دینی درس گاہوں میں عصری تعلیم کا امتزاج

تحریر:  محمد اسحاق  …  ترتیب:   عبدالعزیز

        ریاست کرناٹک میں بیدرؔ ایک تاریخی مقام اور ایک اہم ضلع ہے۔ چند برس پہلے یہاں ایک تعلیمی پروگرام کے سلسلہ میں جانا ہوا۔ بیدر میں مدرسہ محمود گاواں کے کھنڈر کے قریب ہی ایک دینی تعلیم کا مرکز ہے جہاں پر طلبا و طالبات تین سو سے زائد ہیں اور اس مدرسہ کو شروع ہوئے تین برس ہوچکے تھے۔ 9اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ انہی اساتذہ سے اصل گفتگو کرنی تھی۔ میں نے اس اسکول کا نصاب دریافت کیا تو صدر مدرسہ نے ٹائم ٹیبل سامنے رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس میں تفسیر قرآن، حدیث شریف کے ساتھ ساتھ کلاسیکل عربی ادب، صرف و نحو، منطق، فقہ، فلسفہ اور علم الکلام وغیرہ شامل ہیں۔ ان اساتذہ سے دریافت کیا کہ آخر یہ تیسری جماعت کے بچے کس طرح صرف و نحو، فلسفہ اور منطق، علم الکلام کو سمجھ پائیں گے۔ جامعہ عثمانیہ میں منطق صرف ’بی اے‘ کے درجہ میں مضمون اختیاری تھا۔ خود ان میں اکثر تو وظیفہ یاب مدرسین تھے جنھوں نے کسی دینی مدرسہ میں کبھی تعلیم نہیں پائی تھی۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ نصاب اور نظام الاوقات حیدر آباد کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم سے حاصل کیا گیا ہے۔ اسی سے نقل کرلیا گیا۔ اگر حیدر آباد کی بڑی درسگاہیں اپنے ہاں ترمیم کرلیں تو پھر ہم بھی اپنا نصاب بدل سکتے ہیں۔ چونکہ اس قسم کا حیرت انگیز انکشاف راقم کو پہلی مرتبہ ہوا تھا اس لئے وہ اپنے کو اس پر کسی قسم کے تبصرہ کا اہل نہیں پاتا۔

        ایک دوسرا تجربہ یہ ہوا کہ حیدر آباد کی ایک بڑی دینی درسگاہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں چھ سو طلبا تعلیم پاتے ہیں اور نصف دارالاقامہ میں مقیم ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو طلبا حفظ میں مشغول ہیں۔ میرے ایک دوست نے ایک 14سالہ لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہاں تک حفظ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد ایک سوال کیا کہ آپ کے ہاں 32 آم ہیں۔ اپنے 4دوستوں میں آپ نے اسے مساوی تقسیم کر دیئے۔ بتلائیے کہ ہر ایک کو کتنے آم ملے۔ وہ طالب علم اس کا جواب نہیں دے سکا اور صورت دیکھتا رہ گیا۔

        اس تمہیدی نوٹ کے بعد اصل عنوان کی طرف آئیے کہ یہ دین و دنیا کے علوم میں بھید بھاؤ کیسے پیدا ہوا اور اب ہم کیا کرسکتے ہیں۔ عنوان بہت وسیع ہے، لیکن یہاں مختصراً چند اہم نکات آپ کی غور و فکر کیلئے پیش ہیں۔

        (1  پروفیسر مجیب نے لکھا ہے کہ سولہویں صدی کا یورپ میں نشاۃ ثانیہ اسپین کے عربوں کا رہین منت ہے، لیکن یورپ کے ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ بے شک مسلمانوں نے یورپ میں تعلیم و تحقیق، علوم و فنون کی روشنی پھیلائی، لیکن ان کا حال ان مزدوروں کا سا ہے جو علم کا بوجھ سروں پر اٹھا لائے اور یورپ کی منڈیوں میں اتار کر دور جا بیٹھے۔ گزشتہ پانچ سو برس کے دوران پھر ان کے علمی اور سائنسی کارناموں کا کہیں تذکرہ تک نہیں ملتا۔

        (2  پروفیسر معاشیات جناب حبیب الرحمن نے اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں انگلستان کے صنعتی انقلاب 1760ء تک دینی اور دنیاوی تعلیم کا کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ جو کچھ علم تھا وہ دین کا تھا۔ باقی روزی روزگار کیلئے، زراعت، تجارت، محنت، مزدوری اور معمولی پیشے تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد سے ایک سو برس کے دوران جدید ایجادات، صنعت و حرفت، مشینوں کے استعمال نے مادی علوم میں سینکڑوں شعبوں کو جنم دیا اور پھر علم کی سینکڑوں شاخیں ہوگئیں۔ اگر کوئی جدید میڈیکل سائنس پر غور کرے تو اندازہ ہوگا کہ ہر مرض، ہر عضو کے سینکڑوں ماہرین یا Specialists پیداہوچکے ہیں۔ پھر ان کا ایک ہاسپیٹل چلانے کیلئے نیچے بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح دینی علوم اور مادی علوم ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ مادی علوم کیلئے کسی ایک فن میں مہارت لازمی ہوگئی جبکہ دینی علوم کے چند شعبے رہ گئے ہیں جن کا اجر اس دنیا میں نہیں۔ اس لئے مذہبی علوم کی عوام کے ذہن میں وہ اہمیت نہیں رہی جو مادی علوم کے حصول کے ساتھ ہی جاہ و حشمت، دولت و عزت حاصل ہوتی ہے۔ آج وہ نسل جو دینی درسگاہوں میں تعلیم پارہی ہے، وہ دنیاوی علوم کی کشش سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور وہ طلبہ جو جدید علوم کے حصول میں لگے ہوئے ہیں وہ مذہب سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ ان کا تعلق اگر کچھ ہے تو بس اتنا سا:

کل کہتے تھے یہ بھائی گھورن … دنیا ہے روٹی، مذہب ہے چورن    (اکبرؔ)

        کوئی ساٹھ ستر برس پہلے آپ کو یاد ہوگا آلہ مکبّر الصوت (Mike) کا استعمال جلسوں میں نیا نیا ہوا تھا۔ مسجدوں میں اذان اور خطبہ کیلئے اس آلہ کے استعمال کے خلاف میں علمائے دین نے فتوے دیئے کہ ’’اس نجس آلہ کو مسجد ہی میں نہ لایا جائے‘‘۔ پروفیسر غلام دستگیر رشید (عثمانیہ) اپنی تقاریر میں کہتے تھے، ہمارے علمائے دین کے جمود کا کیا کہنا کہ دس برس تک وہ اسی بے کار سی بحث میں پھنسے رہے جبکہ اس عرصہ میں روس نے دو پنج سالہ منصوبے کو پورا کرلیا۔ وہ علمائے کرام اور ان کے شاگرد کہاں ہیں جبکہ مائیک کا استعمال بے دھڑک نہ صرف مساجد میں ہوتا ہے بلکہ مکہ اور مدینہ میں دن رات ہورہا ہے۔ میرا ایک مضمون ’’سرسید کا کام اور پیام‘‘ ایک عالم دین کی نظروں سے گزرا جن سے مجھے ایک عرصہ سے نیاز حاصل ہے۔ وہ پیرا گراف آپ بھی پڑھ لیں، اس لئے کہ اسی ایک پیراگراف پر قریب دو ماہ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا جو پندرہ بیس صفحات پر مشتمل ہے۔

        ’’مسلمان فطرتاً ہر نئی چیز کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کے معاملہ میں متشکی واقع ہوئے ہیں۔ وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کیلئے برسوں لگا دیتے ہیں۔ جب جاگتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دوسری قومیں بہت آگے نکل چکی ہیں۔ اس قسم کا فکری ڈھانچہ کوئی برسہا برس میں تیار ہوا ہے جبکہ مذہبی علماء نے دنیوی اور مادی علوم، معاش، کسب، ایجادات وغیرہ کا کچھ اس طرز سے مضحکہ اڑایا کہ امت مسلمہ کا ذہن اس طرف سے مفلوج ہوگیا‘‘ (سرسید)۔ مسلمانوں میں جہاں تک علم و عمل کا تعلق ہے، قناعت پسندی کا رجحان عام ہے، وہ جو تحقیق و تجربہ یا کسی علم میں کمال پیدا کرنے میں سنگ راہ ہے‘‘(سرسید- میری کتاب ’’تعلیمی مسائل‘‘ ص60-61)۔

        اس پیرا گراف پر اعتراض کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : علم الٰہی کے مقابلہ میں طبعی علم بہ اعتبار آخرت مطلق اور کذب محض ہے۔ جس رونق و دنیا کی طرف نظر اٹھانے کی اجازت نہ ہو اس کی تحقیق و تخلیق کی محنت اور مسابقت کا تصور کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ آخر میں عرض کروں کہ سائنس اور سائنس دانوں کو حق تعالیٰ نے مومنین کا خادم بنایا ہے کہ ان کی مادی محنت اور مسابقت کے ثمرات سے بقدر ضرورت استفادہ ہورہا ہے اور انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔

        اس کا مطلب یہ ہے کہ مومنین خود کچھ نہیں کریں گے۔ دنیوی و مادی ضرورتوں کا جہاں تک تعلق ہے، وہ دوسروں کے محتاج ہی رہیں گے۔ بہر حال دین و دنیا الگ الگ دریا ہیں جو کہیں ملتے نہیں ؛ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیَانِo  اوپر کے خط کا مطلب یہ ہے کہ علم سے مراد علم الٰہی ہے، باقی سب جہل ہے۔ اس لئے اس کے حصول پر کسی قسم کی رغبت و محنت عبث ہے۔

        قرآن کریم میں وَ عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَا سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کو دنیا و ما فیہا زمین و آسمان کے سارے علوم سے روشناس کروایا گیا۔ اسماء میں وہ ساری اشیائے کائنات کا علم، آثار اور خواص سب کچھ آگئے، ( تفسیر ماجدی)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام سائنسی علوم، ایجادات و انکشافات سب کچھ علم کے دائرہ میں شامل ہیں۔ اسی لئے انسان کو عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ، ہر وہ علم سکھلا دیا گیا جو وہ نہ جانتا تھا۔ ہر ایجاد، ہر جدید تحقیق اور وہ سب انکشافات جو زمین و آسمان کے نیچے یا اوپر قیامت تک ہوتے رہیں گے وہ سب آیت کے اس ایک ٹکڑے نے احاطہ کرلئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علم میں دین و دنیا کا سب علم شامل ہے۔ دین و دنیا کے علوم کو الگ الگ کرنا قرآنی علم کی روح کے خلاف ہے۔

        قرآن کریم اور احادیث میں بیشک دنیا کو حقیر جاننے اور اس کی چند روزہ زندگی میں گم ہوجانے کے خلاف آیات اور احادیث مل جائیں گی، لیکن مادی علوم سے پوری طرح کنارہ کشی کرلینے، مادی علوم کے سیکھنے، حلال کسب اور معاش کی جستجو کے خلاف شاید کوئی چیز نہیں ملے گی۔ اس دنیا میں بے حیثیت زندگی گزارنے، دوسروں کے رحم و کرم پر قناعت کی زندگی گزارنے کیلئے جو ملت تیار ہوجائے وہ کس طرح خلیفہ اللہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔ اس کے سر پر زمین کی خلافت کا تاج کیسے زیب دے گا۔

        حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ سے کہا کہ اپنے میں قوت پیدا کرو۔ پھر اس کا مطلب یوں سمجھایا کہ شمشیر زنی اور شہسواری میں کمال پیدا کرو۔ وہ زمانہ تیر اندازی اور شمشیر زنی کا گزر گیا۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی میں کمال پیدا کرنا ہی قوت حاصل کرنا ہے۔ ان علوم کا حصول دین کی بلندی اور خدمت کے جذبہ سے کئے جائیں تو یہ بھی دین ہی ہے۔ اسلام میں دولت، رزق، عزت و حکومت اولاد اور زمین جائیداد اور مویشیوں کو انعاماتِ الٰہی سے تعبیر کیا ہے۔

        گزشتہ دو چار برسوں سے علمائے کرام کی فکر میں کچھ تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ وہ دبی دبی زبان سے ہی سہی اب کہنے لگے ہیں کہ دینی درسگاہوں میں عصری علوم کا داخل کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ وہ زمانہ کے تقاضوں کو سمجھ سکیں اور ایک ایسے ملک کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں جہاں کئی مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ دین کے تبلیغی تقاضے نہ صرف اس خطہ کی بلکہ مختلف زبانوں کے ساتھ انگریزی زبان پر عبور نہ ہو تو آج وہ شخص گونگا معلوم ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود علمائے دین نے ابھی تک اجتماعی طور پر کوئی جرأت مندانہ عملی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔

        جناب سید حامد لکھتے ہیں کہ ’’آج کل عصری تعلیم کی مانگ زور پکڑ رہی ہے۔ میتھس، فیزیکس، کیمسٹری، انگریزی جیسے عصری علوم کو تعلیم دیئے جانے کا مطالبہ بڑھ رہاہے۔ یوپی کے اعظم گڑھ ضلع کے بلر گنج میں جامعۃ الفلاح نے اپنے نصاب تعلیم میں زبردست انقلابی تبدیلیوں سے روشناس کروایا ہے‘‘۔

        اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت دیر ہی سے سہی اور بہت محدود حد تک ہی سہی کہیں تو اس کا احساس ہوا۔ زمانہ کے تقاضوں اور وقت کے دباؤ سے علمائے کرام میں عصری علوم کی ضرورتوں کا احساس بڑھتا جارہا ہے، لیکن ان دینی حلقوں میں بعض واجبی اندیشوں کا ذکر ضروری ہے۔

        (1  عصری علوم کی دینی درسگاہوں میں داخل ہوتے ہی دین کے قلعوں میں رخنے پڑجائیں گے۔ پھر انھیں بند کرنا مشکل ہوجائے گا۔ آج تو یہ حال ہے کہ ملک کی بعض مشہور دینی درسگاہوں میں اخبار بھی پڑھنا ممنوع ہے۔ عصری علوم کی مقناطیسی کشش سے طلبہ کو دور رکھنا نہایت دشوار ہوجائے گا۔ دینی علوم سے وہ دلچسپی باقی نہیں رہے گی جو آج تک باقی تھی۔

        (2  ریاضی، سائنس، انگریزی، سوشل سائنس کے ٹرینڈ اساتذہ کے مشاہرے لازماً دینی درسگاہوں کے اساتذہ سے بہت زیادہ ہوں گے۔ سرکاری مدارس میں کوئی بی ایس سی، بی ایڈ ہے تو دس سال کے عرصہ میں اس کی تنخواہ آج کل ساٹھ ہزار تک پہنچ جائیگی۔ دینی درسگاہوں میں اساتذہ کے مشاہرے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس طرح مالیہ کا سوال اہم ہے۔ اگر عصری علوم کے اساتذہ کو وہی مشاہرہ دینا پڑے جو کہ سرکاری مدارس میں رائج ہیں تو ادارہ میں رشک و حسد کی فضا ابھر آئے گی اور ادارہ کا توازن بگڑ جائے گا۔ ایک ٹیچر جو دنیا کا علم پڑھاتا ہے وہ تو بہت خوش حال ہے اور دین کا پڑھانے والا اس کے مقابلہ میں بدحال رہ جائے، یہ گوارا نہیں۔

        (3  ایک اہم مسئلہ دینی تعلیم کے نصاب کو کم کرنے کا ہے۔ جیسا کہ اس مضمون کے ابتدائی حصہ میں تذکرہ کر دیا گیا ہے۔ کن علوم کو کن درجوں میں کس حد تک نصاب سے کم کرنے کا سوال ماہرین کیلئے ایک مشکل کام ضرور ہوگا۔ اتنا تو علمائے دین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ درس نظامی جو قریب ایک ہزار سالہ قدیم ہے، اس میں مناسب تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

        (4  اگر عصری تعلیم کو بہ جبر و اکراہ دینی مدرسہ یا جامعہ میں داخل کیا جائے تو بعض انتظامی دشواریاں پیدا ہوجائیں گی۔ سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ کتنا وقت، کتنے گھنٹے، کتنے پیریڈ دینی علوم کے ہوں گے اور کتنا وقت عصری مضامین کو دیا جائے گا۔ کیا طلبہ بیک وقت دونوں علوم میں ایک معیاری سطح تک اتنے ہی عرصہ میں پہنچ سکیں گے۔

        آخر اس کا حل کیا ہے؟  یہ حل بھی حرف آخر نہیں۔ یہاں پر اشارتاً چند تجاویز پیش ہیں جن پر سیر حاصل بحث اور غور و خوض ضروری ہے۔

        سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ علم کی تفسیر میں جو شکوک و شبہات ہیں انھیں دور کر دیا جائے۔ علمائے دین اور تبلیغی جماعت کے امیر یکجا ہوکر اس بات پر غور کریں اور دو ٹوک اعلان کردیں کہ دنیا کا علم الگ الگ نہیں بلکہ علم میں سب کچھ آگیا ہے۔ البتہ دین کا بنیادی علم ہر لحاظ سے مقدم ہے جو ہر طالب علم کو چاہے وہ دینی مدرسہ میں پڑھاتا ہو یا عصری مدرسہ میں اس کیلئے لازمی ہوگا۔ اس لئے کہ یہ ساری بحث بچوں کو دین اسلام پر قائم رکھنے کیلئے ہے۔ اگر کوئی ایمان و اسلام ہی سے دور ہوجائے چاہے وہ نام کا مسلمان ہی کیوں نہ ہو، وہ ہماری بحث سے خارج ہے۔ اس قسم کے اعلان سے مسلم معاشرہ میں اعتدال اور توازن پیدا ہوجائے گا۔ وہ تذبذب اور نفسیاتی کشمکش دور ہوجائے گی جو آج کل عام ہے۔ اس قسم کا ماحول خود دین کی بلندی و سرفرازی کیلئے بھی ضروری ہے۔

        چند اہم امور مثلاً عصری علوم میں کون سے مضامین کو اہمیت دی جائے، ان کی تدریس کیلئے کتنا وقت دیا جائے، کتنا دینی نصاب کم کرنا ضروری ہوگا، ہر مضمون کے کتنے پیریڈ ہوں گے، عصری مضامین کس جماعت سے شروع کئے جائیں اور پانچ سات برس میں ان مضامین میں عبور کی سطح اور معیار کیا ہوگا؟ امتحانات وغیرہ ایسے بہت سے مسائل ہیں جو ایک ماہرین تعلیم کی کمیٹی طے کرسکتی ہے جس میں ناظم دینی درسگاہ، اساتذہ اور عصری مضامین کے تجربہ کار ٹیچرس، ماہرین تعلیم اور دانشور دونوں طرف کے شریک ہوکر ان تفصیلات پر غور کرسکتے ہیں۔ اس طرح ایک سوچے سمجھے پروگرام یا منصوبہ کے تحت عصری مضامین کوداخل نصاب کئے جائیں تو مناسب ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان علوم کو بے دلی سے شامل نہ کریں بلکہ پوری سنجیدگی اور خلوص سے ان مضامین کو جگہ دیں تو دینی درسگاہوں کی وقعت بڑھ جائے گی اور یہاں سے ایسے عالم نکلیں گے جن کا مرتبہ معاشرہ میں ہر طرح قابل احترام ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔