سڑکوں پر نماز اور ہنومان چالیسہ

 مسعود جاوید

جمعہ کی نماز سڑکوں پر ادا کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں ایک خبر کے مطابق کولکتہ میں سڑکوں پر ہنومان چالیسہ منعقد کیا گیا. لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل provoke کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے. لیکن  مسلمان ان کے اس عمل سے کیوں مشتعل ہوں ؟ کیا صرف اس لئے کہ بعض مقامات پر مجبوری میں ہم ایسا کرتے ہیں اور وہ بهی چند منٹوں کے لیے صرف جمعہ کو. جبکہ وہ ضد میں ایسا کر رہے ہیں!

اگر کچھ مسلمان اس پر جذباتی ردعمل بلکہ حماقت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ ان کی دین اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے . ہمیں غیر مسلموں کے کسی بھی کلچر اور مذہبی اعمال پر اعتراض کرنے کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے. وہ شجر حجر بقر کسی کا پوجا کریں ہمیں اس پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے وہ دس روزہ یگیہ کرتے ہیں جس میں سڑکوں پر لاؤڈ اسپیکر لگاتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور ہونا بهی نہیں چاہئے. اگر وہ ہندو مسلم  مخلوط محلے میں کرتے ہیں تو بهی اگر ممکن ہو تو ہمیں ان کو پانی اور شربت پلانا چاہئے.

جو لوگ  OMGاو مائی گاڈ یا PKبی کے جیسی فلمیں دیکھ کر غیر مسلموں کے کلچر یا دهرم کے خلاف بکتے ہیں دراصل وہ اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں. اور  دعوت دیتے ہیں کہ غیر مسلم بهی اللہ اور دین اسلام اور مسلم کلچر کے خلاف دریدہ دہنی کریں.

اللہ سبحانه وتعالى نے قرآن مجید میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ” تم ان کے معبودوں کو ، جن کی اللہ کی بجائے وہ عبادت کرتے ہیں ، گالی نہ دو برا مت کہو. ” لا تسبوا الذين یدعون من دون الله فیسبوا الله عدوا بغیر علم … اس لئے کہ اس کے رد عمل کے طور پر عناد میں اور لاعلمی کی بنا پر وہ اللہ کو برا کہیں گے.

اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی تهی کہ حرام کهانے والوں کے لئے حرام اشیاء مہیا کرائے.  چنانچہ عرب ممالک میں غیر مسلموں کے لئے شراب اور خنزیر کا گوشت مہیا کرایا جاتا ہے. یمن جیسے قدامت پسند ملک میں ان کے لیے پرمٹ ایشو ہوتا ہے تاکہ وہ  گورنمنٹ کی مخصوص دکانوں سے پرمٹ اور کوٹہ کے مطابق  یہ اشیاء حاصل کریں . خلیجی ممالک میں  متعدد  ڈیپارٹمنٹل اسٹور اور مال ڈیوٹی فری شاپ میں  خنزیر کا گوشت فروخت ہوتا ہے. اور ایک ہم ہیں کہ آزادی سے برسوں قبل سے محض اس بات کو لے کر گردنیں کٹواتے چلے آرہے ہیں کہ کسی نے خنزیر کا گوشت مسجد کے دروازے پر رکھ دیا. شراب اور خنزیر کا استعمال یعنی کهانا پینا مسلمانوں کے لئے حرام ہے. اس کے چهو جانے سے ہمارے عقیدے پر فرق نہیں پڑتا.

جمعہ کی نماز :

پہلی بات یہ کہ اب مسلم طبقے میں اتنی جہالت نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوتی تهی کہ کلمہ توحید اور میت کے کفن دفن کرنے کے طریقے سے بهی واقف نہیں ہوا کرتے تهے. اب تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نیٹ اور 4 جی کے زمانے میں عام مسلمانوں کو ایک بار گوش گزار کرنا کافی ہوگا کہ جمعہ کی نماز ہفتہ بهر کی نمازوں کی بدل نہیں ہو سکتی. دوسری بات یہ کہ چهوٹے گاؤں قصبہ کهیڑا میں جمعہ کی نماز واجب نہیں ہے.  سڑک پر جمعہ کی نماز  عموماً فیکٹریوں کے  علاقے سے قریب کی مسجد میں ادا کی جاتی ہے ظاہر ہے جہاں مسلم آبادی کم ہوگی وہاں پنچ وقتہ نمازی کم ہوں گے اور جتنی نمازی اسی کے مطابق یا اس سے دو تین گنا زیادہ مکانیت کی مسجد ہوگی. سڑکوں پر نماز ادا کرنے کا ظاہرہ phenomenon کی اصل وجہ اسی قبیل کے ہفتہ وار جمعہ جمعہ والے نمازی ہوتے ہیں. اگر پنچ وقتہ نمازی بن جائیں تو مسجد کی توسیع کا خیال بهی لوگوں کو آئے گا اور اللہ اپنے گهر کی تعمیر کے لئے صاحب استعداد اور مخیر لوگوں کے دلوں میں بات ڈالے گا.

خلیج میں میرے کچھ حیدرآبادی دوست ہندوؤں کا کچھ اس طرح مذاق اڑاتے تھے : یہ ہندو لوگاں  رررررووووززز  ررروووززز نہاتے ہیں جبکہ ہم مسلمان جمعہ کے جمعہ جمعہ کے جمعہ جمعہ کے جمعہ.

(روز روز اور جمعہ کے جمعہ کی ادائیگی سننے سے تعلق رکهتی ہے. روز کی ادائیگی کهینچ کر تیس چالیس سکنڈ میں  جبکہ جمعہ کی ادائیگی جلدی میں دو تین سکنڈ میں بہت تیزی سے)

آمدم بر سر مطلب یہ کہ ہمیں ان کے مذہبی شعائر دهرم اور کلچر سے کوئی شکایت نہ ہے اور نہ ہونی چاہیے. ان کے یہاں کی کمیوں اور غلط رسم و رواج  کی اصلاح کی تحریک راجہ رام موہن رائے سوامی وویکا نند اور سروجنی نائیڈو  وغیرہ ہندوؤں نے چلائی تھی مسلمانوں کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں تها.. کاش ہمارے غیر مسلم برادران وطن گاندھی جی کے اس فلسفہ کو سمجھنے . گاندھی جی سے بعض ہندوؤں نے سوال کیا کہ آپ ہمیشہ ہندوؤں کی اصلاح کی بات کرتے ہیں کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کی اصلاح کی ضرورت نہیں ہے؟  اگر ہے تو آپ کیوں نہیں کہتے؟  گاندھی جی نے کہا بیشک ان کی اصلاح کی بهی ضرورت ہے مگر میں موہن داس کرم چند گاندھی اہک ہندو اگر مسلمانوں کے مذہب رسم و رواج کے خلاف انگلی اٹھاون اور اصلاح کی بات کروں تو انہیں محسوس ہوگا کہ میں ان کے دهرم پر بے جا تنقید اور insult کر رہا ہوں اور اس طرح ان کو میری بات سے چڑ ہو جائےگی اور نتیجتاً میری اصلاح کی کوشش کا سلبی اثر ہوگا اور میری بات counterproductive ہوجائے گی.  مسلمانوں اور عیسائیوں میں پڑهے لکهے لوگ ہیں وہ اصلاح کی کوشش کریں تو مفید ہوگا.

اس فلسفے کے مجهے دو پہلو نظر آئے.  ایک یہ کہ بعض غیر مسلم حضرات تین طلاق بل اور آرڈیننس پر خوش ہوتے ہیں جبکہ اس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ محض ہمیں چڑانے کے لئے ایسا کرتے ہیں. دوسرا پہلو یہ ہے کہ طلاق اور کئی اور امور ایسے ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہے. ہمارے رہنماؤں کو  ان کی طرف پوری سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے.  تین طلاق اور حلالہ خواہ اس کی شرح کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ، اصلاح طلب ہیں مخالف فریق کو مسکت جواب دے دینا کافی نہیں ہے.  اگر ہم اصلاح کئے ہوتے تو آج حکومت کو مداخلت کرنے کا چور دروازہ نہیں ملتا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔