آزادئ ہند میں علماءِ مدارس کا قائدانہ کردار

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

مدارس اسلامیہ، انسانیت نوازی، عدل پروری اور امن و آشتی کے وہ روشن مینارے ہیں؛جن کی ضوفشانی سےآج بھی ایک عالم منور ہے، اور اس کی تابانی میں آئے دن اضافہ ہورہاہے۔ مدارس، آدم گری  و مردم سازی کےوہ باوقار ادارے ہیں جہاں آدمی کو آدمی بنانے کی محنت ہوتی ہے، اخلاق کو سنوارنے اور کردار کو نکھارنے کا کام ہوتا ہے، بادۂ علم و معرفت اور مئے الفت و محبت پلایا جاتاہےاورملک و ملت کو ایسے باصفا و باوفا شہری مہیا کیے جاتے ہیں جو امن پسند و تشددمخالف ہوتے ہیں۔

مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ کے بہ قول ’’مدرسہ ہرمرکز سے بڑھ کر مستحکم، طاقتور، زندگی کی صلاحیت رکھنے والا اور حرکت ونمو سے لبریز ہے، مدارس ہی میں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے اسلامی آبادی؛ بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کار خانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے‘‘ (پاجا سراغِ زندگی: 9)

یہ ایک ناقابل تردید واضح حقیقت ہے کہ روز اول ہی سےیہاں کے مسلمانوں بالخصوص مدارس دینیہ کے علماءنے تعمیر وطن میں پوری جرئت مندی، پامردی اور عزم واستقلال کے ساتھ حصہ لیا اورتحریک آزادی میں براداران وطن نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا جتنا علماء کرام نےاپنا خون بہایا، مدارس سے استفادہ کرنے والوں اور اس سے انتساب رکھنے والوں نے اپنی انتھک کوششوں، پیہم محنتوں اور جانکاہ عزیمتوں کے ذریعہ خون جگر سےمادرِ وطن کی  ایسی سنہری تاریخ رقم کی جو ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما کا مصداق ہے۔ مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی کےبہ قول، یہاں کے مسلمان : ’’ نہ صرف ملک کے آزاد با عزت شہری اور قدیم باشندے ہیں؛ بلکہ اس عظیم ملک کے معمار ہیں اور ان قوموں میں جنھوں نے اس ملک کی خدمت کی، اس کا پایہ بلند کیا، اس کے تمدن اور ذہن کو نئی زندگی اور وسعت عطا کی، اس کو نئی دینی و اخلاقی قدروں سے روشناس کیا اور اس کے چمن کو نئے سلیقے سے سنوارا، ان کا پایہ سب سے بلند ہے۔ یہاں کی خاک کے ذرے ذرے پر ان کی عظمت کا نقش اور اس ملک کے چپے چپے پر ان کی ذہانت، ان کے خلوص اور ان کے ذوق تعمیر اور جذبۂ خدمت کی یادگاریں ہیں، یہاں کی زندگی اور تہذیب کا ہر گوشہ ان کے ذوق لطیف اور مذاق سلیم کی شہادت دیتا ہے۔ ( ہندوستانی مسلمان – ایک تاریخٰ جائزہ : ۱۴ ) جناب افتخار عارف نےاس مضمون کی کیاہی خوب عکاسی کی ہے ؎

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

ماضی کے دریچوں سے :

ہندوستان میں جنگِ آزادی کا بنیادی اور اساسی سبب صرف اور صرف یہ تھا کہ بریٹش حکومت اجنبیوں کی حکومت تھی، ابتداء میں انہیں مختلف دیسی حکمرانوں کے کارندے، ایجنٹ اور خیرخواہ سمجھ کر قبول کرلیا گیا۔ جب معلوم ہوا کہ انھوں نے حراّفی اور عیاری سے سب کچھ سنبھال لیا تو ان کے خلاف ہمہ گیر نفرت کی لہر دوڑ گئی، کوئی بھی غیرت مند محبِ وطن ان کے تسلط کو بہ طیبِ خاطر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ بالخصوص مسلمان ؛جنہوں نے نو سو برس اس سرزمین پر عدل ومساوات کے ساتھ تاریخ ساز حکومت کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علماء کرام نے علمِ بغاوت بلندکیا پھر ان کی تحریک پر مسلم عوام نے تن من دھن کی بازی لگادی، اپنے فتاوی کے ذریعہ ظالم انگریزوں کا پردہ فاش کیا، تحریک خلافت اور ترک مولات کی بنیاد رکھی، مدارس اسلامیہ کا جال بچھایا، ریشمی رومال کی تحریک چلائی اور اخیر میں برادران وطن کو ساتھ لے کر ملک کو استعماری قوتوں کے پنجۂ استبداد سےآزاد کرانےکےبعد دم لیا۔ مختصر یہ کہ سر فروشی وجاں بازی، جہاد وقربانی اورتجدید وانقلاب کے لیے جس روحانی وقلبی قوت، جس اخلاص و للٰہیت، جس جذب وکشش اور جس حوصلہ وہمت کی ضرورت ہے، وہ مدارس کے ان خرقہ پوشوں اور بوریہ نشینوں سے حاصل ہوئی اور ان ہی کے ادراک و شعور کے طفیل ہم میں جذبہ حریت بیدار ہوا اور ان ہی کی بہ دولت آج ہم (دوسروں کے بہ نسبت)آزادی کی سانس لے رہے ہیں اور زبان قال سے کہہ رہے ہیں ؎

کس کس جگہ بیاض وطن سے مٹاؤگے

ہر ہر ورق پہ مہر وفا کرچکے ہیں ہم

کیا بتاؤں حالِ زار؟:

ملک میں ایک بڑا طبقہ وہ ہے جوتعمیرِوطن میں  مدارسِ اسلامیہ کی سنہری تاریخ، زریں خدمات اورروشن کارناموں کا (دانستہ یا نا دانستہ) نہ صرف انکاری ہے ؛بل کہ مدارس کو فساد انگیزی اور دہشت گردی کے مراکز بتلاتاہے، آج اسکول و کالج کی نصابی کتابیں ان مجاہدین آزادی کی بے لوث قربانیوں کے تذکرے سے خالی ہیں اور کہیں  ان کے سلسلہ میں کچھ لکھابھی گیا ہےتو وہ حقائق  سےنا انصافی اور تاریخ کےساتھ ظلم ہے؛یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل استخلاصِ وطن کے حوالے سے چند رٹے رٹائے اور سمجھے سمجھائے، حقیقی یا نام نہاد مجاہدین کو یادکرتی ہے اور انہیں کے نام سےہرسال یوم آزادی معنون ہوتاہے۔

آج ہمارا مسلم سماج یہ تک نہیں جانتاکہ اس سرزمین سے جنم لینے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کون تھے، جن کی دور بیں نگاہوں نےہندوستان کے مستقبل کا تاریک ترین دور پہلے ہی دیکھ لیا تھا؛اسی لیےوہ وطن عزیز پر انگریزوں کےتسلط و اقتدار سے سخت نالاں رہا کرتے تھے۔ نئی نسل کو  یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے لڑکے شاہ عبد العزیز دہلوی کےفتوئ جہاد نے کیا انقلاب برپاکیاتھا، جنگ آزادی کی تاریخ لکھنے والےمتعصبین تو یہ بھی بھول گئے کہ حافظ ضامن شہید نام کا بھی ایک مجاہد  تھا، جس کے سینے کو انگریزوں کی گولیوں نے چھلنی کردیا تھا، زعفرانی تاریخ نگاروں کو شاملی کا وہ میدان بھی نظر نہیں آیا، جہاں بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریز افواج سے رو بہ رو جنگ کی تھی اور اپنے جسموں پرتیر و تفنگ کے زخم کھائے تھے۔ آزادی کی تاریخ میں سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کا بھی ذکر نہیں جنھوں نے ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے انگریزوں کی سازشوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا اور دہلی کی اکبرابادی مسجد میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ موجودہ تاریخ ِحریت میں شیخ الہند اور شیخ الاسلام کا نام بھی نہیں ملتا؛ حالاں کہ یہ وہی شیخ الہند تھے جنھوں نے عالمی پیمانے پراپنے رفقاء و تلامذہ کے ساتھ ریشمی رومال تحریک کا آغاز کیا تھا؛جس کے افشاء کے بعد انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دوچارہونا پڑا اور اخیر سانس تک انہوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا۔ رفیق مالٹا شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اس اذیت ناک اور درد انگیز واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریزوں نے ان کے جسم ناتواں اور ڈھانچۂ استخواں کو تختۂ مشق بنا رکھا تھا، زخموں سے بدن چور ہے اور جیل کے فرنگی حکام کا بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ محمود! صرف اتنا کہہ دو میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں، ہم تم کو چھوڑ دیں گے! حضرت فرماتے، نہیں نہیں!! میں یہ الفاظ ہر گز نہیں کہہ سکتا، میں اللہ کے دفتر سے نام کٹوا کر تمھارے دفتر میں نام لکھوانا نہیں چاہتا۔ ‘‘مورخین لکھتے ہیں کہ غسل دینے کے لئے جب آپؒ کو تختہ پر لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ تھی۔ لوگو ں نے آپؒ کے رفقائے مالٹا سے پوچھا کہ یہ نشانات کس چیز کے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایاشیخ الہند محمود الحسنؒ نے ہمیں وصیت کی تھی کہ اِن مصائب کا ذکر کسی سے مت کرنا ؛لیکن آج حضرت شیخ الہند ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو آج ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ نشانات اس وقت کے ہیں جب مالٹا کی جیل میں انگریز اُن کو الٹا لٹا کر پیٹھ پر کوڑے برسایا کرتا تھا۔ ؎

جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلےتو جاں سےگزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

سادگی اپنوں کی دیکھ !

یہ ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم یوم آزادی کے موقع پرکھل کر جشن منانے میں یاتو کوتاہ دستی کا ثبوت دیتے ہیں یارسمی طور پر بغیرکسی لائحہ عمل کےسرسری گزار دیتے ہیں؛جب کہ  ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نسل نو کو اپنے اسلاف کی قربانیوں سے واقف کرائیں، برادرانِ وطن کو اپنی تقریبات میں مدعو کریں انہیں مسلم مجاہدین کے روشن کارناموں سے آگاہ کریں، مختلف لٹریچر کے ذریعہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کریں ؛تاکہ کل ہماری  نسل دوسروں سے مرعوب وخائف ہونےاور ہمیں لعنت و ملامت کرنے کے بجائے فخر سے سر اونچاکرکے کہے  ؎

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے، یہیں خاک اپنی ملائیں گے

نہ بلائے آپ کے آئےہیں نہ نکالے آپ کے جائیں گے

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ آج زور و شور سےکیوں واویلا کیاجارہاہے” مدرسوں کا وجود ملک کی پرامن فضاء اور خوش گوار ماحول  کے لئےسنگین خطرہ ہے، وہاں دہشت گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے او رجہاد کےلیے نوجوانوں کو تیار کیا جاتاہے”؟؟اس سلسلہ میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک ہماری ناعاقبت اندیشی کا بھی دخل ہے کہ ہم نے جشن آزادی اور جشن جمہوریت کو  صحیح طور پرسیلیبرٹ نہیں کیا، اغیار تو دور اپنوں کو بھی اپنی تاریخ سے مطلع نہیں کیا اور کبھی خود بھی اس جانب توجہ نہیں کی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پر الزامات واتہامات کی بوچھار ہوگئی، اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے توبعید نہیں  کہ یہ سلسلہ یوں ہی دراز ترہوتا چلا جائےگا ؛البتہ یہ بات اپنی جگہ برحق ہے کہ اغیار کی جانب سےلگائے گئے ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی پیش نہیں کئےجاسکتے۔

آخری بات:

ہندوستان کے اندر جس طرح کی آزادی آج کل رقصاں ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، اکثریتی طبقے کو من مانی چلانے کی آزادی، اقلیتوں پرحکمرانی کا دھونس جمانےکی آزادی، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو توڑنے کی آزادی، معصوموں کو ناکردہ گناہوں کے سبب سلاخوں کےپیچھے دھکیلنے کی آزادی، ماؤں بہنوں کی عفت وعصمت تار تار کرنے کی آزادی، جمہوریت کا بھونڈا مذاق بنانے کی آزادی، بے قصور لوگوں کو جھوٹے معاملات میں پھنسا کر میڈیا ٹرائل کرنے کی آزادی، چینلوں پہ بیٹھ کر سرعام دوسروں کے مذہب کے خلاف ہفوات بکنے کی آزادی، بھیڑ کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسانے کی آزادی، نصاب تعلیم کو رفتہ  رفتہ بھگوا کرن کرنے کی آزادی، تاریخ ہند سے مسلم مجاہدین کے ذکر کو حذف کرنے کی آزادی۔ اگر آزادی اسی کا نام ہے تویہ آزادی مبارک ہو، ظالموں کو، نام نہاد وطن پرستوں کو، گائےکےنام  پر سیاست کرنے والوں کو، لفظوں کے پیچ و خم میں پھنسا کر ایک خاص کمیونٹی اور قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے والوں کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

بس ایک گزارش:

اخیر میں ہم ارباب اقتدار سےوہ بات صاف صاف عرض کرنا چاہتے ہیں؛جو دو دو چار کی طرح عیاں ہےاور ملک کا  ہرانصاف پسند غیر جانب دار  شہری  اس کا مشاہدہ کررہاہےاور زبان حال سے کہہ رہاہے  کہ وہ آزادی ہی نہیں جس کا سایہ ملک کے ایک حصہ پر پڑے، دوسرا حصہ محروم رہے، ایک فرقے کے حق میں آزادی کی بہار آئے اور اس کا باغ نئے برگ و بار لائے اورد وسری جگہ خزاں کا دور دورہ ہو، وطن عزیزکے ایک باشندے کے لیےجرائم کے باوجود جگہ جگہ پھولوں کے ہار  سے استقبال کیاجائےاور دوسرےبے قصورکے لیے طوق و سلاسل اور رکاوٹوں وپابندیوں کا خوف ناک منظرپیش کیاجائے۔ جگر مراد آبادی مرحوم  نے کیاہی خوب کہاتھا  ؎

چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں

کہیں بہار نہ آئے، کہیں بہار آئے

یہ میکدہ کی یہ ساقی گری کی ہے توہین

کوئی ہو جام بکف، کوئی شرمسار آئے

خلوص و ہمت اہل چمن پہ ہے موقوف

کہ شاخ خشک میں بھی پھر سے برگ و بار آئے

تبصرے بند ہیں۔