یا مدرسہ اگرسہہ لسانی یا چار اور پانچ لسانی فارمولے کوترجیحی طورپر اپنا کنسرن بنالےتو تنہا اسی بنیاد پر وہ اپنی بقا اور زندگی کی دوڑ میں شامل رہنے کا اپناسا استحقاق حاصل کرلے گا۔

 ہندوستان جس طرح مختلف تہذیبوں، مذاہب اور مختلف آب وہوا اورگوناگوں موسوموں کا گہوارہ ہے اسی طرح اسے زبانوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں دنیا بھر کی کل 6912 زندہ زبانوں میں سے 415 زندہ زبانیں پائی جاتی ہیں اور جب یہ زبانوں کا گھر ہے تو پھر یہ چیز یہاں کے باشندوں کے لئے ہر طرح سے لائق اعتنا ہے کہ وہ مادری اور قومی زبان کے علاوہ دیگر زبانیں بھی سیکھیں۔ اورایک ہندوستانی مسلمان بچے کو کم از کم پانچ زبانیں سیکھنے کی کوشش کرنا چاہئے، اردو جو اس کی ماردی زبان ہے، ہندی جو اس کی قومی زبان ہے، انگریزی جو انٹرنیشنل لینگویج ہے اور عربی جو اس کی مذہبی یا قرآن وحدیث کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی معیار کی نہایت زرخیز زبان بھی ہے۔

ویسے اس معاملے میں سب سے اچھا اور آسان فارمولہ یہ ہے کہ ہر طالب علم کو کسی ایک زبان پر پوری قدرت حاصل ہو اور وہ اسی کو  ذریعہ ٔ اظہار کے طورپر اختیارکرے اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لیے مادری زبان سے زیادہ کوئی دوسری زبان موزوں نہیں ہوسکتی۔ اور اگر تمام دنیا کے  محقیقین ومصنفین پر نظر ڈالی جائے تو عموما ہوتا بھی یہی ہے کہ زیادہ تر اہل علم اپنی مادری زبان کو ہی ذریعۂ اظہار کے طورپر چنتے ہیں اور باقی زبانوں کو ثانوی درجے پر رکھ کر انہیں اپنے تحقیقی اور تجزیاتی کاموں کو وسعتیں اور استحکام دینے لیے معاون زبان کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ مادری زبان کی اَولوِیت دوہری معنویت کی حامل بھی ہوتی ہے، ایک تو یہی کہ آدمی مادری زبان کے  دروبست اور عمق وابعاد کو زیادہ آسانی اور کم سے کم وقت میں جان اور سیکھ سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کے اس انتخاب کواس کی مادری زبان کی جو بسا اوقات اس کی قومی زبان بھی ہوسکتی ہے، براہ راست خدمت کے طور بھی پر دیکھا جاتا ہے۔

ہندوستان کے بیشتر سرکاری تعلیمی ادارے سہہ لسانی فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ اور ہرعلاقے اور مذہب کو ماننے والے ثانوی درجے کی زبانوں کا انتخاب کرنے میں پوری آزادی بھی رکھتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کے عزائم بہت بلند ہوں اورجن کی فطرت میں خالق کائنات نے جہاں بینی کی صفت ازل ہی سے رکھ دی ہو، ان کے لئے سہہ لسانی فارمولے کے فریم میں مقید رہنا مشکل ہے۔ ان کے لیے اس فارمولے کا ظرف تنگ ہوگا اور وہ زبان ِ حال و قال دونوں سے غالب کے طرفدار ہی نظر آئیں گے۔

بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

تبصرے بند ہیں۔