جی-20 کانفرنس اور ہند کی ڈپلومیسی کے درمیان موجودہ شبہات

ڈاکٹراسلم جاوید

2ستمبرکو ہند سے روانگی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی ویتنام پہنچے۔ جہاں انہوں دارالحکومت ہنوئی میں وہاں کے سربراہان مملکت سے ملاقات کی اور دفاعی سیکٹر میں استحکام بخشنے کیلئے انہوں نے وسائل سے مالا مال ملک ویتنام کو 50کروڑ ڈالر کی اقتصادی مدد دینے کے ساتھ بین ملک تجارتی رشتے کو بہتر بنانے کیلئے 12معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔ جس وقت وزیر اعظم نریندر مودی خوشحال مملکت ویتنام کو 50کروڑ ڈالر دفاعی مدد دینے کا علان کررہے تھے، اسی وقت ہندوستان کی ریاست بہار سے یہ خبر ایجنسیوں میں چل رہی تھی کہ مرکز کی بی جے پی حکومت سیلاب متاثرین کی بازآباد کاری کیلئے اقتصادی پیکج  دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس پرمستزاد یہ کہ مالی مدد کی تو بات ہی مت کیجئے، انتہا یہ ہے کہ سیلاب متاثرین جن کے سارے اسباب و املاک دریا کی شرکش طغیانی کی نذر ہوچکے ہیں اور وہ راحتی کیمپوں میں ایک وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں۔ مگر مرکزی حکومت نے ان کی مدد کیلئے ایک روپیہ یا ایک دانہ بھی دینے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اس کے بر عکس بہار کوٹے سے آ نے والے مرکزی وزراء سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ بہار کا نوالہ توڑ نے اور سیلفی لینے میں مصروف ہیں۔ ایک ہی وقت میں مرکز کے یہ دوہرے کارنامے مودی کی تنقید اور کھنچائی کا بہترین موضوع فراہم کررہے تھے۔ چناں چہ کل دن بھر سوشل سائٹس پر یہی بحث گرم رہی کہ جس ملک کے مظلوم عوام سیلاب کی آفت کے نتیجے میں ایک ایک نوالے کے محتاج ہیں۔ اس ملک کا ویز اعظم اپنی ناموری کیلئے ملک کے خزانے کی ایک قابل قدر رقم دوسرے ملک کو خیرات کررہا ہے۔ آ خر یہ سب کرکے وزیر اعظم کیا دکھانا چاہتے ہیں یہی سوال کل پورے دن سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بناہواتھا۔

بہرحال ویتنام کو دی جانے والی خطیر رقم نے وزیراعظم کوسیلاب متاثرین کے ساتھ کئی ڈپلومیٹک ایشوز پربھی گھیرنا شروع کردیا ہے۔ ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ویتنام کے ساتھ کئی سمندری اور دفاعی امور پر چین کی رسہ کشی چل رہی ہے، مودی کا شی جن پنگ سے ملاقات سے پہلے ویتنام جانا اوراس کو 50کروڑ اقتصادی پیکج کے علاوہ دفاع جیسے حساس شعبے میں 12معاہدوں پر ستخط کرنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہندوستان چین سے اپنے تعلقات استوار کرنے میں سو فیصد ناکام رہے گا۔ اگر مودی کو ویتنام جانا ہی تھا یہ پروگرام G-20 کانفرنس سے لوٹتے ہوئے بھی انجام دیا جاسکتا تھا۔

ظاہر سی بات ہے کہ چین سے پہلے ویتنام کادورہ اور ہنوئی میں ہند۔ ویتنام رشتے مضبوط کرنے کے اعلان کو چین آ سانی سے ہضم نہیں کرسکتا۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی چینکوپاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقتصادی کاریڈور کی تعمیر سے باز رکھنے پربات کرنے کی ہمت کرسکیں گے۔ عالمی تجزیہ نگاروں کی نظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اس سرگرمی کو ان کی ڈپلومیٹک نااہلی تصور کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ آج ہی G-20اجلاس سے قبل بھارت اور چین کے درمیان مختلف ایشوز پر اختلافات کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کا موضوع بننے والے اہم ایشوزمیں چین پاکستان اقتصادی کوریڈور پربھی بات چیت ہوئی جو پاک مقبوضہ کشمیر سے ہوکر گزر جاتا ہے۔ مگر یہ دعویٰ ہند کی وزارت خارجہ کی جانب سے عوامی سائٹ پر کیا گیا ہے، البتہ چین یا ہندوستان نیسرکاری طورایسی کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ جی 20 رہنماؤں کے اجلاس سے الگ مودی اور شی کے درمیان یہ اجلاس آج صبح جھانگنجھو ویسٹ لیک اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ہوئی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان  وکاس سوروپ نے ٹویٹ کے ذریعہ اس کی اطلاع دی ہے۔ مگرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ ڈپلومیٹک تقاضوں کے خلاف قدم اٹھاکر وزیر اعظم اپنے مسائل چین کے سامنے کیسے پیش کرسکے ہوں گے، اس کی کوئی وضاحت وزارت خارجہ نے ملک کو فراہم نہیں کی ہے، جس کا بے صبری کے ساتھ ہندوستان کو انتظار ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات انتہائی متنازعہ مدعوں پر مرکوز تھی۔ ان ایشوز میں پاکستان کی جنگجو تنظیم جیش محمد کو اقوام متحدہ میں دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے ہند کے مطالبے پر چین کی مخالفت اوراس کے ذریعہ جوہری سپلائر گروپ (این ایس جی) میں ہند کی مستقل رکنیت روکے جانے اور 46 ارب ڈالر کے چین۔ پاکستان اقتصادی کوریڈورایشوز  شامل رہے۔ مگران مسئلوں پر چین کو وزیر اعظم اپنی جانب کس حد تک مائل کرسکے ہوں گے، ویتنام کادورہ اس سوال کا دہانہ اورزیادہ کھول چکاہے۔ قابل ذکر ہے کہ  دونوں رہنماؤں کی پچھلی ملاقات تاشقند میں اسی سال جون میں منعقد ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ G-20کے بعد دونوں رہنماؤں کی آئندہ میٹنگ اگلے ماہ گوا میں منعقد ہونے والی برکس کانفرنس کے دوران ہوگی۔ حالیہ ملاقات کے بعد پھر برکس ممالک کے رہنما آپسی ملاقات کریں گے۔ مودی آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبول اور سعودی عرب کے نائب شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی دو طرفہ بات چیت کریں گے۔ جھانگجھو پہنچنے کے بعدٹویٹس کے ساتھ وزیر اعظم کی یہاں کے حکام کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر بھی پوسٹ کی گئی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے مودی کی آمد کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا، ہنوئی میں صبح، کانگجھو میں رات۔ اس سے قبل ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم’برکس‘ کو بین الاقوامی سطح پر مؤثر ترین قرار دیتے ہوئے آج وزیر اعظم نے کہا کہ بین الاقوامی ایجنڈا طے کرنا اب اسی کی ذمہ داری ہے۔ مگر غریب ممالک یا اقتصادی طورپر بے سمت مملکتوں کو نظر انداز کر کے ترقی یافتہ ملکوں کو دنیا کو فلاح اورترقی کی جانب لے جانے کیلئے پر امن راہ کیسے مل پائے گی یہ ایک سوال جس جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں ضرورت اس بات کی تھی کہ وزیراعظم کی جانب سے یہ پیغام ملنا چاہئے تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی واہ واہی کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہندوستان کسی بھی صورت میں غریب یا پسماندہ ممالک کو نظرانداز کرنے کا رادہ رکھتا ہے۔ این ڈی اے حکومت کی یہی پالیسی اس وقت اندرون ملک بھی افراتفری پیدا کئے ہوئی ہے۔ ملک کے اندر بھی وزیراعظم یا بی جے پی کے دوسرے  وزرا کی زبانوں سے ایسی کوئی بات با ہر نہیں نکلتی جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ وہ کارپوریٹ خاندانوں اور بڑے سرمایہ داروں کی جی حضوری کے ساتھ پسماندہ ہندوستانیوں کی بھلائی کی بھی کچھ فکر رکھتے ہیں۔ G-20سے قبل برکس ممالک کی دوستی اور پشت پناہی پر مربوط وزیر اعظم کا آج کا بیان یہ ثبوت دے رہا ہے کہ خارجہ اسٹیج پر بھی مودی اور بی جے پی کے ایجنڈے میں غریبوں، مزدوروں اورپسماندہ قوموں کی بھلائی کا کوئی موضوع شامل نہیں ہے۔

جی -20 کانفرنس میں حصہ لینے کیلئے چین میں موجودمسٹر نریندر مودی نے کانفرنس سے الگ برکس ممالک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم بین الاقوامی ایجنڈا اس طرح تیار کریں جس سے ترقی پذیر ممالک کو ان کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے‘۔ مگر’’ ترقی حاصل کرنے کی تگ ودو میں شب و روز ایک کررہے ممالک بھاڑ میں جائیں ‘‘ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اس سے پہلے اپنی روانگی کے وقت وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں کہاتھا کہ ہندوستان تمام مجبور کرنے والے بین الاقوامی چیلنجوں اور ترجیحات میں مثبت کردار ادا کرے گا اوروہ اس بات کے آرزومند ہیں کہ عالمی قائدین پیداوار اور نتیجہ خیز جی 20چوٹی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اس کانفرنس میں امکان ہے کہ ہندوستان کئی مسائل بشمول دہشت گردی کو مالی فراہمی روکنے اور ٹیکس چوری جیسے مسائل پرتبادلہ خیال کریں گے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی بازاروں تک ہندوستان کی رسائی اور جان بچانے والی دوائوں کی قیمت میں تخفیف بھی ان کا موضوع ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہنوئی میں ہند۔ ویتنام معاہدوں میں اہم ادویہ کے حصول کوآسان بنانے کا معاہدہ ضرور ہوا۔ مگر چین پہنچتے ہی یہ مدعہ ایجنڈے سے باہر ہوتا نظرآ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ G-20میں وزیر اعظم کے خطاب سے ہندوستان اور عالمی برادری کو کتنا نتیجہ خیز اور پر اعتماد پیغام جاتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔