ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک

ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک

اے اہلِ صفا سچ کی زباں بند ہے تاچند
اے اہلِ جفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک

اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں
کی جائے مہہ و نجم کی تسخیر کہاں تک

اے شہرِ انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک

ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک

تبصرے بند ہیں۔