مولانا آزاد کی دینیاتی تخلیق

  اس مقالے کا موضوع مولانا ابوالکلام آزاد کی دینیاتی تخلیق ہے۔ دینیات علم کا وہ شعبہ ہے جس کا تعلق دین سے ہو۔ اس کا سطحی مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ دین نے جو اعتقادات، عبادات اور اخلاق سکھائے ہیں، ان کی توضیح اور تشریح کی جائے مگر اس کا اعلیٰ اور ارفع معنی کچھ اور ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر دین کیا چیز ہے؟

 یہ دو لفظ ہیں دین اور مذہب اور دونوں لفظوں کے معنیٰ میں ابتدا ہی سے خلطِ مبحث ہوتا چلا آیا ہے اور اکثر وبیشتر دونوں اصطلاحوں کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں کے مفہوم جدا جدا ہیں۔ جب سے انسان شعور کی دولت سے مالا مال ہوا ہے، وہ اس فکر اور اس سوچ میں رہا ہے کہ آخر اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ وہ کیوں پیدا ہوا ہے؟ پیدا ہونے کے بعد وہ اس عالم کون و فساد میں کیا کرنے والا ہے او ر کیوں کرنے والا ہے؟ اور اس کی انتہائی منزل مقصود کیا ہے؟ وہ اپنے گرد و پیش کو دیکھتا ہے۔ قدرت کی زبردست صناعی سے متاثر ہوتا ہے اور اسے تسخیر کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور لاکھوں سال سے اس کام میں مصروف ہے۔ اس کی یہ مصروفیت ابھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ یہ سب کام وہ کرتا ہے، رہ رہ کے اس کے دل میں یہ خیال بار بار ابھرتا ہے کہ کیا صرف اتنا ہی اس کا منتہائے مقصود ہے؟ کیا وہ صرف یہی کام کرنے کیلئے آیا ہے کہ وہ بے آب و گیاہ ویرانوں اور ریگستانوں کو اپنی محنت سے لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور خوبصورت سبزہ زاروں میں تبدیل کرے۔ ناپیدا کنار سمندروں اور فضا میں چلنے والی ہواؤں کو اپنی گرفت میں لے لے اور عناصر قدرت کے تمام باریک سے باریک اجزاء کا تجزیہ کرے اور ان پر قابو پالے ار پھر چل بسے۔ ظاہر ہے کہ انسانی شعور کی تشفی صرف اسی ایک بات سے نہیں ہوسکتی وہ کچھ اور چاہتا ہے۔ اور ذہنِ انسانی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کبھی بے کار نہیں بیٹھتا۔ ہمیشہ کام میں لگا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ ابتدائے آفرینش سے اس سوچ میں ہے کہ یہ کارخانۂ قدرت کیسے پیدا ہوا؟ اور آغازِ آفرینش ہی سے اس نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ اس کارخانے کا صانع اسے ایک خاص ضابطے اور قاعدے کے تحت چلانے والی کوئی طاقت ضرور ہے۔ دل ہی دل میں انسان اس طاقت سے مرعوب ہوا۔ اور اس کا سر اس طاقت کے سامنے جھکنے لگا۔ اور مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اس اَن دیکھی طاقت کے نام بھی تجویز کئے۔ کسی نے ایشور کے نام سے پکارا۔ کسی نے اللہ کا خطاب دیا اور انسانی ارتقاء کی تاریخ گواہ ہے  کہ انسان نے سب کچھ سمجھا اور اس کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اور یہی اس کی منزل مقصود ٹھہری۔ گویا اس حقیقت اعلیٰ کی موجودگی کا اقرار ہوا اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس کے خد و خال بھی بن گئے۔ اور اس کو پانے کیلئے جتن بھی ہونے لگے۔ ذہن انسانی کی اسی کاوش کا نام ’’دین‘‘ ہے اور یہ منزل ہر انسان کی ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں۔ گورے کالے کا امتیاز نہیں۔ عجمی اور عربی کا فرق نہیں۔ ہندی اور ایرانی کا اختلاف نہیں۔ ہر انسان جہاں ہے اور جب سے ہے وہ اس حقیقت اعلیٰ کا قائل ہے اور ا س کی جستجو میں مصروف ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان کی منزل ایک یعنی ہر انسان کا دین ایک ہے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ ہر انسان کا اپنا اپنا شعور ہے، اپنا اپنا ادراک ہے۔ اور ہر انسان اپنے ذی فہم و ادراک کے مطابق اس منزل پر پہنچنے کیلئے اپنا اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔ اسی میں یہ ہوا کہ مختلف وقتوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو خدا کی طرف سے ہدایتِ عوام کیلئے مامور تھے۔ جن کا شعور عام انسانوں کے شعور سے بلند تر تھا۔ انھوں نے عام انسانوں کی الجھنوں کو دور کرنے کیلئے وقت وقت پر ان کو منزلِ مقصود پالینے اور اس حقیقت اعلیٰ کو سمجھنے کیلئے مختلف مشورے دیئے۔ مختلف راہیں دکھلا دیں اور لوگوں میں سے ایک گروہ نے ایک کی راہ کو سہل سمجھا اور اسی کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر منزل مقصود کی طرف گامزن ہوا۔ اور کسی دوسرے گروہ نے دوسرے ہادی کی راہ قبول کی اور اسی پر چل پڑا۔ یہ بالغ نظر لوگ پیغمبر، اوتار، رِشی مُنی، اولیاء وغیرہ کے ناموں سے جانے گئے اور اس طرح سے بہت سی راہیں نکل آئیں۔ اور یہی راہیں مذہب کہلائیں۔ اب یہ بات صاف ہوگئی کہ دین اور مذہب ایک چیز نہیں، دو جداگانہ چیزیں ہیں۔ دین ایک ہے اور وہ فکر انسانی کی منزل ہے۔ مذہب اسی منزل پر پہنچنے کیلئے راستہ ہے۔ گویاہر انسان کا دین ایک حقیقت اعلیٰ کو تسلیم کرنا اور اس کی جستجو کرنا ہے۔ اور اسی کو ہم لفظ توحید سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح یہ بات اب آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ دنیا کا ہر انسان توحید باری تعالیٰ کا قایل ہے اور مذہب اس تک بار پانے کا ایک ذریعہ یا راستہ ہے۔ بعض مفکرین اور علماء ے ایک اصطلاح وضع کی ہے، وہ ہے: ’’وحدتِ ادیان‘‘ یعنی بہت سے دین در اصل ایک ہیں۔ اور ان بزرگوں نے بھی یہی ٹھوکر کھائی ہے کہ وہ مذہب اور دین کو ایک معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ دین تو بہر حال ایک ہی۔ ادیان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ البتہ مذاہب بہت سے ہیں اور وحدتِ مذاہب کبھی ممکن نہیں، کیونکہ دنیا کے تمام لوگ ایک ہی راہ کو کبھی اختیار نہیں کریں گے۔ ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق اپنی اپنی راہ تلاش کرے گا اور اسی پر چل پڑے گا۔ مطلب یہ کہ منزل ہر انسان کی ایک ہے اور اس تک پہنچنے کی راہیں الگ ہیں؛ یعنی ہر انسان کسی نہ کسی رنگ میں وجود باری تعالیٰ کا قایل رہا ہے اور ہے اور ہر انسان نے اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے اپنا اپنا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ یہی وہ تاویل ہے اور خیال ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد کے ذہن رسا نے ہم کو دیا ہے۔ اور اگر ہم سب اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہماری بہت سی مشکلوں کا حل نکل سکتا ہے۔ مولانا ’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

  ’’انسانی دماغ کا سب سے پرانا مقصود جو قدامت کی تاریکی میں چمکتا ہے وہ توحید کا تصور ہے یعنی صرف ایک ان دیکھی اور اعلیٰ ہستی کا تصور جس نے انسان کو اور ان تمام چیزوں کو جنھیں وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا پیدا کیا‘‘۔

انسانی شعور کو سیدھی راہ پر لگانے کیلئے جتنے بھی پیغمبر، اوتار، رشی منی اور اولیاء آئے ان سب نے توحید کا پرچار کیا۔ ان سب نے بتایا کہ حقیقت اعلیٰ ایک ذات واحدہ ہے جسے خدا کہتے ہیں۔ مولانا آزاد کہتے ہیں: ابتدائی انسان کا یہ اعتقاد بالکل خالص اور بغیر کسی ملاوٹ کے تھا، مگر بعد کے انسانوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ وہ فرماتے ہیں:

 ’’مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ سے اس کے قدم بتدریج پیچھے ہٹتے گئے اور توحید کی جگہ آہستہ آہستہ شرک اور متعدد الہ (یعنی بہت سے معبودوں اور خداؤں کا وجود) کا تصور پیدا ہونے لگا؛ یعنی اب ایک ہستی کے ساتھ جو سب سے بالاتر ہے، دوسری قوتیں بھی شریک ہونے لگیں اور ایک معبود کی جگہ بہت سے معبودوں کی چوکھٹوں پر انسان کا سر جھک گیا‘‘۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب شاید یہ ہے کہ انسان کی فطرت بڑی بے تاب واقع ہوئی ہے۔ ان دیکھے محبوب کی یاد میں راتیں گزارنے پر وہ تیار ہیں۔ اور ا س کے فراق وہ اپنے دنوں کو بیابانوں میں بسر کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ وہ ’’کچھ‘‘ دیکھنا چاہتا ہے اور جب تک نہ دیکھے اسے اطمینان نہیں ہوتا۔ اس نے عقل کا سہارا لیا۔ وہ خود سرگشتہ وہ حیران ثابت ہوئی۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے لکھا کہ ایک مجذوب سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟ بولا: جو خدا کو پائے۔ پھر پوچھا کہ خدا کیا ہے؟ جواب ملا: جو عقل میں نہ آئے۔ مفکروں نے اس انسانی اُپج کو ذوقِ حضور کا نام دیا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی خوب کہا ہے:

ذوقِ حضور در جہاں رسم صنم گری نہاد … عشق فریب مے دہد جانِ امیدوار را

  کچھ دیکھنے کی تمنا میں دنیا بت پرستی کی بنیاد قایم کی۔ در اصل انسان نے یہ تسلیم تو کرلیا کہ محبوبِ حقیقی اور معبودِ حقیقی ایک ہے؛ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ وہ ہاتھ آنے والی اسامی نہیں۔ اس کے حضور جانے اور اس کے دیدار سے آنکھیں منور کرنے کا اس زندگی میں کوئی امکان نہیں تو وہ خیال ہی خیال میں اس ان دیکھے محبوب کی تصویریں بنانے لگا، وہ ایسا ہوگا، وہ ویسا ہوگا؛ اس کی چال ڈھال یوں گی، اس کے خدو خال اس طرح ہوں گے۔ پھر رفتہ رفتہ ان خیالی تصویروں کو تراشنے بھی لگا اور اسے اگر محبوب حقیقی نہیں تو کم از کم محبوب حقیقی کا عکس سمجھ کر پوجنے لگا اور یہی بت پرستی کی ابتدا ہوئی۔ دنیا کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر بالکل ہی غیر متوقع باتیں وجود میں آتی ہیں، مثلاً تمام پیغمبروں نے ایک خدا کے وجود کا درس دیا، مگر یار لوگوں نے خود ان ہی پیغمبروں کو خدا بنا ڈالا۔ مسیح علیہ السلام نے ساری زندگی عدم تشدد کے زریں اصول پر کار بند رہنے کیلئے صرف کی اور خود تشدد کا شکار ہوکر سولی پر لٹکائے گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ماحصل توحید باری تعالیٰ ہے اور خود ان کے پیروؤں نے ’’خدا خود محمدؐ کی صورت میں آئے‘‘ کہہ کر ان کی تعلیمات کی نفی کردی۔

  یہ بہر حال جملۂ معترضہ تھا، کہنا یہ تھا کہ مولانا آزاد نے قرآن مجید کی تفسیر ایک نئے زاویے سے کی اور خود قرآن مجید کی آیات سے ثابت کیا کہ دین ایک ہے اور ہر انسان ایک ہی دین کا پیرو ہے۔ مگر مذاہب مختلف ہیں اور مختلف مذاہب کے پیروؤں اور ماننے والوں نے دین کی اصل حقیقت کو کم کر دیا ہے۔ اور انسان افراتفری اور ابتری کا شکار ہوا۔ مولانا آزاد کہتے ہیں:

 ’’قرآن مجید نے جن مہمات پر زور دیا ہے ان میں سے تین باتیں سب سے نمایاں ہیں:

 1۔  انسان کی نجات و سعادت کا دار و مدار اعتقاد اور عمل پر ہے ۔ کسی خاص گروہ بندی پر نہیں۔

2۔  نوع انسانی کیلئے دین الٰہی ایک ہے اور یکساں طور پر سب کو اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ پس یہ جو پیروانِ مذہب نے دین کی وحدت اور عالمگیر حقیقت کو ضائع کرکے بہت سے مخالف اور متخاصم جتھے بنالئے ہیں، یہ صریح گمراہی ہے۔

3۔  اصل دین توحید ہے؛ یعنی ایک پروردگار عالم کی براہ راست پرستش اور تمام بانیانِ مذاہب نے اسی کی تعلیم دی ہے۔ اس کے خلاف جس قدر عقائد اور اعمال اختیار کئے گئے ہیں اصلیت سے انحراف کا نتیجہ ہیں‘‘۔

 گویا نوع انسانی کو ایک مالا میں پرونے کیلئے اگر دین کی وحدت کا تصور ہے تو اسی نوع انسانی کو گروہوں میں بانٹنے اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنانے کا کام مذہب کی غلط تاویلوں سے لیا گیا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ صورت حال سخت افسوس ناک ہے۔ (جاری)

تحریر: میر غلام رسول نازکی .ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔