دارالقضاء: عدالت نہیں شرعی ثالثی مصالحتی نظام

سید منصورآغا

7جولائی کی شام سے ملک بھرکے ٹی وی چینلز پر ایک گمراہ کن بحث ’دارالقضاء ‘ پر چل رہی ہے جس میں مسلم پرسنل بورڈ کے حوالے سے علماء پر یہ سنگین الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ ملک میں طالبانی یا آئی ایس آئی ایس جیسا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو آئین پر بھروسہ نہیں، اس لئے سرکاری عدالتوں کے بجائے اپنا متوازی شرعیعدالتی نظام قائم کررہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ آئندہ انتخابات سے پہلے مسلمانوں کومودی سرکار کے خلاف متحد کرنے کی سازش ہے۔

ٹی وی چینلز پر اس شوراورسبرامنیم سوامی جیسے لیڈروں کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ چناؤ کے پیش نظر مسلم مخالف لہراٹھانے کی ایک شاطرانہ  کوشش ہے، لیکن اس کے لئے آلہ کارہم خود ہی بن گئے۔ ملک میں جو ماحول بن گیا ہے، اس نے نام نہاد سیکولر لیڈروں کی زبانوں پرتالے ڈال دئے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم موجودہ سیاسی ماحول کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بصیرت اور تحمل سے اقدام کریں۔ اپنی دفاع کرتے ہوئیمحاذ آرائی سے بچیں۔

بورڈ سیکریٹری کا بیان:

اس ہنگامہ کے آغاز میں 8؍جولائی کے اخباروں میں پی ٹی آئی کے حوالہ سے یہ خبرہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈکے سینئر رکن جناب ظفریاب جیلانی نے لکھنؤ میں بتایا کہ بورڈ دہلی میں اپنے 15 جولائی کے اجلاس میں ملک کے ہرضلع میں دارالقضاء قائم کرنے کی تجویز پر غور کریگا۔ موصوف نے یہ بھی بتایاکہ اس وقت یوپی میں اسطرح کے چالیس ادارے چل رہے ہیں اور یہ کہ دارالقضا ء کا مقصد باہمی تنازعات کو شرعی ضوابط کی روشنی میں حل کرانا ہے  تاکہ فریقین کو عدالتوں میں نہ جانا پڑے۔ ‘جیلانی صاحب نے مزید بتایا کہ وکلاء، جج صاحبان اور عام لوگوں کو شرعی قوانین سے آگاہ کرانے کے لئے ’تفہیم شریعت کمیٹی‘ کو بھی متحرک کرنے پر غورہوگا۔ جس کاوجوود تقریبا 15سال قبل عمل میں آیا تھا۔‘ بہت خوب۔

جیلانی صاحب نے اگرچہ اس بیان میں ’شرعی عدالت‘ یا ’شرعی کورٹ‘ کی غیرحقیقی اصطلاح استعمال نہیں کی، لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ ماضی میں یہی اصطلاح استعمال کرتا رہا ہے اورجب بھی شور اٹھتا ہے تو صفائی پیش کی جاتی ہے کہ دارالقضاء معروف معنی میں عدالتی نظام نہیں بلکہ مشاورتی، مصالحتی یا ثالثی نظام ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ بورڈ ’شرعی کورٹ‘ کی اصطلاح کو یکسر ترک کردے اوردارالقضاء کو ’شرعی ثالثی ومصالحتی مراکز‘انگریزی میں اس کا متبادل (Dispute Resolution Sharia Center) کا نام دیاجائے، جس میں قضاۃ کا مفہوم بھی آ جاتا ہے۔

پرانی تجویز:

شہرشہر دارالقضا ء کے قیام کی تجویزنئی نہیں۔ امارت شرعیہ بہارواڑیسہ کے تحت اس طرح کے ادارے آزادی سے پہلے سے چل رہے ہیں۔  کوئی 25سال قبلکی بات ہے جب  محترم قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ نے اوکھلا(نئی دہلی) میں صحافیوں کی ایک نشست میں اس کے خد وخال بیان کئے تھے۔ میں بھی حاضرتھا۔ قومی آوازمیں شائع رپورٹ پڑھ کر قاضی صاحب نے یاد فرمایا۔ اپنی دعائوں سے نوازا۔ اس وقت شرعی قوانین کی تدوین کا کام چل رہا تھا۔ لیکن جب پروفیسرسید طاہر محمود کی نگرانی میں ان کو انگریزی میں عدالتی زبان میں منتقل کرنے کا مرحلہ آیا توتکنکی دشواریاں پیش آئیں۔ اردومسودہ پربھی نظرثانی کی ضرورت ہوئی۔ چنانچہ انگریزی میں ترجمانی کا کام رہ گیا۔ طویل وقفہ  کے بعد اب سپریم کورٹ کے سابق جج سیدشاہ محمد قادری (حیدرآباد) اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہرچند کہ عدالتی زبان میں شق وار تدوین کے اس کام کا محرک کچھ اور  تھا جس کا وقت گزرگیا، لیکن یہ بات بیشک اہم ہے کہ جب تک شرعی ضوابط شق وار جدید انداز میں قانونی زبان میں مرتب و مدون نہیں ہونگے، تب تک نہ توقاضی صاحب کو ٹھیک ٹھیک رہنمائی حاصل ہو سکے گی اورنہ تنازعات کے تصفیہ میں قاضیکی تجویز کی عدالتوں میں پوری طرح وقعت ہو سکے گی۔

قبل ازوقت کا شور:

ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ابھی جب کہ تیاری بھی پوری نہیں ہوئی، مالی وسائل بھی فراہم نہیں، اسکیم کی توسیع کا یہ ڈھنڈورہ کیوں پیٹا گیا؟موجودہ سیاسی ماحول سے بے خبر بورڈسے وابستہ بعض غیر مجاز کارکنان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کس کے کہنے سے یا کس کی اجازت سے دیدیا، جس سے یہ وبال شروع ہوا؟اس کے بعد لکھنؤ میں بورڈ کے سینئر رکن نے بورڈ کی میٹنگ کا ایجنڈہ پی ٹی آئی کو کیوں لیک کردیا؟ اگرناپختہ لوگوں نے ٹی وی پر آجانے کے شوق میں غلطی کی تھی تو جیلانی صاحب مسلم منافرت پھیلانے والے لیڈروں اور ٹی وی اینکرس کوایک نیا موضوع  فراہم کرنے میں آلہ کارکیسے بن گئے ؟

گمراہ کن پروپگنڈہ:

چنانچہ خبرآتے ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ کو تحلیل کردینے اورقانون شریعت پر حقوق نسواں وغیرہ کے حوالے سے گھٹیا تنقید وتبصریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کا ایک نمونہ 9جولائی کو’ زی نیوز‘ پر ’دیش ہت‘کے تحت اور’ا سی این این۔ نیوز18‘ پر’پرسنل لاء بورڈ شوکر‘ عنوان سے نہایت گمراہ کن اور زہرآلود کوریج ہے، جو یوٹیوب پر موجودہے۔ دارالقضا ء کے لئے مستعمل’شرعی عدالت‘ کی اصطلاح سے یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ ملکی عدالتوں کے متوازی کوئی نظام قائم کیا جارہا ہے اور آئین سے ٹکراؤ کا راستہ پیداکیا جارہاہے۔ یہ قطعی بے بنیاد پروپگنڈہ ہے جس میں شرارت، بدنیتی اور ناواقفیت سب شامل ہیں۔ اس بات پرسپریم کورٹ کی مہرلگ چکی ہے کہ دارالقضاء ہرگز مثل عدالت نہیں ہے۔

2005میں وشوکرما مدان نے دارالقضا ء اوردارالافتاء پرروک لگانے کے لئے مفاد عامہ کی  ایک اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جس پر 7جولائی 2014کوجسٹس سی کے پرساد اور جسٹس پی سی گھوس کی دورکنی بنچ نے ان دونوں اداروں کے وجود کواوران کے کام کاج کو جائز قراردیا تھا۔ مسلم فریق کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ دارلافتا ء کا فتویٰ قبول کرنا اختیاری ہے، لازم نہیں  ہے۔ دارالقضا ء کی حیثیت ایک ثالث یا ٹربیونل کی سی ہے جس میں فریقین کے ساتھ کوئی زورزبردستی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی رضامندی سے آتے ہیں اورقاضی صاحب شریعت کے روشنی میں ان کے قضیہ کا حل ان کو سجھادیتے ہیں۔ اکثرمعاملات میں دونوں فریق مطمئن گھرلوٹتے ہیں۔ قاضی صاحب کے مشورے اوررائے کو کوئی فریق مانے یا نہ مانے، یہ اس پر ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اگرچہ دارلقضا ء کو ’شرعی عدالت‘ یا ’شرعیہ کورٹ‘بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کے پاس عدالتوں جیسی  قوت نافذہ نہیں یعنی اپنے احکام کو نافذ کرنے کا اختیار نہیں۔ نہ تو نوٹس پر کسی کو اس کی مرضی کے بغیر حاضرکیا جا سکتا ہے اورناکسی فیصلے کوجبری لاگوکیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہ نظام عدالتی نظام کے متوازی نہیں ہے بلکہ اس کا معاون ہے۔ یہ کم خرچ اورکم وقت میں تنازعات کو حل کرنے کا اختیاری طریقہ ہے جس سے عدالتوں کا بوجھ کم ہوتا ہے۔

عرضی دعوے میں کیونکہ عمرانہ کیس میں دیوبند کے فتوے کا حوالہ تھا، جوقطعی ایک غیر متعلق شخص کودیا گیاتھا اورجس پر بڑاوبال اٹھا تھا، اس لئے عدالت نے فتوے کے اجراء کے لئے کچھ صائب مشورے ضرور دئے۔ مثلا یہ کہا اگرمعاملہ کسی فرد کا ذاتی ہے توکسی غیرمتعلق شخص کو اس کے بارے میں فتوٰی جاری کرنے سے پہلے اچھی طرح غورکرلیا جائے کہ کسی کے بنیادی حقوق پر زد تونہیں پڑے گی۔

فوجداری اورسول کیس:

ایک بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے نظام قانون میں مقدمات کو دوزمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک فوجداری اوردوسرے دیوانی۔ فوجداری کیس میں جیسے، قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا، عصمت دری وغیرہ میں ملزم سماج کا خطاکارہوتا ہے اس لئے اس کاتصفیہ گھر میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ کیس لامحالہ عدالت مجاز میں جائے گاتاکہ خطاکار کوسزامل سکے۔ لیکن دیوانی معاملا ت میں ضابطہ دیوانی (CPC) کی دفعہ 89 کے تحت فریقین اپنے معاملات باہم رضامندی سے، ثالث کی مدد سے یا لوک عدالت سے نمٹاسکتے ہیں۔ یہاں تک وہ اپنا قضیہ ملک سے باہرکسی دیگرملک کے قانون کے مطابق تحت بھی ثالث (ٹربیونل)سے طے کراسکتے ہیں۔ ہندکے مروجہ قانون میں ہرگزکوئی شق ایسی نہیں کہ مال کے کیس، جن کو دیوانی کیس کہتے ہیں، عدالت کے ذریعہ ہی فیصل ہوں۔ ان کا کم وقت میں اورکم خرچ میں حل یہی ہے کہ یا توفریقین آپس میں بیٹھ کر طے کر لیں، یا کسی کو ثالت بنالیں یا لوک عدالت یا پنچائت کی مدد لے لیں۔ وراثت، نکاح، طلاق، خلع، مہر اورنان نفقہ وغیرہ معاملات ایسے ہی ہیں اور دارالقضا ء میں عام طور سے ایسے ہی معاملات آتے ہیں۔ اس لئے ان کے وجودپر اور ان کے کام کے طریقے پر اعتراض کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ مزید یہ بھی کہ اگر معاملہ نہ سلجھے اورکوئی فریق چاہے تو اس کے لئے عدالت کا راستہ کھلا ہے۔

کھاپ پنچائت :

برادریوں کی کھاپ پنچائتوں اوردارالقضا ء میں بنیادی فرق ہے۔ دارالقضاء میں قاضی صدیوں سے تجربہ میں آئے ہوئے طے شدہ اصول وضوابط کے مطابق کاروائی کرتے ہیں۔ فوجداری معاملات میں ہاتھ نہیں ڈالتے۔ جب کہ کھاپ پنچایتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ فیصلہ اکثریت کی مرضی سے ہوجاتا ہے اوراس کو نافذ کرنے کے لئے سزاتک دیدی جاتی ہے۔ یہ غلط روش ہمارے پڑوسی مسلم ممالک میں بھی پائی جاتی اورخلاف شریعت فیصلے نافذ کردئے جاتے ہیں۔ ہندستان میں صدیوں سے مروج قضاۃ کے نظام میں ایک تل برابر بھی ایسی گمراہی نہیں پائی جاتی۔ اسی لئے بسا اوقات غریب غیرمسلم بھی اپنے تنازعات لے کر آجاتے ہیں اورمطمئن جاتے ہیں۔

عدالت میں جائیں :

اس وقت جو بحث اٹھائی جارہی ہے، وہ سراسر شاطری ہے اوراس میں کوئی قانونی پہلو نہیں ہے۔ اگردارالقضاء کسی لیڈر کی نظر میں غیرآئینی، غیرقانونی یا ہندستان کی سا  لمیت کیلئے خطرہ ہے تواس کو بیان بازی کے بجائے سپریم کورٹ کا رخ کرنا چاہئے۔ اوراس کے 2014 فیصلے کو چیلنج کرنا چاہئے۔ مگر ان کوتو 2019 کے لئے گرما گرم مواد چاہئے۔ اس کی فراہمی میں کسی مسلم شخصیت کاکام آجانا افسوسناک ہے، جو سیاسی بصیرت سے کا م لینے کے بجائے جھٹ کیمرے کے سامنے آجاتے  ہیں۔

دیگردارالقضا:

ہمیں یہ بھی مطلع رہنا چاہئے کہ مسلم پرسنل لابورڈ واحد تنظیم نہیں جس نے دارالقضا ء کے قیام لئے اقدام کیا ہو۔ امارت شرعیہ، جمعیۃ علماء ہند اوربعض دیگرتنظیموں نے بھی ایسے ادارے قائم کئے ہیں اورکرنے چاہئیں۔ یہ بحیثیت ہندستانی شہری ہماراقانونی حق ہے اور عدالتوں کا حال دیکھتے ہوئے وقت کی ضرورت بھی کہ جن میں سچائی کے ساتھ، کم وقت اورکم خرچ میں قضیہ حل ہوجائے۔ ملکی عدالتوں میں توچکرلگاتے لگاتے گھٹنے ٹوٹ جاتے ہیں، نسلیں گزرجاتی ہیں اوروکیلوں کی فیس بھرتے بھرتے انسان تباہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے سکھ بھائیوں میں بھی گرو دواروں میں ایسے نظام قائم کررکھے ہیں اور عیسائی بھائیوں نے بھی۔ دیگربرادریوں میں بھی اس طرح کی ترتیب ہے خصوصاً طلاق وغیرہ کے معاملات میں۔

آخری بات:

موجودہ ماحول میں مناسب ہوگا کہ بورڈ فی الحال کم از کم ایک ڈیرھ سال کے لئے اس ایجنڈے کو ملتوی رکھے، تاکہ مزید شر نہ پھیلا یا جاسکے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ پورے ملک میں ایک ساتھ ایسے مراکز قائم کئے جائیں۔ یہ کام مرحلہ وارہونا چاہئے اورکیونکہ زیادہ شکایات خواتین کی آتی ہیں تو یہ بھی مناسب ہوگا کہ خواتین کو بھی قضاۃ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ قاضی صاحب کی معاونت کرسکیں۔ ایک مظلوم خاتون جو بات خاتون قاضی کو بتاسکتی ہے، حیا اورشرم اسے مرد کے سامنے بیان کرنے سے روکے گی۔ اوربورڈ سے سوال یہ بھی پوچھا جائے گا اگرکسی دارالقضاء تین طلاق کا کیس آیا توسپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ہوگا یہ اس سے متضاد فیصلہ صادر کرنے پر قاضی قادر ہوگا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔