تحریرکب اور کیسے پُر اثر اور جاندار ہوتی ہے؟ 

عبدالعزیز

شاعر یا ادیب، صحافی یا قلمکار مختلف قسم کے ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریروں اور نگارشات کا مقصد بھی جدا جدا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے جو شہرت اور عزت کیلئے لکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں عزت و شہرت سے کہیں زیادہ مادی فائدہ مطلوب ہوتا ہے۔ وہ اس کیلئے سب کچھ لکھنے اور کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔ ان کا نہ کوئی اخلاق ہوتا ہے اور نہ وہ صاحب کردار ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ درباری اور خوشامدی ہوتے ہیں ۔ وظیفہ خوار ہوتے ہیں  ؎

غالبؔ وظیفہ خوار ہوں دو شاہ کو دعا … وہ دن گئے کہ کہتے تھے کہ نوکر نہیں ہوں میں

ایسے لوگ خود بھی کسی کے نوکر ہوتے ہیں اور ان کا قلم بھی بکا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد نہ قلم کی بے باکی، فکر کی حریت، اور نہ تخیل کی نشو و نما ہوتی ہے۔ وہ خود ہی پیٹ کے غلام ہوتے ہیں اور دوسروں کو شکم پروری کی تعلیم و تلقین کرتے ہیں ۔ان دو قسموں کے علاوہ ایک قسم ان کی ہوتی ہے جو نہ انھیں شہرت وعزت حاصل کرنے کی چاہ ہوتی ہے اور نہ دنیا کمانے پر مرتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو سنوارنے کیلئے سب کچھ نثار اور قربان کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔ نہ وہ وظیفہ خوار ہوتے ہیں نہ خوشامدی۔ وہ نہ شہرت و دولت کیلئے سر دھنتے ہیں اور نہ اپنی تحریر پر شاباشی کے قائل ہوتے ہیں ۔ ان کو ان کا مقصد عزیز ہوتا ہے جس کیلئے جیتے ہیں اور مرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ وہ دنیا سے برملا کہتے ہیں  ؎

نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر … نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر…………

خون دل و جگر سے میری نوا کی پرورش … ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو  (اقبالؒ)…………

وہ مقصد کو اصل حیات سمجھتے ہیں   ؎

 ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام … ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ … عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

 وہ اپنے مالک حقیقی کا گن گاتے ہیں ، بس ان کے دل میں ایک کی خوش نودی اور اسی کی ناراضگی کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ اپنے مالک کے امتحان و آزمائش میں کھرے اترتے ہیں اور مالک کے شکر گزار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں  ؎

جفائے دوست کی لذت کو غیر کیا جانے … ترا کرم کہ چنا مجھ کو امتحاں کے لئے

 شہادت حق کو وہ آزادیِ حیات کا سرمدی اصول سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’دنیا میں ہر چیز مرجاتی ہے کہ فانی ہے مگر خون شہادت کے ان قطروں کیلئے جو اپنے اندر حیاتِ الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں ، کبھی فنا نہیں ہے‘‘ ۔

جگرؔ ایسے قطروں کو مبارک کہتے ہیں  ؎

وہ قطرے کتنے مبارک ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں

 حدیث رسولؐ ہے کہ ’’عالم کے قلم کی سیاہی کی ایک بوند شہید کے خون کے قطرے سے افضل ہے‘‘۔

وہ عالم جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو صاحب عمل ہو جس کے اندر شہادت کی تمنا موجزن ہو۔ سید قطب شہیدؒ کے قلم کی سیاہی کی بوند اور ان کے خون شہادت کے قطرے کے اندر حیاتِ الٰہیہ کی روح کو واقعی کبھی فنا نہیں ۔ سید قطب شہید ؒ کے قلم کی سیاہی کے چند بوند جو صفحہ قرطاس پر ٹپکے ہیں ، ملاحظہ ہوں :

’’گزشتہ عہد کے ان لمحوں میں جب امت زبردست معرکہ آرائی میں مصروف تھی، مجھ پر رہ رہ کر ایک مایوس کن خیال طاری ہوتا تھا۔ میں ان لمحوں میں اپنے آپ سے پوچھتا: ’’تمہارے لکھنے سے کیا فائدہ؟ تمہارے جو مقالات مختلف رسائل و میگزین میں کثر سے شائع ہوتے ہیں ، ان سے کیا حاصل؟ کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ ایک ریوالور اور چند گولیاں لاؤ اور ان کے ذریعے ظالم و جابر اور سرکش حکمرانوں سے اپنا حساب چکا لو؟ تم دفتر میں بیٹھ کر چند لفظوں میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کردیتے ہو جس سے ان ظالم حکمرانوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ اس سے کیا فائدہ؟

  مجھے اعتراف ہے کہ ان لمحات میں مجھے سخت اذیت محسوس ہوتی تھی۔ میرا دل تاریکی اور مایوسی سے ڈوبا جاتا تھا۔ مجھے خود اپنے آپ سے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ شرمندگی جو کسی اہم کام کے نہ کرسکنے پر ہوتی ہے۔

 لیکن خوش قسمتی سے یہ لمحات زیادہ عرصے تک باقی نہ رہے اور مجھے تحریر کی قوت کا احساس ہونے لگا۔ جب میں ایسے لوگوں سے ملتا جنھوں نے میرا کوئی مضمون پڑھا ہوتا یا ان کے خطوط پاتا تو مجھے اس ’’ہتھیار‘‘ کے مفید اور کار آمد ہونے کا یقین ہونے لگتا۔ میں محسوس کرتا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بھی کسی چیز کی آس لگائے ہوئے ہیں ، وہ چیز اگر چہ ان کے دلوں میں زیادہ واضح نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس کیلئے تیاری کر رہے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں ۔

 مجھے احساس ہوتا کہ معرکہ آرائی کرنے والے حریت پسندوں کی تحریریں رائیگاں نہیں جاتی ہیں اس لئے کہ وہ سونے والوں کو بیدار کرتی ہیں ، سستی و تن آسانی کے دل دادہ لوگوں کو بر انگیختہ کرتی ہیں اور ایک عوامی لہر پیدا کرکے اسے ایک مخصوص رخ دیتی ہیں ۔ اگر چہ یہ سمت پوری طرح واضح اور روشن نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی قلم کی تاثیر سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے۔

  لیکن اس کے ساتھ ہی میں … مایوسی اور تاریکی کے ان لمحوں میں … اپنے نفس کو مورد الزام ٹھہراتا اور کہتا: ’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ تحریر کی قوت پر یقین کسی دوسرے کام سے عاجزی و بے بسی کا بہانہ ہو؟ کیا یہ انسان کا اپنے آپ سے مذاق نہیں ہے کہ کوتاہی اور بزدلی کی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے یہ سمجھنے لگے کہ وہ کچھ کر رہا ہے؟‘‘

 معرکہ آرائی کے گزشتہ پورے دور میں ، میں ان احساسات اور خیالات کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے صبح نو طلوع ہوئی، تاریک بادل چھٹ گئے، لوگ انقلاب کے بعد کھلی فضا میں سانس لینے لگے اور کشمکش کا یہ زمانہ تاریخ کے دفتر میں ایک یادگار کی حیثیت سے محفوظ ہوگیا۔

  آج میرے دل میں یہ بات آئی کہ اس بھیانک دور میں ، میں نے جو مضامین لکھے تھے ان کا دوبارہ مطالعہ کروں ، انھیں پڑھ کر مجھے انتہائی حیرت اچنبھے کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریر کی قوت عجیب و غٖریب ہوتی ہے، وہ خواب جو میں نے اس زمانے میں دیکھے تھے، اب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں ۔ وہ پیش گوئیاں جو میں نے اس زمانے میں کی تھیں ، لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہوچکی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے گویا آسمان کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور معرکہ آرائی کرنے والے حریت پسند پورے انہماک کے ساتھ یہ تحریریں رقم کر رہے تھے، ورنہ کون تصدیق کرے گا… یہاں تک کہ میں بھی نہیں … کہ میں نے ایک سال سے زائد عرصہ قبل یہ جملے تحریر کئے تھے:

 ’’اس مرتبہ ہم نے محکم اور یقینی آغاز کیا ہے، اس لئے کہ ہمارا رخ صحیح ہے۔ دو کسان اپنے پاکیزہ خون میں لت پت ڈھیر ہوگئے ان میں سے ایک کفور نجم میں محمد علی کی تلاشی کے دوران اور دوسرا بہوت میں بدراوی کی تلاش کے دوران‘‘۔

 ’’اس مرتبہ ان دو کسانوں کا خون کسی خاندانی انتقام میں بہا ہے نہ وہ کسی انتخابی مہم کی بھینٹ چڑھے ہیں جیسا کہ عموماً پولس رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے بلکہ انھوں نے زمین کے معرکے میں قربانی دی ہے، وہ پاک زمین جس کو لاکھوں کروڑوں انسانوں نے اپنے پسینے اور آنسوؤں سے سینچا مگر انھیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ چنانچہ اب انھوں نے اسے اپنے خون سے سیراب کرنا شروع کر دیا ہے، اس مرتبہ انھیں پھل حاصل ہوکر رہے گا۔ اس لئے کہ تاریخ میں کبھی خون کے بیج نے دھوکہ نہیں دیااور نہ کبھی آئندہ دے گا‘‘۔

  ’’زمین کے مقدس معرکہ میں یہ دونوں پہلے شہید ہیں جنھیں مجرم ہاتھوں نے ہلاک کیا ہے۔ یقینا ان کے بعد بھی کچھ لوگوں کو قربانی دینی پڑے گی، اس لئے کہ یہ مجنون زمین دار ہرگز برداشت نہ کرے گاکہ غلام اپنا سر اٹھائیں اور آقاؤں کے تئیں بے ادبی سے پیش آئیں ۔ اس لئے وہ ناحق خون بہانے سے باز نہ آئے گا اور اب ہم بھی سرفروشی پر آمادہ ہوگئے ہیں !‘‘

  اس پاک زمین کی ملکیت اس کے حقیقی مالکوں کو واپس کر دی گئی ہے۔ ملکیت کی آسمانی دستاویز لکھ دی گئی ہے جسے اب فسخ نہیں کیا جاسکتا۔ اسے ایسی روشنائی سے لکھا گیا ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتی… خون کی روشنائی سے … اگر اب بھی کوئی زمین اس کے حقیقی مالک کو واپس نہیں ہوئی ہے تو آج سے اسے غصب کی ہوئی اور جبراً لی ہوئی سمجھا جائے گا اور جبر عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا۔

  یہ احمق زمین دار روزانہ غصب کی ہوئی زمین سے دست برداری کی دستاویز لکھ رہے ہیں ۔ اس گولی کی صورت میں جو کسی شہید کا سینہ چاک کر دیتی ہے یا اس فائر کی شکل میں جو کسی بہادر اور جواں مرد کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے، لیکن عن قریب یہی گولی زمین سے ان کی دستبرداری اور دوسرے محروم لوگوں کی ملکیت کی دستاویز ثابت ہوگی‘‘۔

 ظلم و جور کی رات بہت لمبی ہوگئی ۔ صبح نو کا انتظار بہت ہوچکا۔ وہ دیکھو؛ سحر طلوع ہورہی ہے ، اس کی پچھلی کرنیں چمکنے لگی ہیں ، خون کے ان پاکیزہ قطروں میں جنھیں بے گناہ بہایا گیا ہے۔ یہ قطرے کسی انتخابی مہم میں بہائے گئے خون کے نہیں ہیں بلکہ یہ انتہائی قیمتی اور قابل قدر ہیں ۔ اسلئے کہ ان کی پشت پر ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر عرصہ گزر گیا، صدیاں بیت گئیں ، جسے کسی مضبوط سہارے اور ناقابل تردید دلیل کی ضرورت تھی، یہ ازلی دلی اب کفور نجم اور بہوت میں نقش ہوگئی ہے، جسے محو نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔