مسلمان "کانگریس مکت” کب  ہوں گے؟

دھیرے دھیرے بھارت کانگریس مکت ہوتا جارہا ہے۔  اترپردیش میں  کانگریس سماجوادی پارٹی کے ساتھ چنائو لڑ کر مسلمانوں  کے درمیان پکڑ بنانا چاہتی ہے۔  سماجوادی پارٹی میں  جھگڑے کے دوران کئی سمجھ رکھنے والے ذمہ دار مسلمان  فکر مند و پریشان نظر آئے،  کہ یہ جھگڑا ختم نہیں  ہوا تو یوپی میں  کیا ہوگا؟  ایسی سنجیدگی مسلمانوں  کے آپسی اختلافات کو دور کرنے کو لے کرکبھی دکھائی نہیں  دی۔ سپا کے ساتھ کانگریس کا وفاق نہ ہونے پر بھی یہی سوال اب کیا ہوگا سامنے آیا۔ مسلمانوں  نے شاید ہی غور کیا ہو کہ سماجوادی پارٹی کانگریسی پالیسیوں  کے خلاف ڈاکٹر لوہیا اور  جے پی کی کوششوں  کے نتیجہ میں  وجود میں  آئی تھی۔ کانگریس مخالف ہونے کی وجہ سے ہی ملائم سنگھ یوپی میں  کامیاب ہوسکے۔ اسے سیاسی مجبوری کہئے یا سماجواد کی ناکامی کہ دو حریف پارٹیاں   متحد ہوکر چناوی میدان میں  ہیں ۔ کانگریس ہمیشہ اعلیٰ ذات والوں ،  برہمن وادیوں  اور پونجی پتیوں  کی پارٹی رہی ہے۔ انہیں  کے فائدے اور تسلط کیلئے اس نے ملک کے عوام کا استحصال  و استعمال کیا۔

برٹش پالیسی ’’ بانٹوں  اور راج کرو‘‘ کو آزاد بھارت میں  کانگریس نے باقی رکھا۔  اس نے ملک کے عوام کو اقلیت واکثریت میں  تقسیم کیا، حاشیہ پر رہ جانے والے کمزور طبقات کو ایس سی،  ایس ٹی زمرے میں  رکھ کر منوواد کو آگے بڑھایا۔ کامگار طبقات کو اوبی سی میں  شامل کرسماج میں  ذات برادریوں  کے ٹکرائو اور اختلاف کو جنم دیا۔ مسلمانوں  کی کچھ پیشہ ور قوموں  کو ریزرویشن کے دائرے میں  لاکر ان میں  ذات برادری کی تقسیم کو ہوا دی۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ مسلمان ہونے سے ان کی سماجی حیثیت پر کوئی فرق نہیں  پڑتا۔ جس طرح ہندوئوں  میں  کامگار برادریاں  یا ذاتیں  ہیں  اسی طرح مسلمانوں  میں  بھی ہیں  اور برادری کو لے کر اسی طرح کی عصبیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہیں  سے ذات کی سیاست کی ابتداء  ہوئی۔ رنگ،  زبان،  صنف،  علاقے اور مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرنے اور سب کے یکساں  حقوق کی بھارت کا آئین وکالت کرتا ہے۔ لیکن  کانگریس نے ایسی شرائط عائد کرادیں  جن سے اس زریں  اصول کی نفی ہوتی ہے آرٹیکل 341 کی دفعہ 2 اس کی واضح مثال ہے۔ آئین میں  اقلیتوں ،  دلتوں  کے حقوق کی الگ سے بات کرکے سماجی تقسیم پر مہر لگائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سماج میں  جو بھی حاشیہ پر ہے یا کمزور ہے اس کو اوپر اٹھانے کی بات ہوتی۔ تعلیم،  روز گار اور سرکار میں  اس کی بھاگیداری یقینی بنائی جاتی۔ ایسا ہوتا تو آج کا مگار طبقات میں  او بی سی بننے،  اوبی سی سے دلت بننے کی ناختم ہونے والی ہوڑ نہ لگی ہوتی اور نہ ہی مہینوں  مہینوں  تحریکیں  چلتیں ۔جن سے ملک کی معیشت و ملاک کو کروڑوں  روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

کانگریس نے جس سماجی تقسیم اور ٹکرائو کی بنیاد رکھی فسادات اسی کا نتیجہ ہیں ۔ ملک میں  تقریباً 65 ہزار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ان میں  آسام کا نیلی،  کو کرا جھار، میرٹھ کا ملیانہ و ہاشم پورہ، مرادآباد، بھاگلپور، جمشید پور، بھیونڈی،  بنارس،  بجنور، علیگڑھ،  سورت، احمد آباد، بمبئی وغیرہ بڑے فسادات شامل ہیں ۔کم و بیش سبھی فساد  ایسے علاقوں  میں  ہوئے جہاں  کے کاروبار میں  مسلمانوں  کی موجودگی قابل ذکر تھی یا پھر ان کی تعداد اتنی تھی کہ وہ انتخابی نتیجوں  کو متاثر کرسکتے تھے۔ فساد کے بعد دیکھا گیا کہ مسلمان اپنے مقامی کاروبار سے یا تو  باہر ہوگئے یا پھر وہ  مزدور بن گئے یا  وینڈر،  کاروبار دوسروں  کے ہاتھوں  میں  چلا گیا۔  ان فسادات پر انکوائری کمیٹیاں  اور کمیشن بنے۔  ان کی رپورٹوں  میں  گناہگاروں  کو نامزد  بھی کیا گیا۔  لیکن  سوال یہ ہے کہ آج تک ایک بھی مجرم کو سزا کیوں  نہیں  ملی؟ فسادات  پر کمیشن بنانے کے بجائے سی بی آئی سے انکوائری کیوں  نہیں  کرائی گئی؟ کیوں  مسلمانوں  کی جانب سے ریلیف کے ساتھ مجرموں  کی سزا دلانے کیلئے تحریک نہیں  چلائی گئی؟ پرسنل لاء کے سوال پر تو لاکھوں  لوگوں  کو اکٹھا  کر سڑکوں  پر اتارا گیا لیکن مسلمانوں  کے قاتلوں  کو سزا دلانے کیلئے ایسا کیوں  نہیں  ہوا ؟ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کا  الگ لگ سرکاریں  کئی مرتبہ معاوضہ دے چکیں  ہیں  لیکن سکھ آج تک فساد کو نہیں  بھولے۔ اس کے ذمہ داروں  کو سزا دلانے کیلئے اب بھی کوشاں  ہیں ۔ کیا ہم سکھوں  سے سیکھ نہیں  لے  سکتے۔

بابری مسجد کا مسئلہ کس نے پیدا کیا؟ کس نے اسے الجھا کر رکھا اور کیوں ؟ کس نے اس کا تالاکھلوایا اور کس نے اسے شہید کروایا ؟ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں  ہے۔ عام طور پر سننے میں  آتا ہے کہ مسلمان اس واقع کی وجہ سے کانگریس سے ناراض ہیں ۔ لیکن یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ۔  2004سے 2014 تک کانگریس مسلمانوں  کی بدولت ہی مرکز میں  حکومت میں  رہی۔  مسلمانوں  کے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں  جو یہ مانتے ہیں  کہ کانگریس نے سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن مسلمانوں  کی حالت کو سدھارنے کیلئے بنائے تھے۔ جسٹس سچر نے ایک سوال کے جواب میں  کہا تھا کہ سرکاریں  سبک دوش ججوں  سے اس طرح کے کام لیتی ہیں  میرے ذمہ جو کام کیا گیا تھا   وہ کرکے میں  نے سرکار کے حوالے کردیا۔مگر غور کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعہ ان غیرمسلموں  کو جواب دیا گیاہے جو کانگریس پر مسلمانوں  کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگاتے رہے ہیں ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمانوں  کی حالت دلتوں  سے بھی بدتر ہے۔ سچر کمیٹی کے نتیجوں  اور سفارشوں  پر عمل درآمد کیلئے پروفیسر کندرا کی قیادت میں  ایک اور کمیشن بنایا گیا۔ کانگریس کے دور حکومت میں  سچر کمیٹی پر تو  خوب بات ہوئی لیکن رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشوں  کو نظر انداز کردیا گیا۔ جبکہ مشرا نے مسلمانوں  کو پارلیمنٹ  سے اسمبلی تک ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی۔ دراصل کانگریس اپنے زمانے میں  مسلمانوں  کی بات خوب کرتی ہے۔ سرکار میں  کئی مسلمانوں  کو وزارت بھی دیتی ہے لیکن ان کو فائدہ پہچانے یا ان کی حالت سدھارنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں  اٹھاتی۔ اس کی وجہ سے مسلمان معاشی،  معاشرتی،  اخلاقی،  دینی،  تعلیمی اور سیاسی سطح پر نہ صرف زوال پذیر ہوئے ہیں  بلکہ حاشیہ پر کھڑے ہیں ۔

مسلمانوں  نے اپنی ذاتی کوشش،  گلف و دیگر ممالک میں  محنت مزدوری کے ذریعہ تعلیمی و اقتصادی سطح پر جو حیثیت بنائی کانگریس کی ہمیشہ اس پر بھی نظر رہی۔  دہشت گردی کے الزام میں  مسلم نوجوانوں  کی سب سے زیادہ گرفتاریاں  کانگریس کے زمانے میں   ہی ہوئیں ۔ گرفتار شدگان میں  انجینئر، سائنس اور جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنے والوں  کی تعداد زیادہ ہے۔ ان نوجوانوں  کا قیمتی وقت جیلوں  میں  برباد کردیا گیا۔  اس کے علاوہ کئی مسلم علاقوں  کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کیا گیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں  مسلم نوجوانوں   کی قابلیت ذمہ داری،  محنت ور لگن سے کام کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں  بڑی تعداد میں  نوکریاں  دے رہی تھیں ۔ وہاں  مسلمانوں  کی شبیہ کو خراب کیا گیا تاکہ وہ جگہیں  غیر مسلموں  کو مل سکیں ۔ جن دہشت گردانہ واقعات کے اصل مجرم  پکڑ لئے گئے ان کے شک و شبہ میں  گرفتار مسلم نوجوانوں  کو پھر بھی رہا نہیں  کیا گیا۔  دہشت گردی کے الزام میں  پکڑے گئے مسلم نوجوانوں  کی عدالتی مدو و پیروی  کیلئے تو ایک دو مسلم تنظیمیں  آگے آئیں  لیکن فرضی انکائونٹر پر کسی نے منھ نہیں  کھولا آخر کیوں ؟ جبکہ کئی غیرمسلموں  نے ان پر کانگریس سرکار کو گھیرا۔

کانگریس نے جسے چاہا اسے مسلمانوں  کا لیڈر بنا دیا۔ فطری طور پر زمین سے  جڑاکوئی شحص جیسے مسلمانوں  نے اپنا لیڈر  تسلیم کیا ہو آزادی کے بعد سے نظر نہیں  آتا۔ کانگریس نے اپنی ضرورت کے لحاظ سے مسلمانوں  کے درمیان لیڈر پیدا کئے یا ن پر تھوپے۔  اگر کسی نے مسلمانوں  کا اصل  لیڈر بننے کی کوشش کی تو اس کی جگہ کسی اور شخص یا تنظیم کو پروجیکٹ کردیا گیا۔ مسلمانوں  کی لیڈر شپ کا خواب دیکھنے والے کئی حضرات کو کانگریس نے ایسی گم نامی میں  پہنچا دیا، یا بدنام کردیا کہ آخری وقت میں  ان کے اپنے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ نہیں  تھے۔کانگریس نے مسلمانوں  میں  قیادت کا خلاء پیدا کر ایجنٹوں  کو فروغ دیا  اس کی وجہ سے مسلمانوں  میں  بے راہ روی عام ہوگئی آج حالت یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات سننے یا ماننے کو تیار نہیں ۔  اگر کوئی شخص یا تنظیم مسلمانوں  کی رہنمائی کی بات کرتا دکھائی دے  تو اس کے پیچھے کہیں  نہ کہیں  آپ کو کانگریس نظر آئے گی اور یہ شخص یا تنظیم اسی کی زبان بول رہا ہوگا۔  یہی وجہ ہے کہ مسلمان پستی،  زوال اور کسمپرسی کے شکار ہیں  لیکن مسلم تنظیمیں  اور شخصیات مستقل ترقی کی منازل طے کررہی ہیں ۔ امت کا گراف جس تیزی سے نیچے گررہا ہے امت کی تنظیموں  اور قائدین کا گراف اتنی ہی تیزی کے ساتھ اوپر اٹھ رہا ہے۔ ایسی حالت میں  مسلمانوں  کے حق کی بات کون کرے ؟

یہ وقت مایوس ہونے کا نہیں  بلکہ کانگریس کے سحر سے باہر نکلنے کا ہے۔  مسلمانوں  کو اپنے درمیان سے اپنی قیادت کو ابھارنے پر غور کرنا ہوگا۔ یہ سلسلہ گائوں  سے شروع ہو کر قصبہ، تحصیل،  ضلع،  ریاست اور ملک کی سطح تک پہنچے۔  یہ ضروری نہیں  کہ قائد کوئی ایک شخص ہو بلکہ کمیٹی بھی ہوسکتی ہے۔ کمیٹی میں  سبھی مسلکوں ،  تنظیموں  اور طبقوں  کی نمائندگی ہو۔ سارے سیاسی اور علاقے کی بھلائی کے فیصلے یہ کمیٹی لے۔  سب مل کر اس کے فیصلوں  کو لاگوں  کروائیں ۔  تبھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ قوم کا کھویا ہوا وقار واپس مل جائے۔ فی الحال یوپی کا الیکشن سرپر ہے۔ کیوں  نہ مل کر فیصلے لینے کی شروعات یہیں  سے  کی جائے ۔  کانگریس سیکولر ازم کے نام پر سپا کے ساتھ مل کر آپ کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔مظفر نگر بھلانے کی بات بھی کہی جا سکتی ہے۔  کئی چھوٹی پارٹیاں  مذہب، قوم کے نام پر جذباتی باتیں  کرکے آپ کے ووٹوں  کو برباد کرنا چاہئیں  گی۔آپ کو اپنے علاقے اور قوم کی بھلائی کو سامنے رکھ کر ووٹ کرنا ہے۔ اگر مظلوم ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں  تو ظالم ان کا کچھ نہیں  بگاڑ سکتا۔ آپ کو اپنی سمجھداری کا ثبوت دینا ہے ایسے شخص کو ہی چننا ہے جو آپ کے حق کیلئے آپ کے ساتھ کھڑا رہے۔  آپ اپنے علاقے کے لوگوں  کی میٹنگ بلا ئیے  اور اس  میں  لئے گئے فیصلہ کے مطابق  اپنے ووٹ کے حق کا استعمال ضرور کیجئے۔ (یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔