علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا تعلیمی معیار 

 ڈاکٹرظفردارک قاسمی

تعلیم وتعلم کا اصل مقصد سماج و معاشرہ کو مہذب و منظم اور صالح بنانا ہے،اگر علم حاصل کرکے انسان کے اندر انسانی ہمدردی،خیر سگالی،ایثار اور انسانیت کے بنیادی عناصر ترکیبی نہ پنپ سکیں تو یقین جانئے وہ شخص اس معاشر ہ اور اس کے افراد کے لئے ناسور ہے اس کا تجاہل عارفانہ رویہ معاشرہ کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لیجانے کے لئے کافی ہے،اور پھر معاشرہ کے افراد یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ نہ پڑھتا تو بہتر تھا،بجائے معاشرہ میں اصلاح و تربیت کے وہ خود اب اس معاشرہ پر بوجھ تصور کیا جاتا ہے،اس لئے تعلیم حاصل کرکے انسان اپنا، اپنے ملک اور معاشرہ کا نہ صرف وفادار اور امین بنے بلکہ اب اس پر سماج کے ان افراد کی بھی ذمہ داری ہیکہ جو جہالت و نادانی کی وجہ سے غیر مہذب اور مفلس و لاچار ہیں،اسی طرح معاشرہ کے ان قوم کے ان افراد کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی جو خام عمری میں مفلسی اور تنگ دستی کی بجائے اپنے جگر گوشوں کو پڑھا نہیں پارہے ہیں اور معاشی تنگی کی وجہسے مزدوری یا شکم پروری کے لئے دیگر مشکل جتن کررہے ہیں۔آج علم کا جو مقصد ہے وہ فوت ہوچکا کیونکہ معاشرہ میں اب تعلیم سرکاری جوب و ملازمت حاصل کرنے کے لئے کی جا تی ہے  اور معاشرہ کی تعمیرو ترقی کے لئے کوئی تعلیم یافتہ اور مہذب فرد کوشاں نہیں ہوتا ہے تعلم و تربیت کا جو بنیادی تصور ہمارے اکا بر اور ماہرین نے پیش کیا تھا اب تعلیم یافتہ سوسائٹی کے اندر اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا ہے۔بنا ء بریں  آج ملک کے اندر تعلیمی اداروں،تحقیقی و تجرباتی مراکز اور  تعلیم کے فروغ وترویج  کے تقریبا سرکاری و نیم سرکا ری تمام آلات و اسباب موجود ہیں اس کے باوجود بھی نوع انسانیت کے دل ودماغ میں باہم نفرت و تعصب،حسدو بغض،اور تنگ نظری جیسی مکروہ باتوں کا پلندہ ہر وقت گھسارہتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ ہم نے تعلیم خاص مقصد اور اصلاح و تربیت کی بجائے معاشی بڑوھتری کے لئے حاصل کی ہے اسی وجہ سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی محدود مفادات کا قیدی اور خود ساختہ مصلحتوں کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔بناء بریں اب اس بات کی سخت ترین ضرورت ہے کہ معاشرہ کی اصلاح و تربیت کے جتن کئے جائیں اور حصول علم کا جو بنیادی تصور ہے ا س سے معاشرہ کے افراد کو روشناس کرایا جائے تاکہ مخلوط سماج کے باہم تقاضے پورے ہوسکیں اور پھر ہماری لیاقت و استعداد سے ملک کی ترقی میں چار چاند لگ سکیں۔

کسی بھی تعلمی ادارہ کا معیار و وقار اور اس کا مقام و مرتبہ اس ادارہ کی تعلیمی،تحقیقی،فکری سرگرمیوں اور اس کے شعورو تدبر سے لگایا جا تا ہے،بلند وبالا عمارت خوبصورت نقش ونگار اور اسٹاف و طلباء کی کثیر تعداد اس ادارہ کا معیا ر اور علمی تفوق طے کرنے کے لئے کافی نہیں۔آج الحمد للہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ملک کی ان ممتاز و منفر اداروں کی فہرست شامل ہو جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے،علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کو نوع انسانیت تہذیب و تمدن کے لئے بھی جانتی ہے اور اس کا تعلیمی و تربیتی معیار ہمیشہ بلندرہا ہے،یہی وجہ ہیکہ معروف بین الاقوامی ایجنسی کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی ریکنگ میں اے ایم یو شامل رہی،اسی طرح یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کی رینکنگ میں ہندوستانی یونیورسٹیوں میں  علیگڑہ مسلم یونیورسٹی دوسری سب سے ممتاز یونیورسٹی کے طور پر جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔اب مشہور انگریزی ہفت روزہ انڈیا ٹوڈے کی ممتاز اعلی تعلیمی اداروں کی سالانہ رینکنگ میں اے ایم کو ملک کی تیسری سب سے عمدہ یونیورسٹی قرار دیا گیا ہے۔اس خبر سے دانشگاہ علیگڑہ میں تدریسی غیر تدریسی عملہ اور طلباء و طالبات میں کافی خوشی پائی جارہی ہے،اس لئے اب ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ یونیورسٹی کے تئیں  دلجمعی سے کاوش کرے اور تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانا ہو گا نیز جس طرح سے شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور کے دور میں ماحول پوری طرح پر امن و پر سکون ہے اس کو مزید شفاف بنانا ہو گا اور اس یونیورسٹی کے رتبہ کو مزید بلندکرنے کے لئے شیخ الجامعہ کے ہاتھوں کو مضبو ط اور ان کے صالح و مثبت عزائم کو تقویت بخشنی ہوگی۔

  یہ سب جانتے ہیں کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی بانئی درسگاہ،معمار قوم و ملت سر سید احمد خاں کے حسین خوابوں کا تاج محل ہے،ملک و ملت اور نوع انسانیت کی سعادت و کامرانی، فلاح و بہبو د اور تعمیر وترقی کے تئیں جو علم وحکمت اور عرفان ودانش کی قندیل روشن کی تھی اس کی شعائیں ہمیشہ جھلملاتی رہیں گی،اور ملت کے جیالے سر سید کے لگائے ہوئے اس علمی شجر سے استفادہ کرتے رہیں گے۔اس ادارے نے ملک کی تعمیر اور  قوم کی زبوں حالی کو دور کرنے میں اپنے قیام کے روز اول سے ہی نمایاں خدمات انجا م دی ہیں،اگر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو کوئی بھی تاریخ کا طالب علم اس بات سے روگردانی نہیں کر سکتا ہے کہ دانشگاہ علیگڑہ کے فضلاء نے ملک کے روشن مستقبل کے لئے اور ملت کو جہا لت ونادانی سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اہم اور قابل قدر شعبوں کے لئے مخلص اکابریں کا ایک بڑا عملہ تیار کیا ہے جنہوں نے اپنی شبانہ روز استعداد وصلاحیت کے بوتے پر ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اس کو عملی جامہ پہنایا ہے۔یہ وہ واحد ادارہ ہے جو تمام طبقات کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتا ہے کسی بھی طبقہ کے ساتھ امتیازی سلوک برتنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بھید بھاؤ والا معاشرہ کبھی بھی دائمی اور مستقل کامیابی کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتا ہے،تاریخ شاہد ہیں کہ جن معاشروں نے اپنے رویہ اور برتاؤمیں  ذرہ برابر بھی لچک یا جانبداری پیدا کی ہےان کی تاریخ اور شناخت کوصفحہ تاریخ سے نابود کردیا گیا ہے۔ آج ان قوموں اور برادریوں کے نام لینے والے تک موجود نہیں ہے۔علیگڑہ مسلم یونیورسٹی  کی تو شناخت اور امتیازی وصف ہی یہی ہیکہ یہاں سماج کے کسی بھی فرد کے ساتھ زیادتی اور تفر یق کا معاملہ نہیں کیا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ اس کی بنیاد ایک ایسے شخص نے رکھی ہے جس کے اندر اخلاص و للہیت اور حب الوطنی جیسی صالح اقدار کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں یہی وجہ ہیکہ آج بھی علیگڑہ مسلم یونیورسٹی تعلیم،تحقیق،تہذیب اور بقائے باہم کے فروغ و ساجی عدل کے طور پوری دنیا میں منفرد مقام کی حامل ہے۔سر سید کا اخلاص اور ان کی عظیم قربانی اور ملک و ملت پر کئے گئے احسانات کو فراموش کرنا بڑی ناسپاسی ہوگی کیونکہ سرسید نے ایسے مشکل حالات میں قوم و ملک کی ترقی اور اس کی فلاح کے لئے عصری اوردینی علوم کی ہم آہنگی کا تصور پیش کیا جب ملک میں انگریزوں کا تسلط تھا اور ملک میں آزادی کی کاوشیں ایک مرتبہ ناکام ہوچکی تھیں مگر اس مرد مجاہد نے اپنے عمل اور اخلاص کی بدولت ملت اسلامیہ ہند کو عروج وارتقاء کی منازل طے کرانے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی نتیجتا آج وہ درخت نہ صرف سایہ دار اور تناور ہوچکا ہے بلکہ اس کے علمی،منطقی اور تہذیبی سایہ سے تقریبا پوری دنیا فیضیاب ہورہی ہے،گویا یہ بات پورے وثوق و بھروسہ سے کہی جا سکتی ہے کہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی نے ہند وستانی سماج کو تعلیم یافتہ اور مہذ ب و متمدن بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی،اقتصادی،سیاسی اور عسکری طور پر بھی مستحکم کیا ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو ہندوستانی معاشرہ کے افق پر بڑی آب وتاب کے ساتھ روشن ہیں،یونیورسٹی کی خدمات کو ملک و بیرون ممالک میں بحسن خوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ دانشگاہ علیگڑہ کے امتیازات و خصوصیات کو اور اس کے تجدیدی کارناموں کو اس مختصر مضمون میں نہیں سمیٹا جا سکتا ہے کیونکہ اس ادارہ نے ملت و ملک کی سرخ روئی اور عظمت وتقدس کے لئے ہر دور میں مثبت اقدام کئے ہیں.

اس وقت دانشگاہ علیگڑہ جس شخصیت کی قیادت وسیادت میں اپنے حقیقی مقصد کی طرح رواں دواں اور پیہم عروج کی طرف جارہی ہے اسمیں شیخ الجامعہ کی لگن اور اخلاص کو بہت بڑا دخل ہے،آج مادر درسگاہ ہندوستان کی جامعا ت میں  تعلیمی و تحقیمی معیار کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آچکی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ایک طرف ملک میں دانشگاہ کو بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کی سازشیں ہورہی ہیں اور اس کے شفاف رخ کو حاسدین و متعصبین مخدوش ومجروح کرنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں وہیں تصور بھی پیدا ہوتا ہیکہ ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو حق و انصاف اور جمہوری قدروں،آئینی نظام اور سیکولر روایات کا امین و پاسبان ہے۔

یونیور سٹی کی یہ شاندار کامیابی ان افراد و جماعتوں کے منھ پر زوردار طمانچہ ہے جو یونیورسٹی کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے ا ب تک بے تکے بیان دیکر بدنام کرتے  رہے ہیں،خیر دانشگاہ علیگڑہ نے علم وحکمت اور تہذیب و شائستگی کی جو تابناک روایت قائم   کی ہے اس سے پوری دنیا فیضیاب ہورہی ہے،اور سر سید کے تعلیمی مشن کو شیخ الجامعہ انتہائی خو ش اسلوبی،وفاداری،اور اخلاص کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں یہی وجہ ہیکہ کہ دانشگاہ علیگڑہ کا تعلیمی معیار اس قدر بلند ہوا ہے،اس لئے شیخ الجامعہ قابل مبارکباد ہیں،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ماحول سے نبر آزما ہونے کے لئے اور فرقہ پرست عناصر کے شر سے بچنے کے لئے ضروری ہیکہ ہم اپنی مثبت کار کردگی تعلیم وتحقیق کے میدان میں دکھائیں اور دن بدن مسلم کمیونٹی کو  اچھا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی جاکر فسطائی ذہنیت سے خلاصی مل پائے گی۔ یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ آئندہ برس یونیورسٹی اپنے قیام کے سو برس پورے کررہی ہے ایسے وقت میں یونیورسٹی کے تعلیمی اور تحقیقی معیار کو ممتاز قرار دیا جانا مزید خوشی کا باعث ہے،اسی کے ساتھ ہم اس بات کو بھی فراموش نہیں کرسکتے کہ پروفیسر طارق منصور جس طرح دلجمعی سے ادراہ کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں  وہ کسی بھی صاحب عقل و فہم کی نظر سے اوجھل نہیں ہے،اور کہیں نہ کہیں شیخ الجامعہ کا اخلاص اور سر سید سے وابستگی کا ثمرہ ہے کہ آج یونیورسٹی اتنے عظیم پائدان پر پہنچی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔