قرآن مجید کافلسفئہ ’رب‘

قمر فلاحی

رب کے معنی ضروریات کی تکمیل کرنے والا ہوتا ہے اور یہ معنی قرآن مجید میں ہر جگہ مشترک ہے ۔

الشعراء ۱۸ قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ۔[فرعون نے موسی علیہ السلام سے کہا ]کیا ہم نے تمہاری پرورش بچپن میں نہیں کی اور تو کئ سالوں تک ہمارے پاس نہ رہا۔ یہاں پہ رب پرورش اور ضروریات پوری کرنے کے معنی میں ہے ۔

رب کے معنی حرام و حلال ٹھہرانے کا اختیار رکھنے والا بھی ہوتا ہے یہ حق بنی اسرائیل نے اپنے علماء کو دے رکھا تھا اس آیت میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔ اس کی وضاحت حدیث میں کی گئ ہے ۔التوبہ ۳۱ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ۔

اللہ تعالی نے رب کی اضافت مختلف پیرائے میں کی ہے مگردو پیرائے نہایت اہم اور چشم کُشا ہیں:

 اول: رب العالمین، اس کے ذریعہ اللہ تعالی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ کائنات کی ساری چیزوں کی ضروریات پوری کرنے والا صرف اللہ تعالی ہے اور اسی کی ربوبیت سے ایسا ہوتاہے۔

دوم :رب الناس ، اس کے ذریعہ اللہ تعالی نے واضح فرمادیا ہے کہ وہ تمام انسانوں کا رب ہے صرف مسلمانوں اور مومنوں کا رب نہیں ہے ،یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالی کو اپنا رب نہ مانے تو وہ انہیں رزق نہیں دیگا انہیں دنیا میں جینے کا موقعہ نہیں دیگا۔اسی طرح وہ سب کی فریاد سنتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہویا کافر۔

کافروں کو رب کے متعلق اقرار تھا اس لئے کہاگیا کہ ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کا رب کون ہے تو ان کا جواب یہ ہوگا کہ اللہ ۔گویا ان کا عقیدہ اللہ اور رب کے متعلق واضح تھا مگر اس کے ساتھ وہ اللہ اور رب دونوں میں شرکت اور شرک کے قائل تھے ۔جیسا کہ الانعام ۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا  الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ۔{ جو لوگ کفر کرتے ہیں وہ رب کے مقابل میں رب بنالیتے ہیں }

ص۔۵: أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۔ کیا اس نبی نے تمام معبودوں کو ایک کردیا یہ تو عجیب بات ہوئ۔

ارباب بنانے کا عقیدہ باطل ہے اسے اللہ تعالی نے یوں باطل فرمایا:

ال عمران ۶۴قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۔اے اہل کتاب آئو اس کلمہ کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ ذرہ برابر بھی شرک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی  اپنے کسی کو اللہ کے مقابلہ میں رب نہ بنائے ۔

 یوسف ۳۹ : يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۔اے میرے قیدی ساتھیو کیا متفرق ارباب بہتر ہے یا ایک اللہ جو قہار ہے ۔

سورہ یوسف ۴۱[  رب معنی مالک ۔

يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ]

اس آیت میں اللہ تعالی نے رب کی اصطلاح کا استعمال "عزیز مصر” کیلئے کیا ہے یہاں بھی اس کا معنی ضروریات کی تکمیل کرنے والا ہی ہے کیوں کہ بادشاہ رعایاکی ساری ضروریات پوری کرتاہے ۔

رب اللہ تعالی کی ایسی صفت ہے جو سب سے زیادہ قرآن مجید میں مستعمل ہے اس سے زیادہ اور کوئ صفت قرآن مجید میں مستعمل نہیں ہے ۔تمام نبیوں نے اللہ تعالی کو اسی صفت سے پکارا ہے حتی کہ شیطان نے بھی اللہ تعالی کو اسی صفت سے پکارا[الحجر ۳۹ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ] ۔اکثر دعائیں رب سے شروع ہوتی ہیں ۔[ آل عمران ۳۸هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ]

اللہ تعالی کی اس صفت اور انداز قرآن مجید پہ غور فرمائیں کہ وہ رب العالمین ہے ،[1] رب کل شئی ہے [2]،رب العرش العظیم ہے[3]،رب السموات و الارض ہے [4]،وہ رب المشرق و المغرب ہے[5] وہ رب الفلق ہے ، وہ رب الناس ہے[6] ،موسی علیہ السلام کی قوم نے موسی علیہ السلام سے کہا اپنے رب سے پوچھو یہ نہیں کہا کہ اپنے اللہ سے پوچھو[7]۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو[8]،اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمہارا رب فسادیوں سے غافل نہیں ہے [9]،نبی سے فرمایا کہ اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو بلائو[10]۔ فرمایا کہ تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کے مقابلے میں تنہا کافی ہے[11] ۔اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے فرمایا کہ اے موسی میں تیرا رب ہوں اور کوئ صفت استعمال نہیں فرمائ۔[12] سورہ رحمن میں اللہ تعالی نے متعدد دفعہ [جبکہ یہ بلاغت کے خلاف ہے] فرمایا کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے[13]۔کعبہ کا رب [14]۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میرا رب اللہ پھر اس پہ جم جاتے ہیں انہیں نہ کوئ خوف ہے نہ حزن [15]۔جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان سے اللہ راضی ہوگیا۔[16]

حوالاجات:

[1]فاتحہ ۱: الحمد للہ رب العالمین

[2]الانعام ۱۶۴قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلا عَلَيْهَا وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ۔

[3]التوبہ ۱۲۹فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

[4]الاسراء ۱۰۲قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَؤُلاءِ إِلا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا

[5]شعراء ۲۸قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ

[6]أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ   فلق ۱۔الناس ۱قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ

[7]البقرہ ۶۸۔قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لا فَارِضٌ وَلا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ۔

[8]آل عمران ۴۱قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ إِلا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْكَارِ

[9]یونس ۴۰وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ

[10]النحل ۱۲۵۔ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

[11] اسراء ۱۷۔وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا

[12]طہ ۱۲۔إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ۔ القصص ۳۰ فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ۔

[13]الرحمن ۱۳۔ فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

[14]قریش ۳  فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ

[15]الاحقاف ۱۳۔   إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ

[16]البینہ ۸ جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ۔

تبصرے بند ہیں۔