نبی کریم ﷺ کا غیر مسلموں  سے حسن سلوک

  نبی کریم ﷺ کی سیرت تمام عالم کے لیے نمونہ اور قابل تقلید ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی فرد باآسانی رہنمائی حاصل کرسکتا ہے آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر غیرمسلموں  کے ساتھ بھی مشفقانہ سلوک کا مظاہرہ کیا اور ہمیں  بھی اس کا درس دیا قرآن میں  مذکور ہے کہ ’’یقینا تمہارے لیے رسول ﷺ میں  عمدہ نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے وہ بکثرت اللہ کی یاد کرتا ہے‘‘۔ (احزاب:۲۱)

حضرت محمد ﷺ نے جہالت کے اندھیروں  میں  بھٹکتی ہوئی انسانیت کو فلاح کی راہ دکھائی اور آپ نے جو معاشرتی نظام پیش کیا اس میں  نہ صرف مسلمانوں  کو آپس میں  حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی بلکہ غیر مسلموں  سے بھی حسن معاشرت کی تعلیم دی۔ اور اس کا خود بھی عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔ غیر مسلم چاہے مہمان ہویا پھر ہمسایہ اور مسلم ریاست کا شہری ہوہر صورت میں  رسول ﷺ نے اس سے نیک برتاؤ، روادارانہ رویہ اپنانے کی تلقین و تعلیم دی ہے۔ یہاں  تک کہ اس کی جان و مال اور آبرو کا تحفظ مسلم حکومت اور معاشرے کی اہم ترین ذمہ داری قرار دی ہے۔

  وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورہ الانبیاء :108) کہ اے نبی ؐ ہم نے تجھے تمام جہانوں  کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اوراس حسن کے پیکر نے اپنے عملی نمونہ سے خود کو رحمۃ للعالمین ثابت بھی کیا۔ چنانچہ آپﷺ لوگوں  کے ایمان نہ لانے کی حالات میں  دکھ کرب اور درد محسوس کرتے تھے، اسی پر بس نہیں  بلکہ یہ فکراس قدر ستانے لگی تھی کہ محمدﷺ ان کے ایمان نہ لانے کی صورت میں  اپنی جان کو تلف نہ کردیں  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ قوم کے ہر فرد کے خیر خواہ اور ہمدرد تھے بہر صورت انہیں  دنیا اور آخرت میں  محفوظ مامون دیکھنا چاہتے تھے۔ قرآن میں  مذکور ہے۔

  فَلَعَلَّکَ بَاخِعْ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمہ اِنْ لَّمْ  یْؤ مِنْؤا  بِھٰذَا  الْحَدِیْثِ اَسَفًا (سورہ الکہف:7)

’’پس کیا تْو شدتِ غم کے باعث اْن کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کردے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں ‘‘

اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا:

 لَعَلَّکَ بَاخِع  نَّفْسَکَ اَلَّا یَکْؤنْؤا  مْؤ مِنِینَ  (سورۃالشعراء :4)

’’کہ کیا توْ اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں  ہوتے‘‘

یہود کی بدسلوکی

 غیر مسلم مکہ میں  مسلمانوں  کو اپنے آزار  اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے انھوں  نے محمدﷺ اور ان کے صحابہ کو طرح طرح کی اذیتیں  پہنچائیں  مگر آپ صبر وسکون حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ ادھر مدینہ میں  اسلام اور محمد ﷺ کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازشیں  اور اسلام کو داغ دار کرنے کی ناپاک کوششیں  اسلام کے پیغام امن کو رتی برابر زدنہ پہنچاسکیں۔ آپ نے دشمنوں  کی بدسلوکی اور بدتمیزی کواپنے حسن اخلاق سے ماند کردیا۔ ماخذ بیان کرتے ہیں ۔

عَن عَبْدِاللہِ بینِ عَمرٍو رَضِیَ االلہْ عَنہْمَا اَنَّ رَجْلًا سَاَلَ النَّبِیَّ: اَیّْ الاِسلَامِ خَیر؟ قَالَ:  تْطعِمْ الطَّعَامَ، وَ تَقرَْ السَّلَامَ عَلَی مَن عَرَفتَ وَ مَن لَم تَعرِف۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام )

  ’’حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں  کہ ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا تم کھانا کھلایا کرو اور ہر کسی کو سلام کیا کرو خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں  جانتے‘‘۔

   یہود آنحضور کی مخالفت میں  بہت بڑھے ہوئے تھے اور اپنے شاطر دماغوں  سے کوئی نہ کوئی طریقہ آپ یا مسلمانوں  کو تکلیف دینے کا ڈھونڈتے رہتے تھے۔ لیکن آنحضور نے ہمیشہ ان کو نرمی سے جواب دیا اور اپنے اصحاب کو بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔

 ماخذ بیان کرتے ہیں  کہ ایک یہودی گروہ آنحضور کی خدمت میں  آیا اور انہوں  نے شرارتاً اَلسَّلَامْ عَلَیکْم کی بجائے اَلسَّامْ عَلَیکِم’’یعنی تم پر ہلاکت ہو‘‘کہامجھے سمجھ لگ گئی میں  نے انہیں  کہا کہ ہلاکت تم پر ہو اور انہیں  ملامت کی لیکن رسول اللہ  نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ٹھہرو ‘‘اِنَ اللہَ یْحِبّْ الرِّفقَ فِی الاَمرِ کْلِّہ’’ کہ اللہ تعالی ہر معاملہ میں  نرمی پسند کرتا ہے۔ میں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ نے سنا نہیں  کہ انہوں  نے کیا کہا تھا؟ آپ  نے فرمایا میں  نے انہیں  جواب میں  کہہ دیا تھا کہ ’’وَعَلَیکْم‘‘  یعنی تم پر بھی۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الرفق فی الامر کلہ)

معاشرتی تعلقات

  محمدﷺ تمام نوع اانسانیت کے ساتھ مساوات، عدل وانصاف، حسن اخلاق کا معاملہ فرماتے تھے۔اور مسلم غیر مسلم سبھی کی خوشی، غم شریک ہوتے تھے۔اگر معاشرے یاسماج میں  کوئی شخص بیمار پڑتا تو اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور اس کے لیے مناسب دعا فرمایا کرتے تھے۔ ماخذ بتاتے ہیں

’’َانَّ غْلَامًا لِیَھْودَ،کَانَ یَخدْمْ النَّبِیَّ، فَمَرِضَ فََاتَاہْ النَّبِی ّْیَعْودْہْ‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب المرض، باب عیاد اۃلمشرک)

  ’’رسول کریم کا ایک خادم یہودی تھا  بیمار ہو گیا۔ رسول کریم  اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے‘‘۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مسلمانووں  کے دکھ درد میں  شریک ہوتے تھے وہیں  غیر مسلموں  کے ساتھ بھی ہمدردی، غم گساری کا رویہ اپناتے تھے۔ آپ ہمیشہ قوم کی باہم اتفاق، روادری کی طرف رہنمائی فرماتے تھے۔ماخذ میں  مذکور ہے۔

            عَن اَبِی ھْرَیرََ َنَّ رَسْولَ اللہِ ضَافَہْ ضَیف کَافِر،فََمَرَلَہْ رَسْولْ اللہِ بِشَاٍفَحْلِبَت فَشَرِبَ،ثْمَّ اْخرَی فَشَرِبَہْ،ثْمَّ ْخرَی فَشَرِبَہْ حَتَّی شَرِبَ حِلَابَ سَبعِ شِیَاہٍ،ثْمَّ َصبَحَ مِنَ الغَدِ فََسلَمَ،فََمَرَ لَہْ رَسْولْ اللہِ بِشَاٍ فَحْلِبَت فَشَرِبَ حِلَابَھَا،ثْمَّ َمَرَلہ بِاْخری فَلَم یَستَتِمَّھَا۔

(سنن الترمذی، کتاب الاطعمہ، باب ما جاء  ان المؤمن یاکل فی معی واحد)

 ’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم  نے ایک کافر کی مہمان نوازی کی۔نبی کریم  نے اس کے لئے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھر ایک دوسری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ بھی پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں  کا دودھ پی گیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر رسول کریم  نے بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ پس اس نے دودھ پی لیا پھر نبی کریم  نے اس کے لئے ایک اور بکری منگوائی مگر وہ اس کا دودھ مکمل طور پر نہ پی سکا‘‘۔

  یہ مثالیں  اس بات پر شاہد ناطق ہیں  کہ اسلام کی تعلیمات معاشرتی پہلو پر ہندو مسلم فرق کے بغیر رہنمائی کرتی ہیں  تاکہ معاشرے میں  امن سکون قائم رہے۔لوگ باہم ہمدرد، معاون بن سکیں کیونکہ اسی وقت معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا اور سماج کی جملہ برائیاں، بدعنوانیوں  کا قلعہ قمع ہوگا۔

دوران جنگ حسن سلوک

  حضورﷺنے غیر مسلموں  سے حسن سلوک رواداری اور ان کے حقوق کا تحفظ صرف عام حالات میں  ہی نہیں  کیا بلکہ جنگ کی حالت میں  بھی اس کا عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا جس میں  آج بھی قومیں  ہر طرح کی فریب دہی جائز سمجھتی ہیں  اور کوئی موقع ہاتھ سے دشمن کو پسپا کرنے کا نہیں  جانے دیتیں  اس جنگی حالت میں  بھی حضور نے حسن سلوک کی ایسی علیٰ مثالیں  قائم کیں  کہ انسانی عقل جنہیں  دیکھ کے دنگ رہ جاتی ہے چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں  نے پانی کے چشمہ پر حوض بنا کے وہاں  پڑاؤ ڈال لیا تو باوجود حالت جنگ کے جب دشمن پانی لینے آیا تو آپ نے فرمایا انہیں  پانی لے لینے دو۔ (السیرۃ النبویہ، لابن ہشام صفحہ424ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبد المطلب)

 اسی طرح حالت جنگ میں  فرمایا کہ کسی غیر مسلم کی لاش کا مثلہ نہ کیا جائے اسے باندھ کر نہ مارا جائے اسے جلایا نہ جائے وغیرہ وغیرہ یعنی اس کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہ کی جائے جو انسانیت سے ہٹی ہوئی ہو۔ وَلَا تَمثْلْوا:’’مثلہ نہ کرو‘‘ جب کہ عربوں  میں  مثلہ کی رسم عام تھی۔ یعنی جنگ میں  دشمن کی لاشوں  کے ناک کان وغیرہ کاٹ کر ان کامنہ بگاڑ دینا۔ لیکن آپ نے بڑی تاکیدی ہدایت اپنے پیروؤں  کو دی کہ وَلَا تَمثْلْوا کہ تم مثلہ نہ کرو۔اور اس طرح غیر مسلموں  کے مْردوں  کا بھی  احترام برقرار رکھا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الجھاد، باب وصیۃ الامام)

غیر مسلموں  سے رواداری

یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں  نے بھی آپﷺ کو غلبہ کی دعا تک دی ہے۔ ماخذ بیان کرتے ہیں  جب شام فتح ہوا تو مسلمانوں  نے شام کے لوگوں  سے جو عیسائی تھے ٹیکس وصول کیالیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد رومی سلطنت کی طرف سے پھر جنگ کا اندیشہ پیدا ہو گیا جس پر شام کے اسلامی امیر حضرت ابو عبیدہ  نے تمام وصول شدہ ٹیکس عیسائی آبادی کو واپس کر دیا اور کہا کہ جنگ کی وجہ سے جب ہم تمہارے حقوق ادا نہیں  کر سکتے تو ہمارے لئے جائز نہیں  کہ یہ ٹیکس اپنے پا س رکھیں۔ عیسائیوں  نے یہ دیکھ کر بے اختیار مسلمانوں  کو دعا دی اور کہا خدا کرے تم رومیوں  پر فتح پاؤ اور پھر اس ملک کے حاکم بنو۔ ( ابویوسف،کتاب الخراج، صفحہ 80تا82)

  جب حضور نے خیبر فتح کیاتویہود خیبر کی درخواست پر انہیں  کاشتکاری کی اجازت دی۔ جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو حضور نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو وصولی کے لیے بھیجا تو آپ نے اس وقت کی فصل جو کہ کھجوریں  تھیں  دو حصوں  میں  برابر تقسیم فرمائیں۔ اس پر انہوں  نے کہا کہ آپ نے ہمیں  ہمارے حصہ سے زیادہ تقسیم فرمارہے ہیں  کیوں  کہ ان کے اپنے اصول کے مطابق ان کا حصہ آدھا نہیں  بنتا تھا لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ نے فرمایا تمہیں  ضرور آدھی ہی ملیں  گی کیوں  کہ تم سے معاہدہ اسی طرح ہوا تھا۔ اس پر وہ بے اختیار بول اٹھے کہ ھٰذَا الحَقّْ وَبِہ تَقْومْ السَّمَاء ْ وَالارضْ’’ کہ یہی حق ہے اور اسی سے آسمان و زمین قائم ہیں ‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی المساقاۃ )

غیرمسلموں  کو دعا

  حضور کا غیر مسلموں  کے لیے دعائیں  کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپ کو ان سے سچی ہمدردی تھی اور آپ  کی حد درجہ خواہش تھی کہ خدا کا پیغام وہ سنیں  اور اس کے احکام وہ مانیں۔ اس لیے مسلسل ان کے لیے دعائیں  آپ کیا کرتے تھے اور بخشش مانگا کرتے تھے۔ ماخذ بیان کرتے ہیں

 حضرت ابو ہریرہ  سے مروی ہے کہ میں  اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ ایک دن میں  نے انہیں  تبلیغ کی تو انہوں  نے رسول اللہ کے بارہ میں  ناپسندیدہ باتیں  کیں۔ میں  رسول کریم  کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ  ! میں  اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا تھا تو وہ انکار کرتی تھیں۔ آج میں  نے دعوت دی تو انہوں  نے آپ کے متعلق نازیبا باتیں  کیں  جنہیں  میں  ناپسند کرتا ہوں۔ آپ اللہ سے دعا کریں  کہ وہ میری والدہ کو ہدایت دے۔ رسول کریم نے دعا کی کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے۔ میں  رسول کریم  کی دعا سے خوش خوش واپس ہوا۔ جب میں  گھر کے دروازہ کے پاس آیا تو وہ بند تھا۔ میری والدہ نے میرے قدموں  کی آواز سنی تو کہا اے ابو ہریرہ ادھر ہی ٹھہر جاؤ۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں  کہ میں  نے پانی کے گرنے کی آواز سنی۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں  کہ انہوں  نے غسل کیا اور کپڑے زیب تن کیے۔ دوپٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا۔ پھر انہوں  نے کہا اے ابو ہریرہ میں  گواہی دیتی ہوں  کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور میں  گواہی دیتی ہوں  کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی ھریر رضی اللہ عنہ)

  اسی طرح ماخذ میں  یہ بھی مذکور ہے کہ طفیل بن عمرو الدوسی اور ان کے ساتھی نبی کریم کی خدمت میں  حاضر ہوئے ا ور عرض کی۔یا رسول اللہ!دوس قبیلے نے ا سلام کی دعوت کا انکا رکر دیا ہے۔اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں۔ کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔نبی کریم  نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ!تْو دوس قبیلے کو ہدایت دے۔ (صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب الدعا للمشرکین، بالھزیم و زلزل)

   حضرت جابرسے مروی ہے کہ لوگوں  نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں  ثقیب کے تیروں  نے چھلنی کر چھوڑا ہے۔ اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں۔ آپ  نے اس طرح دعا فرمائی:۔

اَللّٰھْمَّ اھدِ ثَقِیفًا ’’کہ اے اللہ تْو ثقیف قبیلہ کو ہدایت دے‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب فی ثقیف و بنی حنیف )

 ماخذ بتاتے ہیں  کہ محمد ﷺ کی رواداری کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ آپ نے غیرمسلموں  کے حق میں  بارش کی دعا فرمائی۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودسے مروی ہے کہ جب قریش نے اسلام کی مخالفت کی اور اس کو قبول کرنے میں  تاخیر سے کام لیا تو اس وقت آنحضور نے ان کے خلاف بددعا کی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں  ان کو قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بھوک کی وجہ سے مرنے لگ گئے اور مردار اور ہڈیاں  کھانے تک نوبت آگئی۔ اس پر ابوسفیان آنحضور کی خدمتِ اقدس میں  حاضر ہوا اور کہا اے محمد ! آپ صلہ رحمی کرنے کا حکم لے کرآئے ہیں۔ آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے۔ ان کے واسطے اپنے مولا سے دعا کریں۔ اس پر آنحضور  نے دعا کی اور مسلسل سات دنوں  تک ابررحمت ان پر اس قدر برسا کہ لوگوں  نے بارش کی زیادتی کی وجہ تکلیف سے آپ کو آگاہ کیا اس پر آپ نے یہ دعا کی ‘‘اَلّٰلھْمَّ حَوالَینا وَلَاعَلَینَا۔’’کہ اے خدا! ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر نہ برسا۔‘‘ اس پر بادل آپ کے سر چھٹ گئے اور اردگرد کے علاقوں  کو سیراب کرنے لگے۔ (صحیح البخاری، کتاب الاستسقاء، باب اذا استشفع المشرکون بالمسلمین )

 آگے ماخذکا یہ بھی بیان ہے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ انہوں  نے رسول کریم  سے پوچھا کہ کیا آپ پر احدکے دن سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا ہے؟ اس پر آپ  نے فرمایا کہ مجھے جو تمہاری قوم کی طرف سے پہنچا وہ تو پہنچا ہی لیکن ان کی جانب سے سب سے تکلیف دہ عَرَفَہ کا دن تھاجب میں  ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے پاس گیا۔ جس چیز کا میں  نے ارادہ کیا ہوا تھا اس کا انہوں  نے جواب نہ دیا۔ میں  واپس اس حال میں  لوٹا کہ میرے چہرے پر غم کے آثار تھے۔ میں  مسلسل چلتا رہا یہاں  تک کہ قرن الثعالب مقام پر آپہنچا۔ آپ فرماتے ہیں  کہ اس جگہ آکرمیں  نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں  کہ ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے۔ اور اس میں  جبرئیل ہے۔ جبرئیل نے مجھے پکارا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں  قوم کی باتیں  سن لیں  اور ان کا ردعمل دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں  کا فرشتہ بھیجاہے کہ آپ ان (طائف والوں ) کے بارہ  میں  جو چاہیں  اس کو حکم دیں۔ چنانچہ پہاڑوں  کے فرشتے نے مجھے پکارا، مجھ پر سلامتی بھیجی اور عرض کی کہ آپ حکم فرمائیں۔ وہی ہوگا جو آپ چاہیں  گے۔ اگر آپ چاہیں  تو میں  ان پر دونوں  پہاڑ گرادوں۔ اس پر رسول کریم  نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ میں  امید کرتا ہوں  کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں  سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو کہ خدائے واحد کی عبادت کریں  گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں  ٹھہرائیں  گے۔(صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم آمین والملائکہ)

  حضرت انس بن حارث سے مروی ہے کہ ایک یہودی عورت نے نبی کریم کو بکری کا گوشت دیا جس میں  زہر ملا ہوا تھا۔ آپ نے اس میں  سے کچھ کھایا جب اس عورت کو حضور کے پاس لایا گیا تو صحابہ نے عرض کیا کَیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ فرمایا کہ نہیں۔ حضرت انس کہتے ہیں  کہ آپ کے تالو میں  اس زہر کا اثر ہمیشہ باقی رہا۔ (صحیح البخاری، کتاب الھبۃ وفقلھا، باب قبول الھدی من المشرکین )

غیر مسلموں  کے جنازہ کا احترام

عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں  کہ سھل بن حْنَیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو وہ دونوں  کھڑے ہوگئے جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں  میں  سے ہے تو ان دونوں  نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم  کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ (احتراماً) کھڑے ہوگئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا اس پر رسول کریم  نے فرمایا کہ اَلَیسَت نَفسًا ’’کیا وہ انسان نہیں  تھا‘‘؟ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجناز ۃیہودی )

  ماخذ بیان کرتے ہیں  کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم  نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا:-

 اے قریش کے گروہ تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں  نے کہا خیر کی۔ آپ ہمارے معزز بھائی ہیں  اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر رسول کریم  نے فرمایا ’’لَا تَثرِیبَ عَلَیکْمْ الیَومَ‘‘ کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ (ابن ہشام،السیر ۃالنبویہ، صفحہ733)

 ماخذ بتاتے ہیں  کہ عہد رسالت میں  جہاں  غیر مسلموں  کے معاشی، تعلیمی سیاسی حقوق محفوظ تھے، وہیں  انہیں  مذہبی آزادی کا پورا اختیار تھا،چنانچہ  جب نجران کے عیسائی مدینہ میں  حضرت رسول کریم کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت آپ مسجد نبوی میں  نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ لوگ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو وہ مسجدمیں  ہی نماز ادا کرنے لگے۔ اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں  نماز پڑھنے دو۔ انہوں  نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ (ابن ہشام،السیر النبویہ،صفحہ396 )

 موجودہ زمانے میں  ہم، بالخصوص ہندوستانی مسلمان تکثیری معاشرے میں  رہ رہے ہیں  یہاں  تمام اقوام و مذاہب کے لوگ موجود ہیں  اس تکثیریت میں  مسلمانوں  کا رویہ غیروں  کے ساتھ کیا ہونا چاہیے اور دعوت و تبلغ کے سلسلے میں  بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکمت کے دامن کو نہ چھوڑیں۔ نبی اکرم ﷺ نے مکہ اور مدینہ کے تکثیری معاشرے میں  غیرمسلموں  کے ساتھ جو رویہ اپنایا اس کا اندازہ سطور بالا سے ہوتا ہے۔ یقینا اسوہ رسول ہی وہ واحد راستہ ہے جسے اپنا کر دنیا کے ہر شعبہ میں  کامیابی اور کامرانی کی معراج کو چھوا جاسکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ محمد ﷺ نے حسن اخلاق و کردار، حسن تعلیم و تربیت کی تلقین کی ہے۔ مگر مسلم معاشرہ اخلاق کی بنیادی چیزوں  سے محروم ہے۔ حضور ﷺ  نے فرمایا میں  مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیاگیا ہوں۔ اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت، دعوت وتبلغ کا فریضہ حسن اخلاق سے ہی مکمل ہوا ہے۔ آپﷺ کے حسن اخلاق کی مثالیں  ماخذ میں  یہ بھی ملتی ہیں  کہ ثمامہ بن اثال کاواقعہ اسلام، ثمامہ اسلام کا بدترین دشمن تھا جس کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے بغیر سزا کے معاف کردیا۔ جس پر وہ مشرف بہ اسلام ہوگیا، اسی طرح اللہ کے رسول نے عکرمہ، صفوان بن امیہ اور ابوسفیان کے ساتھ بھی حسن اخلاق کا برتاؤ کیا۔ جو اس بات کی شاہد ہیں  کہ آپ ﷺ کے حسن سلوک سے کئی مشرکین عرب دائرہ اسلام میں د اخل ہوگئے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کردا ر و عمل میں  اسوہ رسول سے رہنمائی لے کروہ وسعت پیدا کریں  جو ہمارے نبیﷺ کی ذات بابرکت کی خاصہ تھی۔

تبصرے بند ہیں۔