خالص دینی عمل بھی فتنہ انگیز ہوسکتا ہے!

      ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم انھیں بہت عزیز رکھتے اور ان پر بہت اعتماد رکھتے تھے۔ اور وہ بھی آپ ص سے بہت محبت کرتے تھے۔ محبت ہی کی وجہ سے وہ روزانہ رات میں مسجدِ نبوی میں حاضری دیتے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا میں عشاء کی نماز پڑھتے، پھر واپس جاکر اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے۔ اس دوران ان کے محلّے والے ان کا انتظار کرتے رہتے۔

         ایک مرتبہ انھوں نے واپس جاکر امامت کی تو سورہ بقرہ شروع کردی۔ (ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سورہ ڈھائی پاروں پر مشتمل ہے۔ ) ایک صاحب کو غصہ آیا۔ انھوں نے نیت توڑی، جماعت سے ہٹ کر اکیلے فرض نماز پڑھ لی اور چلے گئے۔ اگلے دن انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں جاکر شکایت کردی کہ نمازیوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، کچھ کھیتوں میں کام کرتے ہیں، کچھ کی دوسری مشغولیات ہوتی ہیں۔ ہم تھکے ہوتے ہیں، لیکن معاذ امامت کرتے ہیں تو لمبی لمبی سورتیں پڑھنے لگتے ہیں۔ آپ ص نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو بلاکر سخت الفاظ میں تنبیہ کی۔ آپ نے فرمایا :أ فَتَّانٌ أنتَ يَا مُعَاذُ؟ "اے معاذ! کیا تم بڑے فتنہ پرور ہو؟” پھر آپ ص نے عمومی انداز میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : "جو شخص بھی نماز کی امامت کرے اسے نماز مختصر پڑھانی چاہیے، اس لیے کہ اس کے پیچھے بوڑھے، کم زور، عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ ” (بخاری)

          اس حدیث سے ایک بہت اہم بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ایک خالص دینی عمل بھی، اگر اسے بے موقع و محل کیا جائے، فتنہ انگیز ہوسکتا ہے۔

         حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ مسلسل دن میں روزہ رکھتے اور رات بھر نوافل پڑھتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور بیوی بچوں اور دیگر متعلقین کے حقوق ادا کرنے کی بھی تاکید کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ معاملہ پہنچا تو آپ ص نے بھی تائید کی۔

         صدقہ و خیرات بہت اچھا اور باعثِ ثواب عمل ہے، لیکن اگر کوئی شخص ثواب کمانے کے جوش میں اپنی کل جائیداد کو صدقہ کردے اور اپنی اولاد کے لیے کچھ نہ چھوڑے تو  اس کا یہ عمل ناپسندیدہ ہوجائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی کل دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ ص نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور ایک تہائی مال سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ساتھ ہی آپ ص نے فرمایا :” تم اپنے وارثین کو مال دار چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں فقیر و محتاج چھوڑ کر جاؤ کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ "

        دین کی دعوت و تبلیغ کی فکر کرنا، اس کے لیے گھر بار چھوڑ کر باہر نکلنا، دوسرے علاقوں کا سفر کرنا، اپنی دینی معلومات میں اضافہ کے لیے اجتماعات میں شرکت کرنا، یہ سب اچھے کام ہیں۔ ان کاموں کو انجام دینے والا اور ان میں خود کو مصروف رکھنے والا اجر و ثواب کا مستحق ہے، لیکن اگر ایسا شخص ان کاموں کی انجام دہی کے نتیجے میں اپنے گھر سے غافل ہو جائے، اپنی بیوی، رشتے داروں اور دیگر متعلقین کے حقوق صحیح طریقے سے انجام نہ دے، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ نہ دے سکے تو اس کے یہ تمام دینی و تبلیغی کام اس کے لیے وبالِ جان بن جائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔