برطانیہ کی طرف سے برصغیر کے تعلیمی ڈھانچے کی تباہی اور اس کا سائنسی زوال

ڈاکٹر احید حسن

تاریخ اسلام سے شناسائی رکھنے والوں اور یونیورسٹی کے طالب علم کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ برعظیم میں دین اسلام کی تجدید کے سرخیل اول مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر ہم جماعت تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب دینی اور دنیاوی تعلیم اکٹھے چل رہی تھی۔ ملا اور مسٹر پیدا کرنے والے ادارے الگ الگ نہیں تھے۔

برعظیم میں اسلام کی سیاسی تاریخ کو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز حکمرانوں نے مسخ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ جس کا بنیادی مقصد یہاں کے نوجوان طبقے کو اپنے شاندار ماضی سے کاٹنا تھا۔ اس سارے عمل کے لیے انگریزوں نے جدید تعلیمی اداروں اور لکھاریوں کا سہارا لیا۔

برعظیم کے نوجوانوں کو تاریخ سے لا تعلق رکھنے کا سلسلہ آزادی تک جاری رہا بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تاریخ کو مسخ کرنے کی حکمت عملی برقرار ہے۔ برعظیم عالمی دُنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا اس کی بنیادی وجہ یہاں پر موجود معاشی وسائل اور ترقی تھی۔ یہاں کی معاشی ترقی دراصل ہندوستان کے مقامی نظام تعلیم کے باعث تھی، جس سے یہاں امن تھا اور مذہب سے بالاتر ہوکر سماجی و معاشی مساوات تھی۔

یہاں پر صرف رسمی تعلیمی ادارے ہی نہیں تھے بلکہ غیر رسمی تعلیمی سسٹم بھی رائج تھا جس کی نگرانی یہاں کے بڑے بڑے بزرگان دین اور اولیاء اللہ کر رہے تھے۔

مقریزی نے کتاب الخلط میں اس خطے کی تعلیمی حالت پر بہت تفصیل سے لکھا ہے، ان کے مطابق بزمانہ محمد تغلق صرف دہلی میں ہی ایک ہزار درسگاہیں تھیں۔ معروف جرمن سکالر میکس مولر ہندوستان کے علوم کی انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی غرض سے یہاں آیا تو اپنے مشاہدے کے بعد یہ لکھا کہ ہندوستان پر انگریزی عمل داری سے قبل بنگال میں اسی ہزار درسگاہیں تھیں۔ جو اُس وقت کی آبادی کے مطابق ہر چار سو لوگوں کے لیے ایک درسگاہ تھی۔

اس قدر بڑے خطے میں مسلمان حکمران تعلیم کا وسیع ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہر مسلمان حاکم نے اپنے دور میں تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات اُٹھائے۔

الیگزینڈر ہملٹن کے مطابق اورنگزیب عالمگیر کی حکومت میں سندھ کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سروے کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں چار سو کالج موجود تھے جہاں جدید و قدیم علوم کی تعلیم دی جارہی تھی۔

موجودہ دور میں مسلم دور کی شاندار عمارات کو دیکھ کر تمام پیشہ وارانہ علوم کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ علم و ہنر کی روشنی میں کس طرح برصغیر میں عظیم تخلیقی صلاحیت سے فن تعمیر میں ترقی کی گئی تھی جو علمی جدوجہدکے بغیر بالکل ممکن نا تھی۔ جس میں فن تعمیر کی تفصیلی مہارت اورجیومیٹری، فزکس، کیمیسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے کے علوم شامل ہوتے ہیں۔ فن تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالا مار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص، لال قلعہ دہلی بھارت اور شاہی قلعہ لاہور پاکستان وغیرہ میں نظر آتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علوم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔

انگریزوں نے تعمیرات میں (ویل فاؤنڈیشن) بہترین مضبوط بنیاد کا آغاز انیسویں صدی اور (آپٹیکل الوژن) کا آغاز بیسویں صدی عیسوی میں کیا۔ جبکہ برصغیر میں یہ طریقہ تعمیر سترھویں صدی کے وسط میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹائل موزیک ایک فن ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی ہیں اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلو میٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے۔ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے ہیں ان کو بنانے کے لئے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم اور مکمل عبور ہونا چاہیے۔ یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے۔ جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے بعد بھی آج تک مدھم نہیں ہوئے۔ تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں۔ ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو ان تمام علوم کو سیکھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی کئی ڈگریا ں درکار ہوں گی۔
کثیر المذاہب کے حامل اس خطے میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جاتی تھی، ہندو، سکھ، پارسی یا دیگر مذاہب کے تمام افراد کے لیے تعلیمی ادارے موجود تھے اور مرکزی و مقامی حکومتیں ان کی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔  تعلیم کے فروغ کی خاطر یہاں کے مقامی افراد تعلیمی اداروں کے لیے زمین وقف کرتے تھے اور ان اداروں کی مالی امداد کرنا بھی فرض سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی سامراج کی ہندوستان پر حکومت سے قبل یہی سسٹم رائج تھا۔

جب دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹی تو حیات حافظ رحمت کے مطابق صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع میں پانچ ہزار علماء کرام درس و تدریس پر معمور تھے اور ان کی تنخواہیں حافظ الملک کی ریاست ادا کرتی تھی۔

مسلمان حاکموں نے یہاں کے تمام مدارس یا درسگاہوں میں دینی تعلیم اور سائنس کی تعلیم کو یکجا طور پر پڑھانے کا نظام وضع کیا تھا۔ مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر کی مثال ثبوت کے لیے کافی ہے۔

یہ تعلیمی ڈھانچہ ہی تھا کہ جب ہم جماعت مستقبل میں عملی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں تو ایک مجدد وقت ٹھہرا اور دوسرے نے سول انجینئرنگ کے شعبے میں ایسا شاہکار و عجوبہ تخلیق کر ڈالا جس کی داد دیے بغیر کوئی نہیں رہتا۔ تاج محل کی تعمیر میں سول انجینئرنگ سے لے کر فزکس، جیومیٹری اور ریاضی کے اُصولوں کا جس طرح استعمال ہوا ہے آج بھی لوگ انگشت بدندان ہیں۔
یہ فن تعمیر کا شاہکار یہاں کے تعلیمی نظام کے جامع ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔

متحدہ برصغیر پرایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی تسلط(1757ء) سے پہلے مسلم دور حکومت میں باقاعدہ ایک تعلیمی نظام موجود تھا۔ جہاں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اس کا انتظام بغیر فیس اور معاوضہ کے کیا جاتا تھا۔ اہل ثروت، امراء، نوجوانوں اور بادشاہوں کی طرف سے جائدادیں بغیر کسی ذاتی مفاد کے تعلیم کے لئے وقف کی جاتی تھی۔ صوبہ بنگال میں صوبہ کا چوتھائی حصہ صرف تعلیم کے لئے وقف تھاجس کے ٹھوس شواہد تاریخ میں موجود ہیں۔ اور مسٹر جیمس کرانٹ کے تخمینہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں تمام مدارس کو سرکاری خزانو ں سے امداد ہوتی تھی“۔ “اس زمانہ میں کیفیت یہ تھی کہ والیان ملک اور امراء تعلیم کی پوری سر پرستی کرتے تھے اس کے لئے جاگیریں دیتے اور جائیدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع میں جو دہلی کے قریب تر تھے پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے اور حافظ رحمت خاں (مرحوم) کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے“

اس تعلیمی نظام نے انسان دوست سماج پیدا کرنے میں مدد دی۔ جس میں اُس وقت کے مدارس، اساتذہ اور حکومت برابر کی حصہ دار ہے۔ جس کے باعث لاکھوں میل پر پھیلے اس خطے کو سیاسی طور پر مضبوطی سے جوڑنے میں مدد ملی۔ جنگ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور انگریز نے پورے ہندوستان میں اپنی حکومت کا جھنڈا لہرا دیا۔ اپنی سیاسی حکومت کی تقویت اور نظام مملکت کو اپنے تابع بنانے کے لیے تعلیمی ڈھانچہ کو از سرنو ترتیب دینے کا آغاز کیا۔
انگریزی سرکار کو خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اگر برصغیر میں رہی تو وہ ہماری حکومت کو گرانے میں دیر نہیں کریں گے۔ جس کے نتیجے میں انگریز نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت تمام تعلیم گاہوں کو گرا کر نام و نشان مٹا دیا۔ اور تمام تعلیمی جگہوں کو 1838ء میں سرکاری قبضہ میں لے لیا۔ کیونکہ کمپنی سرکار کا بڑا مقصد برصغیر کے قدرتی وسائل کو لوٹنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا تھا۔

فورٹ ولیم کالج، کلکتہ (قیام:۱۸۰۰ء) میں انگریز حکام کو مقامی زبانوں کی تدریس کرائی جاتی تھی لیکن یہ حاکمانہ اَنا کے سراسر خلاف تھا، اس لئے دونوں مکاتب ِفکر کا اس امر پر تو اتفاق تھا کہ موجود دفتری زبان فارسی کا توخاتمہ کردیا جائے اور انگریزی کو تدریجا ًاس کی جگہ پر لایاجائے۔ اختلاف اس امر میں تھا کہ کیا بدستور سابق علوم کوبھی فروغ دیا جائے یا مغربی انداز میں انگریزی زبان اور علوم کی تعلیم پر ہی اکتفا کرلیاجائے۔  اوّل الذکر کی قیادت ایچ ٹی پرنسپ (سیکرٹری ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ) کررہے تھے جبکہ انگریزی کے پرجوش حامی لارڈ ٹی بی میکالے تھے جو نہ صرف انگریزی علوم کے مؤید تھے بلکہ مشرقی علوم کو غایت درجہ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسی دوران 1823ء میں پبلک انسٹرکشن کی جنرل کمیٹی نے گورنر جنر ل ہند کو مشرقی ویورپی علوم کے حسین امتزاج کے متعلق رپورٹ ارسال کی،فروری 1824ء  کے ایک کمیٹی مراسلہ میں ہندو ومسلم علوم کو برقرار رکھنے پرزور دیا گیا، اسی سال کے مراسلہ اگست میں متوقع مقامی عصبیتوں کے پیش نظر اصلاحی کام میں حزم واحتیاط پر زور دیا گیا او ریہ قرار دیا گیا کہ پیچھے رہ جانے والے مشرقی علوم کو جدید علوم سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ مشرقی علوم فروغ پائیں اور جدید علوم سے بھی متمتع ہوں۔ انگریز سرکار اور عوام میں نفرتیں اور غلط فہمیاں بھی نہ اُبھریں۔ یہ مراسلہ اس وقت کی پبلک انسٹرکشن کمیٹی نے متفقہ دستخطوں کے ساتھ گورنر جنرل ہند کو پیش کیا۔ ان تمام دستاویزات کے نتیجے میں دو طرح کے نقطہ ہائے نظر پیدا ہوئے۔ ایک وہ جو مشرقی علوم کو برقرا ررکھ کراس میں سائنس اور جدید علوم کی پیوندکاری کے حق میں تھا، اور دوسرا وہ جو انگریزی زبان کو بنیاد بنا کر نیا تعلیمی نظام رائج کرنا چاہتا تھا۔

جناب لارڈ میکالے نے 2؍فروری 1835ء کو گورنر جنر ل ہند لارڈ ولیم بینٹک کو بیرک پور میں یہ یاد داشت پیش کی اور اس میں انہوں نے اپنے پیش نظر نظام تعلیم کا یہ مقصد قرا ردیا کہ

” تعلیماتِ عامہ کاکام حکومت برطانیہ کے بس کی بات نہیں، مقصود صرف ایک طبقہ پیدا کرنا ہے جو انگریزوں اور ان کی ہندوستانی رعایا کے درمیان ترجمان کاکام دے سکے،

”ہمیں اپنی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں اس بات کے لئے صَرف کرنی چاہئیں کہ ہم ہندوستان میں ایک ایسی کلاس (یا طبقے) کو پیدا کریں جو ہمارے  اور ہمارے زیرنگیں کروڑوں ہندوستانیوں کے بیچ  مترجّم کی ذمہ داریاں نباہ سکے۔ یہ کلاس (یا طبقہ ) ایسے افراد پر مشتمل ہوجو کہ رنگت اور جسمانی خدوخال میں ہندوستانی ہوں، لیکن مزاج، پسند ناپسند، نظریات، اخلاقیات اور عقل و دانش کے استعمال میں برطانوی  باشندوں جیسے  ہوں۔ “

(آج بھی یہ طبقہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی شکل میں خطے کے ممالک میں عوام کے سروں پر سوار ہے۔

زبان کو سکھانے کا واحد مقصد حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان واسطے اور  رابطے  کا کردار ادا کرنا تھا۔ برطانوی حکومت کو ہندوستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مطلوبہ بجٹ مہیا کرنے کو تیار تھے۔

ہندوستانیوں کا  انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا،  اُسے اپنی آزادی کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور اُسے برطانوی ظلم وجبر کے خلا ف اپنے قومی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنانا، اِس کا کریڈٹ خود اِن ہندوستانیوں کو دیا جانا چاہیے نا کہ برطانوی پالیسیوں کو۔

لارڈ میکالے کو جب اس ڈھانچے کو بدلنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو میکالے نے جو تعلیمی سفارشات مرتب کیں اس میں لکھا کہ اگر ہم اس قوم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا، یہاں کی ثقافتی روایات بھی تبدیل کرنا ہوں گی۔
اس نے کہا کہ مشرقی علوم پر مزید خرچ کرنا کارِ لاحاصل ہے!اور اسے برصغیر کے عوام میں انگریز کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کا عنصر قرار دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب تک برصغیر کے عوام اپنے ماضی اور مذہب سے وابستہ رہیں گے انگریز اقتدار خطرے میں رہے گا۔

اس یادداشت کا تذکرہ جوں ہی کالج کے طلبہ میں ہوا، ہندوستان کے روایتی نظام تعلیم ‘مدرسہ ‘ کے حق میں 30 ہزار افراد کے دستخطوں سے احتجاجی مراسلہ گورنر جنر ل کو ایک وفد نے پیش کیا جس کے بعد احتجاجی مراسلوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، سنسکرت کے حامیوں نے بھی مراسلے بھیجے۔

ڈبلیو ایچ میگناٹن نے اس یادداشت کی بے وقعتی کھولی اور اس پر نہایت تند وتیز تنقید کی، ایسے ہی کرنل موریسن نے السنہ شرقیہ کی تعلیمی اہمیت سے انکار کو فکری عجوبہ قرار دیا۔ جبکہ جناب ایچ ٹی پرنسپ نے بڑا ہی مدلل جوابی نوٹ تحریرکیا، جس میں انہوں نے قرار دیا کہ میکالے نے تشنہ معلومات کی بنا پر غلط اور دوراز کار نتائج اخذ کئے ہیں او راس کا رویہ انتہا پسندانہ اور جانبدارانہ ہے۔ ۱۰؍ فروری۱۸۳۵ء کے اس نوٹ میں پرنسپ نے اس یادداشت کا جامع جائزہ لیا ہے اور افسوسناک فروگذاشتوں پر کامیاب تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تمدنِ عرب کے مصنف گستاولی بان کے نزدیک ان کی اہمیت یہ ہے کہ پانچ سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیاں انہی علوم کے سہارے جیتی رہی ہیں۔ رابرٹ بریفالٹ کے قول کے مطابق مسلمانوں نے ہی عالم انسانیت پرجدید سائنسی تحقیقات کے دروازے کھولے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے ان اداروں کے لئے جو املاک وقف کی ہیں، انہیں انہی مقاصد میں صرف کرنا ضروری ہے،کیونکہ شرط الواقف کنص الشارع۔ یہ موقوفہ جائیدادیں لاکھوں روپے کی ہیں جنہیں مخیر لوگوں نے محض اغراضِ تعلیمی کے لئے وقف کیاہے۔ انہیں حکومت ‘اپنی صوابدید’ کے مطابق خرچ نہیں کرسکتی۔ کیا انگلستان کی یونیورسٹیوں کے لئے املاکِ موقوفہ حکومت ِانگلستان کسی اور مصرف میں لاسکتی ہے؟انہوں نے کہا کہ جن ہندوستانیوں کی کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا ہنگامہ برپاکیا گیا ہے، وہ جیومیٹری، ٹریگنومیٹری، ہٹن کا نصابِ ریاضیات،  فتاویٰ عالمگیری، کراکر، ہوپر اور برج کا الجبرا، مہابھارت جیسی درسی کتابیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میکالے کو کتب نصاب کی پوری طرح پڑتال کا موقع بھی نہیں ملا،ورنہ اسے بآسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ ان کتابوں کے ذریعے سے بڑی خوبی سے مشرقی علوم میںمفید مغربی علوم کا امتزاج کیاجارہا تھا اور اس تحریک میں کمیٹی کو صحیح الفکرہندوستانیوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس نظامِ کار میں ایسی بہ عجلت تبدیلی سے ”ہندوستانیوں کو ہم پر جو اعتماد ہے، اسے غیر معمولی ٹھیس پہنچے گی۔ ” پرنسپ نے اس پر خصوصی توجہ دلائی۔

اس طرح ایک انگریز ماہر نے خود یہ تسلیم کیا کہ ہندوستان کی مادری زبان میں نظام تعلیم تبدیل کئے بغیر جدید علوم سے آراستہ ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن آج کے نام نہاد دانشوروں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ پھر پرنسپ کے بقول فارسی اور عربی کے بارے میں مدرسہ میں جو حکمت ِعملی زیر کار تھی، اس کی رُو سے جدید علوم و فنون کو ان کتب ِنصاب میں موزوں پیوندکاری کے ذریعے سے بتدریج مطلوبہ سطح تک لانا تھا اور ان کے نزدیک عربی فارسی اور سنسکرت زبانیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے اسی طرح تھیں جس طرح لاطینی اور یونانی زبانیں یوروپین اقوام کیلئے تھیں۔ روس کی مثال پر تبصرہ کرتے ہوئے پرنسپ نے بڑی لاجواب بات کہی۔ ان کے خیال میں لارڈ میکالے کی روس کی بیرون ملکی زبان کی تعلیم سے ترقی کی مثال غیرمتعلق تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مثال صحیح جب تھی کہ روس میں جرمنی زبان ہی لازمی قرار دے دی جاتی اور وہاں کی زبانوں کو دیس نکالا دے دیاجاتا۔ ظاہر ہے کہ روس میں جرمنی یا کسی اور ملک کی زبان تدریس کا واحد ذریعہ کبھی نہیں رہی۔ اور اسی طرح ان کے نزدیک انگریزی نافذ کئے اور اسلامی و ہندی تعلیم کے ادارے ختم کیے بغیر خود ان کے اپنے نظام تعلیم میں جدید علوم شامل کرکے سائنسی ترقی ممکن تھی لیکن برطانوی حکومت نے اس کو سراسر نظر انداز کر دیا اور جان بوجھ کر ہندوستانیوں کو جاہل اور سائنس میں پسماندہ رکھنے کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کو نافذ کر دیا جو کسی طرح بھی ہندوستانیوں کے حق میں نہیں تھا۔ ان کے خیال میں چاہئے تو یہ تھا کہ متّفقین کی کمیٹیاں مقرر کی جاتیں اور ان لوگوں کو اعتماد میں لیا جاتا جن کے لئے ہم کوئی تعلیمی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ذریعہ تعلیم، نصاب میںمشرقی اور مغربی علوم کا حسین امتزاج، کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا بہتر طریق انہی کے مشورے سے طے پاتا۔ رعایا کی خوشنودی اور دل جوئی کرنے والی سلطنت ِبرطانیہ کے اراکین کو عجلت سے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور جو فیصلہ کیاجاچکا تھا، اسے کم از کم ملتوی کردیاجاتا لیکن ایسا بالکل نہیں کیا گیا۔

لارڈ میکالے کی تعلیمی یادداشت برصغیر پاک وہند کی تعلیمی تاریخ کی اہم ترین دستاویز ہے جو اپنے وقت ِتحریر سے اب تک ماہرین تعلیم کی شدید تنقید کا ہدف رہی ہے۔ اس کج نہاد خشت ِاوّل کے سبب برصغیر پاک وہند میں قومی تعلیمی زندگی کی عمارت صحیح طور پر تعمیر نہ ہوسکی۔ ہند کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بیٹنک کو ۲؍فروری ۱۸۳۵ء کو پیش کی جانے والی یہ یادداشت ہندوستان میں پہلی دفعہ ۱۸۵۵ء میں مدراس کی ‘ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن’ نے شائع کی، بعد میں برطانیہ کے ایک رسالہ نے اپنی ایک مکمل اشاعت اسی یادداشت کے لئے مخصوص کردی۔ اس یادداشت کا اصل نسخہ کھوجانے کی وجہ سے ایک مترجم  نے انڈیا آفس لائبریری لندن سے نکلوا کراس کا ترجمہ کیا۔ جس کا مکمل ترجمہ

http://magazine.mohaddis.com/shumara/399-september-2004/3765-bar-sagheer-nazam-taleem-mashraqi-uloom

پہ میسر ہے۔

تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا تب لارڈمیکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجراء کا راستہ ہمیشہ کے لیے ہموار کردیا۔

اور اس طرح لارڈ میکالے کوئی قومی نظامِ تعلیم برپا کرنے کی بجائے انگریزی زبان کی تدریس کا انتظام کرنے اور ہندوستانیوں کا ایک طبقہ تیار کرنے میںکامیاب ہوگئے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے تو بلا شبہ ہندوستانی ہے لیکن ذہن، ذوق اور اخلاق کے لحاظ سے انگریز! انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

لارڈ میکالے اگر انصاف پسندی کا تھوڑا سا بھی مظاہر ہ کرتے تو ان کی اس یادداشت سے قبل دونوں نکتہ ہائے نظر نے اپنے اپنے دلائل خوب اچھی طرح نکھار کر پیش کردیے تھے، اور وہ ان میں سے موزوں اور مبنی بر حقیقت نظامِ تعلیم کی بنیادوں کی اچھی طرح نشاندہی کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے مشرقی زبانوں میں موجود علوم کو توہمات کا پلندہ اور محض بیکار قرار دے کر ان کی گرانٹ بند کرنے کی سفارش کی اور عربی وسنسکرت کالجوں کو بند کرنے کا فیصلہ اس شدت سے دیا کہ اگر اسے نہیں مانا جاتا تو وہ اس تعلیمی مشن سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوں گے۔ لارڈ میکالے کی سنگین زیادتی یہ ہے کہ اس نے ماتحت رعایا کو حقیقی علوم سے ہم کنار کرنے کی بجائے وقتی بنیادوں پر حکومتی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسا طبقہ تیار کرنے کی پالیسی پر اصرار کیا جس سے حاکموں کا محض کام نکل سکے اور انہیں مقامی زبانوں کو سیکھنے کی بزعم خود ذلت سے بھی دو چار نہ ہونا پڑے یہ رویہ گویا رعایا کی تعلیمی ذمہ داریوں سے انحراف کے مترادف تھا۔ علاوہ ازیں انگریزوں نے علوم کے حصول کے لیے خود یونانی، لاطینی اور عربی زبان سے جو رویہ اپنایا کہ ان میں موجود علمی مواد کو اپنی زبان میں منتقل کر کے اسے تونگر بنایا، نہ کہ انگریزی زبان کو ہی خیر باد کہا، انصاف کا تقاضا تھا کہ مشرقی زبانوں کے ساتھ بھی یہی مثبت اور مصلحانہ رویہ اپنایا جاتا۔ اسی پس منظر میں میکالے کی اس رپورٹ کا مطالعہ کریں جس نے برصغیر کی تعلیمی قسمت کا فیصلہ زبانِ جبر سے تحریر کیا … (حافظ حسن مدنی)
ان سفارشات کو جب انگریز حکمرانوں نے حکمت عملی کی شکل دی تو پہلے یہاں پر مذہبی تعلیم کے اداروں کو سائنسی تعلیم سے الگ کیا۔ بعد میں انہی مذہبی اداروں کے ذریعے سے فرقہ واریت کا بیج بویا گیا۔

حکومت نے جب انگریزی تعلیم کو لازم قرار دیا اور انگریزی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کو سرکاری نوکریاں ملنے لگیں تو مذہبی اداروں کے فارغ التحصیل سرکاری نوکریوں کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے۔

حتیٰ کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جاتی تھی۔ حکومت کے اس رویے سے جہاں مذہب کی تعلیم دینے والے اساتذہ کا روزگار زندگی متاثر ہوا وہیں یہاں کے تعلیم یافتہ بھی بے یارو مددگار ہونے لگے۔

انگریز حاکموں نے یہ منظم سوچ بلکہ سازش کے تحت کیا جس لامحالہ مقصد اپنی حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔ جب مذہبی تعلیمی اداروں کی نگہداشت چھوڑی گئی تو یہ ادارے صرف رسمیت تک محدود ہوگئے جس سے انگریز کے منصوبے کو مزید کامیابی ملی۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی کچھ رسومات و معلومات تو اگلی نسل کو منتقل ہو گئیں لیکن مدارس سے فارغ التحصیل طلبا عملی سماجی زندگی سے کٹ گے۔ ان اداروں کے فارغ التحصیل معاشی کسمپرسی کا شکار ہوئے تو ان کے نظریات بھی کمزور پڑ گئے اور نوجوانوں کی اکثریت بیکار کی زندگی گزارنے لگی۔

اور جو مذہبی ادارے انگریزی سرپرستی میں چل رہے تھے وہ انہیں کے مفادات کی تکمیل کرنے میں معاون تھے۔ مذہب کی تعلیم کے ساتھ انگریز کا معاملہ یہ تھا تاہم انگریزی تعلیم یعنی کالجوں کے سسٹم کے ذریعے نوجوانوں کی اور کھیپ تیار کی جانے لگی۔
علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کیے گئے ہیں:

”ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کرسکیں اور زمانہٴ سلف کے دھوکہ دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق وکار آمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں؛ بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے“۔

ان اداروں کے ذریعے یہاں کی روز مرہ کی زبان، ثقافتی اقدار، تاریخ اور روایات کے مقابلے پر مغربی ثقافت و زبان کی ترویج کی جانے لگی جب کہ یہ ترقی اپنی مذہبی و ملکی روایات برقرار رکھ کر بھی کی جا سکتی تھی جیسا کہ دنیا کے باقی ممالک نے کی۔
نئی روشنی کے نام نہاد انگریز علم برداروں نے اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیس جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی۔

بہ قول ڈاکٹر احسن اقبال:

”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں،ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے؛ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لیے؛ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا“۔

مسٹر گبر ہارڈی مسٹر میکس مولر کے حوالہ سے لکھتا ہے؛

انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے۔ جہاں چار سو افراد کی آبادی کے لئے ایک مدرسہ کا اوسط ہوتا تھا۔ اسی طرح لڈلو نے تاریخ ہند میں لکھا ہے ”کہ ہر موضع (گاؤں)میں جو اپنی قدیم حالت میں قائم رہے جہاں بچے بلعموم لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ مگر جس جگہ ہم نے مثل بنگال کے پرانا نظام توڑ دیا ہے، وہاں سے گاؤں کا اسکول غائب ہو گیا ہے“

انڈین ریفارم سوسائٹی جو 1853ء سے انگلستان میں قائم تھی۔ اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے ” کہ ہندوؤں کے زمانہ میں ہر موضع میں ایک مدرسہ ہوتا تھا۔ ہم نے چونکہ دیہاتی میونسپل کمیٹیوں کو توڑ دیا۔ اس سے ان کے باشندے مدارس سے بھی محروم ہو گئے اور ہم نے ان کی جگہ کوئی چیز قائم نہیں کی“

1823ء میں آنر ایبل الفنسٹن اور آنر ایبل ایف وارڈن نے ایک متفقہ یاد داشت انگریزی سرکار کو پیش کی۔ جس میں واضح طور پر لکھا ہے“ کہ انصاف یہ ہے کہ ہم نے بدیسیوں کی ذہانت کے چشمے خشک کر دیے ہیں۔ ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس نے نہ صرف ان کی علمی ترقی کی ہمت افزائی کے تمام ذرائع کو ہٹا لیا ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ قوم کے اصلی علوم بھی گم ہو جانے اور

پہلے لوگوں کی ذہانت کی پیداوار فراموش ہو جانے کا اندیشہ ہے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کچھ کرنا چاہیے“۔
ان سرکاری کالجوں اور جامعات میں نصاب تعلیم اور مضامین کا یوں انتخاب کیا گیا تاکہ انگریزی مفادات کی تکمیل کے لیے مقامی افراد تیار کیے جائیں۔ نصابی کتابوں نے ہی یہاں کے نوجوان کے ذہن پر کاری ضرب لگائی نوآبادیاتی دور میں انگریز کی پالیسی کا تسلسل جاری رہا اور مابعد نوآبادیات میں انگریز کے قائم کردہ یہ ادارے پاکستان کو وراثت میں مل گئے۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریزوں کو اس بات میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی کہ برصغیر کے عوام جاہل رہیں یا ترقی کریں، سائنس و جدید علوم میں آگے رہیں یا پیچھے۔ بس انہیں ایک ہی بات سے دلچسپی تھی اور وہ یہ کہ اپنی مرضی کا ایک وفادار طبقہ پیدا کرکے اس کو تعلیم دینا اور حکومت کرنا۔ یہی وجہ تھی کہ پوری دنیا میں سائنس اور ایجادات میں ترقی ہوئی۔ اس سارے عرصے میں یورپ خود اور برطانیہ نے سائنس و جدید علوم میں زبردست ترقی کی لیکن برصغیر کو جان بوجھ کر جدید سائنس اور ایجادات سے دور رکھا گیا۔ اگر برصغیر کی عوام سے مخلص ہوتے تو وہ ضرور اس کی مادری زبان کو برقرار رکھ کر جدید سائنس کی اس میں پیوندکاری کرتے جیسا انہوں نے اپنے ملک میں کیا اور انگریزی کو سائنسی حوالے سے لاطینی یونانی سے آگے لاکر کھڑا کیا لیکن انگریزوں کو برصغیر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اگر انگریز برصغیر کے نظام تعلیم سے مخلص ہوتے تو اس کے اثرات لازمی سامنے آتے لیکن 1947ء میں انگریز قبضہ ختم ہونے کے وقت تک برصغیر کی شرح خواندگی صرف 21% تھی جب کہ مغل دور میں یہ 90% تھی۔ اس امر کی تصدیق انگریز دور میں پنجاب کے مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر لٹیز کے قول سے ہوتی ہے۔ ” کہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ زمانہ سابق (مغلیہ دور اقتدار) میں لکھے پڑھے لوگ زیادہ ہوتے تھے“۔

دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے؛ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا؛ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔

یوں ہم آزاد ٹھہرے سیاسی اداروں کی تشکیل میں اور معاشی منصوبہ بندیوں کو آگے بڑھانے میں۔ تاہم انگریز دور کا تعلیمی فلسفہ ہم نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنایا اور پھر اس خطے کی شاندار تاریخ سے نفرت، بیگانگی کو پاکستان کی نوجوان نسلوں میں منتقل کیا۔ یہاں پر بھی نصاب تعلیم کو بطور تلوار استعمال کیا گیا۔

آج بھی پاکستان میں دین اور دُنیا کے تعلیم کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والا نوجوان دین کی تعلیمات سے محروم ہے جبکہ دینی اداروں میں پڑھنے والے دنیاوی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔

اس نظام تعلیم کا بنیادی نقص ہی یہ رہا ہے کہ یہ بلند مقصد اور کسی اعلیٰ نصب العین کی محبت قوم میں پیدا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے سامنے اپنے شکم اور نفس سے زیادہ اہم مطالبات ہوتے ہی نہیں اور اس سے بلند کوئی اور مقصد نظر ہی نہیں آتا جس کے لئے قومی جدو جہد کی فکر پیدا کر سکیں۔ اس طرز تعلیم سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اسلام حجروں اور خانقاہوں میں مقید رہے اور تمدنی زندگی میں ہم سرکار کے آلہ کار بن کر کولہو کے بیل کی طرح جتے رہیں۔ اور ہمیں کل تک زندہ رکھنےکے لئے چارہ دے دیا جائے تاکہ ہم پر استحصالی نظام قائم رکھا جائے اورجاگیردار، سرمایہ دار طبقہ کےسامراجی مقاصد پورے ہوتے رہیں اور نوجوانوں کے اندر قومی ترقی کے لئے اجتماعی فکر بیدار نہ ہوسکے۔

حوالہ جات:

http://taleemizavia.com.pk/pakistan-colonialism-education-structure-system/

پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ نوآبادیات کا تسلسل

محمداکرم سومرو،اسسٹنٹ پروفیسر، انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی

https://www.aikrozan.com/indian-subcontinent-colonialism/
http://magazine.mohaddis.com/shumara/399-september-2004/3765-bar-sagheer-nazam-taleem-mashraqi-uloom
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1505643304%2005-Lord%20Mecholoy%20Ka%20Nizam%20Talim_MDU_05_May_16.html

تبصرے بند ہیں۔