ماہِ رجب: حقیقت اور خرافات

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

                ماہِ رجب عربی مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس کے تعلق سے معاشرہ میں طرح طرح کی رسوم ایجاد کر لی گئی ہیں۔ اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ اسلام میں اس ماہ کی کچھ حقیقت اور دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں اس کی کچھ اہمیت ہے یا نہیں ؟ اس ماہ کے تعلق سے جو احادیث و روایات ملتی ہیں، ان کی کیا حیثیت ہے؟ اور مسلم معاشرہ میں اس ماہ سے متعلق جو رسوم پائی جاتی ہیں، ان کی کیا حقیقت ہے؟

                سور ۂ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

                 یَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ (الاعراف:۱۵۷)

                ’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیز میں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور وہ ان پر سے وہ بو جھ ا تارتا ہے، جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘

                نزول قرآن کے زمانے میں لوگوں نے بے شمار رسوم ایجاد کر لی تھیں۔ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو مشروع نہیں کیا تھا، ان کو مشروع کر لیا تھا۔اس کے آخری پیغمبر نے ان رسوم کو ختم کیا۔ جن حرام چیزوں کو ان لوگوں نے اپنے لیے حلال کر لیا تھا، آپ نے ان کو دوبارہ حرام قرار دیا اور جو چیز یں حلال تھیں، لیکن انھیں ظاہری تقوی کی بنیاد پر یا کسی اور وجہ سے لوگوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، پیغمبر نے کران کوحلال کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آخری پیغمبر کی امت پھر انہی خرافات و رسوم و بدعات کی اسیر ہوگئی ہے، جن میں اس سے پہلے کی قو میں اسیر تھیں اور خود کو ان بیڑیوں میں جکڑ لیا ہے اور وہ  بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو آزادرکھا تھا۔

                قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کون ساز مانہ کس زمانے سے افضل ہے؟ اور کون سی جگہ دوسری جگہوں سے افضل ہے؟ مثال کے طور پر ماہِ رمضان کی فضیلت سے ہم سب واقف ہیں۔ اس میں ایک رات ہوتی ہے، جس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ رات ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ احادیث میں جمعہ کے دن کی فضیلت آئی ہے۔ احادیث میں روزوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ فلاں دن روزہ رکھنا افضل ہے۔ مثلاً ایام بیض (ہر عربی مہینہ کی تیرھو یں، چودھویں اور پندرھویں دن) میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی طرح کچھ مقامات کی افضلیت کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ (حصول ثواب کی غرض سے) صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کر کے جانا جائز ہے: مسجد حرام،میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (بخاری: ۱۸۶۴، مسلم: ۸۷۲)

                ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص میری مسجد میں ایک نماز پڑھے گا، اس کو دوسری کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں ایک ہزار نمازوں کا ثواب ملے گا۔ اس سے زیادہ فضیات مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی کہ اس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۱۴۰۶)

                اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بھی کچھ اوقات کو دوسرے اوقات سے افضل اور کچھ مقامات کو دوسرے مقامات سے افضل قرار دیا ہے۔لیکن اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ چیز قیاسی نہیں ہے، بلکہ سماعی ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے افضل قرار دیا ہے، ہمیں بھی اس کو افضل ماننا ہے۔ جس وقت یا زمانے کو اللہ اور اس کے رسول نے افضل قرار دیا ہے، ہم کو بھی اس کو افضل ماننا ہے۔ لیکن شریعت کی رو سے کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی مقام کو دوسرے مقامات کے مقابلے میں افضل قرار دے اور نہ ا سے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی وقت یا زمانے کو دوسرے زمانوں کے مقابلے میں افضل بتائے۔

                ماہِ رجب کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے اور احادیث میں بھی۔ قرآن مجید میں اس ماہ کے تعلق سے اشار تاًبات کہی گئی ہے اور احادیث میں صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

                 إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُم(التوبۃ:۳۹)

                ’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد، جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ ‘‘

                 اس سورۃ میں آگے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر سخت تنقید کی ہے، جو ان محرم مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے ہیں۔ ارشاد ہے:

                إِنَّمَا النَّسِیْء ُ زِیَادَۃٌ فِیْ الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یُحِلِّونَہُ عَاماً وَیُحَرِّمُونَہُ عَاماً(التوبۃ:۳۷)

                ’’نسی کفر میں ایک مز ید کافران حرکت ہے، جس سے یہ کا فرلوگ گم راہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ ووکسی سال ایک مہینہ کوحلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اس کو حرام کر دیتے ہیں۔ ‘‘

                حرام مہینے چار ہیں۔ حرام کا مطلب یہ ہے کہ یہ مہینے بہت محترم ہیں۔ ان میں جنگ و جدال کر نا ممنوع ہے۔ اہل عرب یہ کرتے تھے کہ اگر ان کو جنگ کرنا ہے اور ان کوکوئی دشمن مل گیا ہے، اس کے اوپر ان کا کچھ زور چل رہا ہے، بعد میں موقع نہیں ملے گا اور وہ مہینہ حرام ہے تو وہ اس مہینہ کوآگے کر دیتے تھے، یہ سوچ کر کہ اس وقت تو ہم جنگ کر یں گے، دشمن سے جنگ کر نا ضروری ہے، اچھا موقع مل گیا ہے۔ دشمن کم زور ہے۔ ہم لوگ طاقت ور ہیں۔ اب تو ہم ان سے جنگ کر کے ان کو نیست و نابود کر دیں گے۔ یہ حرام مہینہ ہے، اس کی جگہ ہم کسی دوسرے مہینے کو حرام قرار دے دیں گے۔گویا یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک تنبیہ تھی کہ جس مہینے کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، ان کو آگے پیچھے کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی آیت کی تشریح اللہ کے رسول ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر کی۔ آپ نے لاکھوں کے مجمع میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینہ بنائے ہیں، ان میں سے تین مسلسل ہیں : ذی قعدہ،ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا رجب ہے، جو جمادی (الاخریٰ) اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۱۹۷، مسلم: ۱۶۷۹)

                 روایات میں اس کی اور تفصیل ملتی ہے کہ یہ حرام مہینے زمانۂ جاہلیت سے تھے۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اہلِ عرب کے نزدیک حج اور عمرہ کوا ہم عبادت سمجھا جا تا تھا۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم کوان لوگوں نے حج کے لیے خاص کر رکھا تھا۔ پورے عرب سے لوگ سفر کر کے آتے تھے۔ وہ ذی قعدہ میں سفر کرتے تھے اور ذی الحجہ میں مکہ پہنچتے تھے۔ وہاں حج کرتے تھے۔ پھر وہاں سے واپس ہوتے ہوتے انھیں ایک ماہ کا عرصہ لگ جاتا تھا۔ حج کے اصلاً پانچ دن ہیں، لیکن ان لوگوں نے تجارت کو بھی حج سے جوڑ رکھا تھا۔ حج کے ساتھ تجارت بھی مقصود ہوتی تھی، اس لیے ان لوگوں نے حج کے لیے تین مہینے خاص کر رکھے تھے اور عمرہ کے لیے انھوں نے ماہِ ر جب کو خاص کر لیاتھا۔

                اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رجب کا شمار’ اشہر حرم‘ (حرام مہینوں ) میں ہوتا ہے، جن میں جنگ وغیر ہ حرام ہے۔ اس کا جاہلیت میں بھی رواج تھا اور اسلام میں بھی اس کو باقی رکھا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید اور احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْن(التوبۃ :۵)

                ’’پس جب حرام مہینے گز ر جا ئیں تو مشرکین کوقتل کر سکتے ہو۔‘‘

                 غزوۂ بدر سے پہلے ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ حضور ﷺ نے ایک سر یہ بھیجا، جو سر یہ عبداللہ بن جحشؓ کہلاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ قریش کا ایک قافلہ جا رہا ہے، آپ نے اس کو روکنے کے لیے اور اس کے حالات کو جاننے کے لیے سر یہ بھیجا تھا۔ ماہِ رجب کی آخری تاریخ تھی۔ حضرت عبداللہؓ نے دیکھا کہ یہ قافلہ تو واپس جارہا ہے اور مکہ میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ اگر آج ہم نے اس پر حملہ کر دیا تو ہم کام یاب ہو جائیں گے اور ان کا جو مال ہے، اس کو لوٹ لیں گے۔ لیکن اگر آج ہم نے اسے چھوڑ دیا تو یہ ہماری دست رس سے باہر نکل جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے رجب کی آخری تاریخ میں اس پر حملہ کر دیا اور اس کا مال لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے بھی ناراضی کا اظہار کیا اور مشرکین نے بھی اس کو فتنہ بنایا کہ مسلمان دعویٰ تو اس بات کا کرتے ہیں کہ وہ اشہر حرم کی پابندی کرتے ہیں، لیکن ان لوگوں نے ان کی بے حرمتی کی ہے۔ اس پر قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

                یَسَٔلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِیْلِ اللّہِ وَکُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِندَ اللّہِ وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ :۲۱۷)

                ’’ لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو! اس میں لڑ نا بہت برا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خوں ریزی سے شدید تر ہے۔‘‘

                 اللہ تعالی ٰنے جن مہینوں کو محترم قرار دیا ہے، ان کے علاوہ اپنی طرف سے دوسرے مہینوں کو محتر م کر لینا اور ان میں طرح طرح کی رسوم ایجاد کر لینا جائز نہیں ہے۔ ماہِ ر جب سے متعلق بہت سی روایات مروی ہیں۔ ان کو اس لیے گھڑا گیا ہے، تا کہ رجب کی رسوم کو تقدس حاصل ہو جائے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

                ’’ رجب کے مہینہ کی فضیات دوسرے مہینوں پر اس طرح ہے جس طرح قرآن کی فضیات دوسرے تمام اذکار پر ہے۔‘‘

                ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشادفرمایا:

                ’’ر جب اللہ کا مہینہ ہے،شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان تمام مسلمانوں کا۔‘‘

                ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:

                ’’اللہ تعالیٰ ہم کو شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچائے۔‘‘

                مذکورہ روایات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ لیکن تمام مشہور محدثین نے صراحت کی ہے کہ یہ روایات ضعیف ہیں، موضوع ہیں اور من گھڑت ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ،امام نووی، علامہ البانی اور دیگر مشہور محدثین نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

                 ماہِ ر جب کی فضیلت کے تعلق سے مسلمانوں میں جو بہت سی رسوم رائج ہوگئی ہیں، ان میں سے کچھ کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے:

 ۱۔صلاۃ الرغائب

                 اس کے بارے میں آتا ہے کہ ماہِ ر جب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھا جائے اور اس کے بعد کی رات میں یہ نماز پڑھی جائے۔ کہا گیا ہے کہ اس میں بارہ (۱۲) رکعت نماز پڑھی جائے۔ اس نماز کا ایک خاص طریقہ ہے۔وہ یہ کہ اس میں پہلے  سورۃالفاتحہ پڑھی جائے، پھر بارہ مرتبہ سورہ زلزال پڑھی جائے وغیرہ۔ روایات میں ہے کہ ’’جو شخص یہ نماز (صلاۃ الرغائب) پڑھے گا، اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا، خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر، پہاڑوں کے وزن اور درختوں کے پتوں کے برابر ہوں۔ نیز اپنے خاندان کے ستّر (۷۰) ایسے افراد، جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو، ان کی شفاعت کر دے گا۔‘‘

                 ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ بارہ رکعت کی نماز کی کتنی زیادہ اہمیت بتائی گئی ہے۔ ان احادیث کو گھڑنے کا مقصد یہ ہے کہ کم عمل کر کے انسان بہت زیاد وثواب حاصل کرلے۔ چنانچہ بہت سے محدثین نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسی احادیث، جن میں کم عمل کا بہت زیادہ ثواب بتایا گیا ہو، وہ عام طور پر ضعیف یا موضوع ہوتی ہیں۔ چنانچہ علامہ نووی، ابن الجوزی، علامہ ابن تیمیہ، وغیرہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔

                علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :’’ماہِ ر جب میں روزہ کے تعلق سے جتنی بھی احادیث مروی ہیں، سب ضعیف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ماہِ ر جب میں روز در کھے گا تو اس کو گناہ ملے گا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس ماہ کے کسی دن کو خاص کرنا اور یہ سوچنا کہ اگر اس دن میں یہ عمل کروں گا تو زیادہ ثواب ملے گا اور اس کی زیادہ فضیلت ہے، یہ چیز دین میں بدعت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

۲۔ ماہِ رجب میں عمرہ

                 ایام جاہلیت میں لوگ ماہِ رجب میں عمرہ کیا کرتے تھے۔ لیکن اسلام میں رجب کے مہینہ میں عمرہ کرنے کی کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے اور اسے اس مہینہ کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔ رجب کے مہینے میں عمرہ کر نا ویسا ہی ہے جیسا سال کے دوسرے مہینوں میں عمرہ کرنا۔ احادیث میں ماہِ رجب میں عمرہ کرنے کی کوئی فضیات مذکور نہیں ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ چودہ سو سال سے اس پرعمل ہورہا ہے۔ محدثین نے بیان کیا ہے کہ اہلِ مکہ اس کا خاص طور سے اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے آباء واجدا کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جس طرح رمضان کے مہینہ میں مسلمان عمرہ کرنے کو افضل سمجھتے ہیں، اسی طرح ان کے درمیان ماہِ رجب میں بھی عمرہ کرنے کی فضیات کا تصور پایا جا تا ہے۔ اس تعلق سے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے چار عمرے کیے،ان میں سے ایک عمر ہ ماہِ رجب میں کیا تھا۔ لیکن ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ ابن عمر کو اللہ تعالیٰ معاف کرے، انھوں نے کیسے یہ غلط بات کہہ دی؟ اللہ کے رسول ﷺ نے چار(۴) عمرے کیے ہیں۔ ہر عمرے میں، میں آپ کے ساتھ تھی۔ کوئی عمرہ آپ نے ماہِ ر جب میں نہیں کیا تھا۔

 ۳۔ماہِ رجب میں جانوروں کی قربانی

                اہل عرب میں ایک رسم تھی کہ وہ ماہ رجب میں جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے اور اسے باعثِ ثواب سمجھتے تھے۔ اس تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:لا فرغ ولا عتیرۃ۔(بخاری: ۵۴۷۴)’’پہلوٹے بچے کو ذبح کرنے کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے اور عطیہ کی بھی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا :اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم ایام جاہلیت میں رجب میں قربانی کرتے تھے، ’عتیرۃ‘ کیا کرتے تھے۔ کیا اب بھی ہم اسے کر سکتے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: جس طرح تم سال کے دوسرے مہینوں میں قربانی کرتے ہو، جانور ذبح کرتے ہو۔ اللہ کا نام لو،خود کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘ (ابو داؤد: ۲۸۳۰،نسائی:۴۲۲۸)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کی عام اجازت دی، لیکن ساتھ ہی آپؐ نے اس کی حیثیت بھی واضح کر دی کہ ضروری نہیں ہے کہ اسے ماہِ رجب میں ہی کیا جائے۔

۴۔کونڈے کی رسم

                 ۲۲؍ رجب کو ایک رسم منائی جاتی ہے، جس کو رجب کے کونڈے کہا جا تا ہے۔ اس کو امام جعفرؒ سے منسوب کیا جا تا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امام جعفرؒ اس دن پیدا ہوئے تھے۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس دن ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ تاریخی اعتبار سے حضرت جعفر صادقؒ کی ولادت ۱۷؍ ربیع الاول کواور ان کی وفات ۱۵؍شوال کو ہوئی تھی۔ اس تعلق سے امام صادق کا قول کتابوں میں ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص مصیبت اور پریشانی میں گرفتار ہوتو اسے چاہیے کہ رجب کی بائیس (۲۲) تاریخ کو میرے نام کے کونڈے بنائے (کونڈے کا ایک خاص تصور ہے۔ یہ مٹی کا برتن ہوتا ہے، اس میں خستہ پوریاں بھری جاتی ہیں، اسے لوگ خود بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں ) اور پھر میرا وسیلہ اختیارکرکے دعا کرے تو اس کی ہر حاجت اور ہر مشکل حل ہو جائے گی۔ اس عمل سے اس کی حاجت پوری نہ ہو تو قیامت کے دن میرا دامن پکڑ سکتا ہے۔ ‘‘

                یہ خرافات پرمبنی روایت ہے۔ تاریخ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ برصغیر ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش ہی میں اس کا رواج پایا جا تا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کی ابتدا بیسوی صدی سے ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ایجاد امیر مینائی نے کی ہے، جو ایک مشہور شاعر اور شیعہ عالم تھے۔ ان کے بیٹے خورشید احمد مینائی نے ۱۹۰۶ء میں ایک کتاب ’داستانِ عجیب‘ کے نام سے لکھی۔ اس میں اس واقعہ کا تذکرہ ہے۔ اس سے پہلے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

                بہر حال اس کے تعلق سے جو بھی روایات ملتی ہیں، وہ سراسر من گھڑت اور جھوٹی ہیں، دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

                ماہِ ر جب کی تاریخی حیثیت ہے۔ اس میں بہت سے اہم واقعات پیش آیت ہیں۔ ہمیں انھیں یاد کرنا چاہیے اور ان میں جوعبرتیں ہیں، ان سے سبق لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر رجب کے مہینہ میں پہلی ہجرت حبشہ ہوئی تھی، جس میں بارہ (۱۲) مرد اور چار (۴) خواتین شریک تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کی سربراہی میں مسلمانوں نے یہ ہجرت کی تھی۔ اسی طرح ۹؍ ہجری میں غزوۂ تبوک کا واقعہ پیش آیا تھا۔۹ھ ہی میں میں نجاشی کی وفات ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی خبر دی اور اس کے لیے دعائے مغفرت کی تھی۔۱۴ ھ میں ر جب ہی کے مہینہ میں حضرت خالد بن ولید ؓکی سربراہی میں دمشق فتح ہوا تھا اور ۵۸۳ ھ میں رجب ہی کے مہینہ میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو فتح کیا تھا اور رجب ہی کے مہینے میں اللہ کے رسول ﷺ کو معراج ہوئی تھی۔ معراج کے تعلق سے یہ بات عرض کر نی مناسب ہے کہ اس کے ماہِ رجب میں ہونے پر علماء کا اتفاق نہیں ہے۔ اس کے متعلق بہت کی تاریخیں بیان کیں گئی ہیں : ربیع الاول، ربیع الثانی، ذی قعدہ، ذی الحجہ۔ لیکن اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ رجب کے مہینہ میں ہوئی تھی۔

                اصلا ًمعراج اور اسراء دوالفاظ آتے ہیں۔ اسراء کا مطلب ہے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جانا اور معراج کہلاتا ہے مسجد اقصیٰ سے آسمان کی بلندی سدرۃ انتہی تک جانا۔ اسراء کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے، جب کہ معراج کا تذکرہ قرآن کریم میں نہیں ہے،صرف احادیث میں موجود ہے۔ تقریباً ستائیس (۲۷) صحابہ سے معراج کی روایات مروی ہیں۔ معراج کے واقعات چوں کہ معجزات میں سے ہیں، اس لیے بہت سے لوگوں نے ان پر شبہات کا بھی اظہار کیا ہے۔ یہ بحث بھی ملتی ہے کہ معراج روحانی ہوئی تھی یا جسمانی؟ آپ کو معراج خواب میں دکھائی گئی تھی، یا آپ اپنے جسم کے ساتھ تشریف لے گئے تھے؟ جتنی کثرت سے اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے اس کا انکار درست نہیں ہے۔

                 معراج کے واقعہ میں عبرت و نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلے آسمان پراللہ کے رسول ﷺ کو تمثیلات دکھائی گئی تھیں، جن کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے۔ ان پر ہم میں سے ہر شخص کوغور کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو دکھایا گیا کہ کچھ لوگ اپنے ناخن سے اپنے سینے چھیل رہے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ناخن سے دوسروں کا گوشت چھیل چھیل کر کھاتے تھے، یعنی وہ غیبت کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیٹ ان کی جسامت کے مقابلہ میں بہت بڑے ہیں اور ان سے سانپ لپٹے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے دریافت کیا:یہ لوگ کون ہیں ؟ آپؐ کو بتایا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو سو دکھاتے تھے۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سر کچلے جارہے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں، پھر دوبارہ کچلے جاتے ہیں۔ حضورﷺ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریلؑ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو سستی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے تھے۔ کچھ لوگوں کو آپؐ نے دیکھا کہ ان کی شرم گاہوں پر چیتھڑے لگے ہوئے ہیں اور وہ گھاس، کانٹے دار پودے اور پتھر کھا رہے ہیں۔ حضورﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو مال دار تھے لیکن اس کے باوجود زکوۃ ادا نہیں کیا کرتے تھے۔ کچھ مردوں اور عورتوں کو آپ نے دیکھا کہ ان کے پاس اچھا گوشت بھی ہے اور سڑا ہوا گوشت بھی ہے۔ وہ لوگ اچھا گوشت کھانے کے بجائے سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو شادی شدہ تھے، لیکن ان لوگوں نے اپنی جنسی خواہش جائز طریقہ سے پوری کر نے کے بجائے ناجائز طریقہ سے پوری کی۔

   یہ تمام چیز یں تمثیلات کے انداز میں اللہ کے رسول ﷺ کو دکھائی گئی تھیں۔ ہم سب لوگ ان سے مخاطب ہیں۔ جن اعمال بد کی وجہ سے ان لوگوں کو سزا دیے جانے کا تذکرہ ہے، ہمیں ان سے بچنے اور خود کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

٭٭٭

1 تبصرہ
  1. اقبال احمد کہتے ہیں

    Very nice article please share me I will remain grateful to you thank you

تبصرے بند ہیں۔