تخصص فی الافتاء کے دوستوں کے لیے چند گزارشات

شادمحمدشاد

حضرت مولانا شیخ ابوالحسن علی ندوی ؒ علوم دینیہ کے طلبہ کو فرماتے تھے کہ کامیابی  کے لیے دو چیزیں بنیادی ہیں، اگر آپ اپنے اندر یہ دو چیزیں پیدا کرلیں گے تو اس دور میں بھی آپ کے قدران پیدا ہوسکتے ہیں:

1۔ اخلاص:

یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے حسن نیت کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنا۔

2۔ اختصاص:

یعنی کسی فن میں مہارت اور بصیرت پیدا کرنا۔

ہم اپنے اکابر اور اساتذہ سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ دورہ حدیث کے بعدخودکوکافی وشافی سمجھ کرتحصیلِ علم(خواہ دینی ہو یا عصری) سے خود کو مستغنی سمجھنا  بےوقوفی ہے، اور کسی فن میں تخصص کرکے مہارت پیدا کرنا ضروری ہے۔

یوں تو آج کل کئی علوم و فنون میں تخصصات کرائے جاتے ہیں، لیکن زیادہ مشہور”تخصص فی الافتاء“ یا ”تخصص فی الفقہ“ہے۔ ہم اپنے دوستوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ کی دلچسپی ہے تو تخصص فی الافتاء ضرور کریں، اگرچہ بعض احباب کی رائے یہ ہے کہ کمزور استعداد والے طلبہ کو یہ تخصص نہیں کرنا چاہیے، لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے، کیونکہ جو ساتھی دورہ حدیث کرچکا ہو، اس میں کم از کم اتنی صلاحیت ضرور ہوتی ہے کہ وہ شعبہ افتاء اور اپنی فقہی استعداد میں اضافہ کرےاور اگر زیادہ فقہی تحقیقات کے لائق نہ بھی ہو توانشاء اللہ  کم از کم عوام کے روز مرہ دینی مسائل کو حل کرنے کے اہل ضرور ہوں گے۔

ہم خود ایک عرصے سے اس شعبہ کے ساتھ منسلک ہیں، اس لیے ہم نے اپنے اساتذہ سے جو کچھ سیکھا اور جو  تھوڑا بہت تجربہ ہے، اس کی روشنی میں تخصص فی الافتاء کے طلبہ کے لیے چند گزارشات پیش کرنا مقصود ہے۔

  تخصص فی الافتاء میں تین بنیادی چیزیں شامل ہوتی ہیں:

1۔ تمرینِ افتاء

2۔ مطالعہ

3۔ تدریس

 اسی ترتیب کے ساتھ یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے زیادہ اہم ہیں، چنانچہ سب سے اہم چیز تمرینِ افتاء ہے، اس کے بعد مطالعہ اور پھر تدریس۔

1۔ تمرینَِ افتاء:

تمرینِ افتاء پر سب سے زیادہ توجہ دینا ضروری ہے، لیکن اس سے پہلے اصولِ افتاء، آداب فتوی نویسی(زبان، اسلوب، املاء اور رموز واوقاف وغیرہ) اور تخریج(یا عارضی تمرین)نہایت ضروری ہے۔

اصولِ افتاء اور آداب فتوی نویسی عموما  اساتذہ پڑھاتے ہیں، اس لیے انہیں سمجھ کر ان کی مشق کریں۔ جہاں تک تخریج کی بات ہے تو تمرینِ افتاء سے پہلے کچھ عرصے تک کچھ اصولی اور فروعی سوالات کے جوابات مقالہ نگاری کے اصولوں کے تحت لکھے، قواعدِ افتاء کے التزام کے ساتھ جواب میں مذکور اَعلام  اور فقہی کتب کا  مختصر تعارف اور حاشیہ نگاری کے جدید طریقے کا التزام کیا جائے۔

یا تخریج کے بجائے کسی مشکل فتاوی(مثلا امداد الفتاوی)کے چند منتخب سوالات اور جوابات کو طلبہ سے اپنے الفاظ میں لکھوایا جائے اور ہر جواب کے لیے کم از کم پانچ  مراجع اصلیہ مع عربی عبارات دیے جائیں۔ لیکن عارضی تمرین کے ساتھ  چند تفاسیر، احادیث کی کتب، اصولِ فقہ اور فقہ کی کتب کا مختصر تعارف بھی لکھوایا جائے۔

ہر ساتھی اپنے پاس ایک ہفتہ واری جدول تیار کریں، جس میں ہر ہفتہ کےآخر میں  مکمل شدہ اور زیر تکمیل فتاوی کے عنوانات درج کرے۔

2۔ مطالعہ:

   تمرینِ افتاء کے بعد طالبِ علم کے کرنے کا کام مطالعہ ہے۔ کچھ دوست شروع میں مطالعہ کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ مطالعہ چھوڑ کر صرف تمرین کی طرف ساری توجہ دینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ  تمرین کی کامیابی  کا دارومدار وسعتِ مطالعہ پر ہے، لہذا نصابی کتب کے مطالعہ کا آخر تک التزام کرنا ضروری ہے۔

 ہر کتاب کو یومیہ وقت دیں اور مطالعہ کے لیے   ایک بیاض یا ”کشف المطالعہ“ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔ بیاض (کشف المطالعہ)میں ہر کتاب کے لیے الگ جگہ مختص کریں اور دوران مطالعہ اہم نوٹس وہاں درج کیا کریں۔ مثلا ہر کتاب کے لیے درج ذیل  چیزوں کو خاص کریں اور ہرعنوان کے تحت اس سے متعلقہ امور یا کم ازکم سمجھ میں آنے والا اشارہ لکھ دیا کریں:

کتاب کا نام۔ ۔ ۔ باب۔ ۔ ۔ جلد

1۔ قواعدِ اصولیہ

2۔ قواعد و ضوابط فقہیہ

3۔ فروق فقہیہ(یعنی جن ملتے جلتے مسائل کا حکم الگ ہو، ان کی وجہ اور فرق)

4۔ مسائل مفرعہ مہمہ

5۔ فوائدِ متفرقہ

3۔ تدریس:

  تدریس کو آخر میں رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اہم نہیں ہے، بلکہ یہ اس لیے کہ اس میں طلبہ کے  کرنے کا کام کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے جتنی کتب ہم پڑھتے آئے ہیں، اُن کا محض سمجھ لینا کافی تھا، لیکن تخصص میں سمجھنے سے بھی ایک قدم آگے جانا ضروری ہے اور وہ یہ  ہےکہ  ہر سبق  کی عملی مشق اور ممارست  کی جائے۔ اگر میراث ، فلکیات  یا اصولِ افتاء کاسبق ہو تو اس کے اصولوں کی عملی مشق، اجراء اور کسی فقہی کتاب پر اس کا انطباق کریں۔ قواعدِ فقہ ہو  تو ہر قاعدے کے لیے فقہی کتب میں تطبیقات وتفریعات تلاش کریں۔ ہر فن کی کتاب کے لیےاسی پر عمل کریں۔

تبصرے بند ہیں۔