تسلیمہ نسرین کی لن ترانی

  تسلیمہ نسرین وقتاً فوقتاً  اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف لن ترانی کرتی رہتی ہیں۔ اس کا ایک مقصد تو اسلام، قرآن اور مسلمان کے دشمنوں کو خوش کرنا خاص طور سے جو لوگ ان کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں یا کر رہی ہیں ان کا حق خدمت کا ادا کرنا کیونکہ اس کے بغیر ان کی دیکھ ریکھ نہیں ہوسکتی ۔ ایسے لوگوں میں برہمن لابی اور یہودی لا بی بھی شامل ہے۔ دوسرا مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا اور ان کے مظاہرے اور جلسے و جلوس سے ملک کے فرقہ پرستوں میں شہرت و عزت حاصل کرنا۔

 چند دنوں پہلے جے پور کی لٹریری میٹ میں تسلیمہ کو سنجے راؤ نے بلا کر ان سے مغلظات بیان کروائے اور لٹریری میٹ کی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تسلیمہ نے خواتین پر مظالم کے تعلق سے مگر مچھ کے آنسو بہائے اور یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے پر زور دیا، گزشتہ روز بدنام زمانہ نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ نے اپنے اسٹوڈیو میں تسلیمہ نسرین کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ جو مسلم پینالسٹ تھے وہ یہ تو جانتے تھے کہ یہ عورت گستاخ رسول ہے، اسلام اور قرآن کی دشمن ہے مگر کن کن کتابوں میں ایسی گستاخانہ باتیں لکھی ہیں یا بیان کی ہیں نہیں جانتے تھے۔ ایک پینالسٹ نے اس کی کتاب ’’لجا‘‘ کا ذکر کیا جس میں اس نے اپنی عیش پرستانہ زندگی کا ذکر کیا ہے اور عورتوں کے مظالم پر آنسو بہائے ہیں۔ اپنی چار شادیوں کا ایک ایک کر کے ذکر کیا ہے۔ تسلیمہ کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اس نے ’لجا‘ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے گستاخانہ باتیں اپنی دوسری بنگلہ کتابوں میں بیان کی ہیں۔ خاص طور سے ’’دوئیکھنڈیتا‘‘ (Dwikhandita) ۔

 کلکتہ میں جب تسلیمہ نسرین کا قیام تھا تو ملی اتحاد پریشد کی طرف سے ان کے متعلق بہت کچھ اخباروں میں لکھا گیا۔ پریس کانفرنسیں ہوئیں۔ چھ ماہ مسلسل اس کے خلاف مہم چلائی گئی جس کے نتیجہ میں اس وقت کی مارکسی حکومت نے راتوں رات اسے جے پور بھیج دیا۔ راجستھان کی حکومت نے اسے جے پور میں رکھنے کے بجائے دہلی بھیجا، جہاں آج تک وہ قیام پذیر ہے۔ اس کے خلاف مہم 2007ء میں چلائی گئی تھی۔ سال کے آخر میں اسے یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا تھا۔ کلکتہ میں اس موقع پر ابو رضا صاحب نے بنگلہ زبان میں اس کے خلاف ایک کتاب لکھی۔ انگریزی میں پروفیسر منال شاہ قادری اور جناب سید رشادت علی قادری نے لکھی۔ آخر الذکر کتابوں کی رسم اجراء سابق وزیر اعلیٰ سدھارتا شنکر رائے نے کلکتہ پریس کلب میں کی۔ اکیڈمی آف فائن آرٹس‘ میں  ملی اتحاد پریشد کے زیر اہتمام مباحثہ میں بھی مسٹر سدھارتا شنکر رائے نے حصہ لیا۔ انھوںنے انگریزی میں تسلیمہ نسرین کے خلاف ایک مضمون لکھا جو ’اسٹیٹس مین‘ کلکتہ میں شائع ہوا۔ مسٹر رائے نے اس کی ایک کاپی راقم کے حوالے کی جسے میں نے اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ مضمون روزنامہ ’آزاد ہند‘ میں شائع ہوا۔ ضرورت ہے کہ اردو میں بھی اس پر ایک کتاب لکھی جائے تاکہ اردو داں حضرات اس کی کارستانیوں کا حوالہ دے سکیں۔ میںنے ارادہ کیا ہے، انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ ایک مہینہ کے اندر یہ کتاب منظر عام پر آجائے۔

  ہندستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کو گالیاں دینے اور دلوانے سے بڑی دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تسلیمہ نسرین کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ کانگریس کی حکومت میں مسٹر پرنب مکھرجی جب وزیر خارجہ تھے تو ان کے گھر پر ملی اتحاد پریشد کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی۔ مسٹر مکھرجی نے اس کی کتابوں پر خود لعنت ملامت بھیجی اور وعدہ کیا کہ وہ اس طرح کا طور طریقہ حکومت کی سطح پر اپنائیں گے کہ ملک میں اس کا رہنا دوبھر ہوجائے گا مگر ان کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اب تو آر ایس ایس کی حکومت ہے۔آر ایس ایس یا سنگھ پریوار والے کی تو دلی خواہش ہے کہ وہ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی جیسے لوگوں کو ملک میں پناہ ہی نہیں دیں بلکہ ان کی آؤ بھگت کریں اور ہر قسم کی آرام و آسائش فراہم کریں تاکہ ایسے بدقماش لوگ مسلمانوں کو گالیاں دیں اور اسلام اور قرآن کے خلاف مغلظات بکتے رہیں اور انھیں خوش کرتے رہیں۔

  مسٹر سدھارتا شنکر ہندستان کے چوٹی کے وکلاء میں تھے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ایک ایسی عورت جو ہمارے ملک میں غیر شہری (non-citizen) کے طور پر رہتی ہے اسے ہمارے ملکی معاملات میں حصہ لینے یا مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

  آج میں نے ’’ٹائمز ناؤ‘‘ نیوز چینل کو لکھ کر بھیجا ہے کہ تسلیم نسرین کی حوصلہ افزائی کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ تسلیمہ نسرین کی آؤ بھگت ملک  کے مفاد میں کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ ایک ایسی عورت جسے اپنے ملک میں حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اور نہ پناہ دی گئی یہاں حوصلہ افزائی اور پناہ دینے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ یہ بات مسلمانوں کے دوستوں اور دشمنوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔

 جب وہ کلکتہ میں تھی تو ایک عالمی چینل کے مسلمان صحافی نے اس سے مل کر توبہ تلا کرنے کی ترغیب دی تھی اور وہ راضی بھی ہوگئی تھی مگر رات کے دوستوں نے پھر اسے بہکا دیا۔ صبح سویرے جب یہ صاحب پہنچے تو اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کے دوست و احباب راضی نہیں ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے گھیرے میں ہے، اپنی زندگی جینے کیلئے اس نے جو کاروبار پھیلا رکھا ہے اس کی اب مجبوری بھی بن گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج بھی ہندستانی حکومت مسلمانوں کے ایک وفد کو اس سے بات چیت کا موقع دے تو وہ توبہ تلا پر آمادہ ہوسکتی ہے اور نئی زندگی جینے کا ارادہ کرسکتی ہے۔ بہر حال یہ کام ہو یا نہ ہو کیونکہ حکومت کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اسی حال میں رہے تاکہ حکمراں جماعت کا مقصد پورا ہوتا رہے۔ ملک کے عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ فدا حسین نے ہندوؤں کی دیوی، دیوتاؤں پر جو اپنے فن مصوری کے ذریعہ یلغار کی تھی کیا مسلمانوں نے پسند کیا تھا تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ مسلمانوں نے ہر گز پسند نہیں کیا۔ افسوس کہ فدا حسین کو ہندو دیوی دیوتاؤں پر یلغار کرنے کے باعث جلا وطن ہونا پڑا۔ اسلام، قرآن اور مسلمانوں پر نازیبا حملے کرنے کی وجہ سے ہمارا ملک تسلیمہ نسرین کو پناہ دے رہا ہے اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔  چہ بوالعجبی است۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔