حکومت  بذریعہ پولیس یا بدست خود؟

حفیظ نعمانی

اترپردیش کی حکومت سنبھالے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک مہینہ ہوا ہے۔ اور پولیس کے سب سے بڑے افسر ڈی جی پی سلکھان سنگھ کو صرف ایک دن قانون ہاتھ میں لینے کا ایک بدترین واقعہ پیش آگیا جس میں سب سے بڑا نشانہ سہارنپور کے ایس ایس پی بنے اور جس کی زد میں کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دونوں آگئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسٹر سلکھان سنگھ نے عہد ہ کا چارج لیتے ہوئے پہلا حکم یہ دیا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی واقعہ برداشت نہیں کیا جائے گا اور جرم کرنے والا چاہے کتنا ہی بڑا ہو بخشا نہیں جائے گا۔

ہمارا خیال ہے کہ سہارنپور کے اس بدترین واقعہ کودو معاملات سے مدد ملی ہے ایک تو شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ مسٹر گائکواڑ نے ملک کی ہوائی سروس ایئر انڈیا کے ایک افسر کو اس کی فرض شناسی کی یہ سزا دی کہ اس کے ۲۵ جوتے گن کر مارے اور آخر تک یہی کہا کہ ہاں میں نے مارے اور جب ایئر انڈیا اور دوسری ہوائی کمپنی نے گائکواڑپر کسی بھی ہوائی سفر کی پابندی لگا دی، تو پوری شیو سینا اور اس کے دبائو میں پوری حکومت گائکواڑ کے ساتھ ہوگئی اور اس کی پابندی کو ختم کرایا۔ اس کی خاص بات ہمارے نزدیک شیو سینا کے دوسرے نمبر کے لیڈر کا بار بار یہ کہنا کہ اس افسر کی حیثیت ہی کیا تھی۔ یعنی اگر کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ہے تو وہ بادشاہ یا ملک کا مالک ہے۔

اور دوسرا واقعہ راجستھان کا ہے جہاں چار سال سے بی جے پی حکومت ہے وہاں مویشی میلہ سے میوات کے کئی مسلمان لڑکے گائیں خرید کر لے جارہے تھے جو دودھ کی ڈیری چلاتے ہیں اور وہ دودھ کا ہی کاروبار کرتے ہیں ۔ اَلور میں ان کی گاڑیوں کو روکا اور ا ن پر الزام لگایا کہ وہ گائیں اسمگل کرکے لے جارہے ہیں جبکہ ایک کوتو اتنا مارا کہ اس کی موت ہوگئی۔ اس کی موت کے الزام میں جن غنڈوں کو پکڑا گیا ان میں سے ایک کو پولیس عدالت یا کہیں لے جارہی تھی کہ ایک پیلے کپڑے پہنے ہوئے عورت نے روکا اور اس کو مبارک باد دی اور کہا کہ تم تو بھگت سنگھ کی طرح عظیم ہوتم نے گائے ماتا کو بچانے کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ ا ور موجود لوگوں سے کہا کہ اس پر الزام غلط ہے جو مرا ہے وہ دہشت سے مر گیا ہے۔

یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نام کمل ہے اور وہ گئو رکشکوں کے غنڈہ لڑکوں سے تعلق رکھتی ہے اور خود بھی اپنے کو گئو رکشک کہتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جو تین سپاہی اس غنڈہ کو لے جارہے تھے وہ اس وقت کھڑے رہے جب تو وہ بک بک کرتی اور اس کے بعد جب این ڈی ٹی وی ا نڈیا کی رپورٹر نے اس سے بات کی تو اس نے اور زیادہ کھل کر ان کی حمایت کی۔ تفصیل بہت زیادہ ہے ذکر اس لیے بیکار ہے کہ یکم اپریل کا یہ واقعہ ہے ،اور اب تک درجنوں بار اسے بھی دکھایاجا چکا ہے۔اور اس حرافہ اوررپورٹر کی گفتگو کو بھی ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت نے نہ اس عورت کو گرفتار کیا ہے اور نہ ان پولیس والوں کو معطل کیا ہے۔

اور سہارنپور کے اس دیہات میں جہاں امبیڈکر جینتی کے موقع پر شوبھا یاترا نکالی جاتی تھی جو سات برس سے بند ہے۔ اس کی اجازت ایس ایس پی نے دی تھی۔ اور ایس ایس پی وہاں تھے جہاں سے یاترا نکالنے کی مانگ تھی اور ان کے گھر پر سہارنپور کے ممبر پا رلیمنٹ راگھو لکھن پال سیکڑوں غنڈوں کی قیادت کررہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ اس ایس ایس پی کو ہٹایا جائے گا اور دوسرا ایس ایس پی آئے گا اور وہ شوبھا یاترا نکلوائے گا۔ ان کا لہجہ جیسا تھا ایسا وزیر کا بھی نہیں ہوتا۔ ایس ایس پی ضلع کا وزیر داخلہ ہوتا ہے۔ لیکن شری لکھن پال کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کوئی ڈرائیور یا مالی یا جھاڑو لگانے اور دفتر صاف کرنے والے کا ذکر کررہے ہیں اور ہم وہاں کھڑے ایس ایس پی کی صورت دیکھ رہے تھے جو کوشش کرکے مکرنا چاہ رہے تھے اور اپنے گھر کی تباہی اور بیوی بچوں کی جان بچانے کی فریاد سن کر بھی افسرانہ تیور اس لیے نہیں دکھا رہے تھے کہ انہیں شیو سینا لیڈر کے وہ تیکھے حملے یاد تھے کہ اس کی اوقات ہی کیا ہے؟ یعنی وہ ملازم ہے۔ ایس ایس پی کو گھر سے دور ہوتے ہوئے ایک ایک بات معلوم ہوچکی تھی ان کا گھر اور دفتر سب برباد کردیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کے ایک ممبر کے ساتھ دو  ایم ایل اے بھی تھے۔ جو کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی گاڑیاں توڑ چکے تھے اور ان کے سب سے بڑے ا فسروں کو بھی بے عزت کرچکے تھے۔

خبروں کے مطابق ایس ایس پی کی کوٹھی پر پانچ گھنٹہ غنڈوں کا قبضہ رہا اور اندر صرف ان کی پتنی اور دو چھوٹے بچے تھے اور وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبران غنڈوں کی قیادت کررہے تھے۔ انھوں نے کوٹھی میں لگے کیمرے تو بیشک توڑ دیئے لیکن ٹی وی کے تمام کیمروں میں سب کے چہرے ہیں اب اگر ا ترپردیش کو بھی راجستھان اور مہاراشٹر کی طرح گئو رکشک غنڈوں کے حوالے کرنا ہے اورضلع کے ان افسروں کے بیوی بچے اور ان کی زندگی اور عزت بھی ٹھوکروں سے مارنا ہے تو یوگی جی کو اختیار ہے کہ وہ پولیس کو بیرکوں میں بھیج دیں اور گئو رکشکوں کے حوالے صوبہ کو کردیں ۔ ورنہ زبان سے قانون کی حکومت کے بجائے عمل سے قانون کی حکومت کرکے راجستھان اور مہاراشٹر کو دکھائیں کہ دیکھو حکومت ایسے کی جاتی ہے؟

نئے ڈی جی پی مسٹر سلکھان سنگھ جانتے ہیں کہ حکومت پارٹی کی ہوتی ہے مگر ہر کام پولیس کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اب تک یہ تو ہر نئی گورنمنٹ کے آنے پر ہوتا تھا کہ تھانوں ا ور دوسرے سرکاری محکموں میں کرسیوں پر چہرے بدل جاتے تھے اور پولیس کے بڑے چھوٹے افسر حکمراں پارٹی کے کارکنوں کی بات توجہ سے سننے لگتے تھے۔ لیکن یہ کہیں نہیں ہوا تھا کہ پولیس کے افسروں اور سپاہیوں کو چوڑیاں پہنا کر بٹھادیا جائے اور اپنے کو ہی حکومت سمجھنے لگیں ۔ یہ تحفہ بی جے پی والے دے رہے ہیں لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اترپردیش اور دوسرے صوبوں میں ہی نہیں مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت رہی ہے اور پھر دس برس کے بعد مرکز میں اور ۱۵ برس کے بعد اترپردیش میں واپسی ہوئی ہے۔ اس بار تو انہیں یہ سوچ کر حکومت کرنا چاہیے کہ گذری ہوئی کوئی حکومت وہ نہ کرسکی ہو جو وہ کررہے ہیں ؟

2014میں شری نریندر مودی نے حکومت بنانے سے پہلے جو کچھ بھی کہا تھا آج انھیں یاد کرنا چاہیے۔ اگر انھوں نے وہ سب کیا ہوتا جو کہا تھا تو ہر کانگریس کا وزیر اور سونیا گاندھی کا ہر رشتہ دار جیل میں ہوتا۔ مودی جی نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کے ا ندر جتنے داغی ممبر ہیں سب ایک سال کے اندر جیل میں ہوں گے اور دودھ کے دھلے پارلیمنٹ کی عزت بڑھائیں گے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ انھوں نے نہ پرایوں پر ہاتھ ڈالا نہ اپنوں پر اور پارلیمنٹ کے سنجیدہ اور محترم ممبروں کو گائکواڑ اور لکھن پال بنادیا۔ اگر کسی کو کسی سے شکایت ہے تو وہ پولیس سے کہے خود پولیس نہ بنے ۔اگر خود پولیس بننے کی کوشش کی تو پھر بغاوت ہوجائے گی جو پولیس کرے گی اور پولیس راج ہوجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔