خبر لشکر طیبہ کے حملے کی تھی اور تیاری سناتھن سنستھا نے کر رکھی تھی

ندیم عبدالقدیر

وطن عزیز میں دہشت گردی کی تعریف وقت، موقع اور محل کے اعتبار سے بدلتے رہتی ہے۔ وہ دہشت گردانہ واردات کی بجائے چہرے دیکھتی ہے، نام دیکھتی ہے اور دھرم دیکھتی ہے۔ اس  لحاظ سے ہی تبصرے، تجزیے، مؤقف  اورحکمت عملی طے کی جاتی ہے۔ دہشت گردانہ حملے ، ا ن میں ہونے والی ہلاکتیں، اس سے بکھرنے والے سماج کے تانے بانے اور اس سے لاحق  خطرات، ان سب کے بارے میں سرکاروں کا رخ اور نظریات کا دارومدار دہشت گردوںکے مذہب پر ہوتا ہے۔ سنگھ پریوار ہمیشہ کانگریس کو دہشت گردی کے تئیں نرم رویہ  رکھنے کا طعنہ دیتے رہا  ہے لیکن جب یہی دہشت گردی بھگوا رنگ میں آتی ہے تب دہشت گردوں کے بارے   میںسنگھ پریوار کا مؤقف پوری طرح پلٹ جاتا ہے۔ اُسے دہشت گرد بےقصور اور ان کے خلاف کارروائی کرنے والی حکومت ظالم نظر آنے لگتی ہے۔

 یوم آزادی پر خبر تو لشکر طیبہ کے حملے کی تھی لیکن اس کی تیاری  سناتھن سنستھا  نے کررکھی تھی۔ اے ٹی ایس‘ نےبروقت کارروائی کرکے ایک بڑی دہشت گردانہ واردات کو ٹال دیا ورنہ عین ممکن تھا کہ ترنگے کی چھاؤں تلے لشکر طیبہ کے نام پرسناتھن سنستھا آگ اور خون کا   ناچ ناچتی اور ملک میں ماحول مذہبی بنیاد پر پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوجاتا۔  اے ٹی ایس  کئی دنوں سے ان دہشت گردوں کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ ان کے فون ٹیپ کئے جارہے تھے۔ فون پر ان کی ساری گفتگو کے بعد ہی  اس نے  سناتھن سنستھا پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی۔

دہشت گردوں کا منصوبہ کیا تھا ؟ وہ کہاں حملہ کرنا چاہتے تھے؟   دہشت گردوں نے دھماکہ خیز مادہ کہاں سے حاصل کیا تھا ؟  ان کے ساتھ اور کون کون سے لوگ ملوث  تھے؟ ا ن کے سہولت کار کون کون  تھے؟ ان باتوں کا پتہ لگانا انتہائی ضروری ہے۔ یوم آزادی سے ۵؍روز قبل اور عید الاضحی سے ۱۲؍روز قبل وہ بم تیار کرکے آخر کسے نشانہ بنانا چاہتے تھے؟

’ ہندوؤں میں ڈر‘ ہماری سیاست میں بہت مفید نسخہ ہے۔ یوم آزادی پر لشکر طیبہ کے حملے کی خبر تھی۔ کہیں سناتھن سنستھا کے لوگ لشکر طیبہ کی آڑ میں دہشت گردانہ کارروائی انجام دے کر ہندو ؤں میں خوف کے احساس کوتوانا کرنا تو نہیں چاہتے تھے؟اے ٹی ایس، جانچ ایجنسیوں اور تحقیقاتی اداروں کے پاس کرنے کیلئے ڈھیر سارے کام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ آزادانہ طور پر یہ کام کرپائیں گے؟  چونکہ معاملہ سناتھن سنستھا  کاہے اسلئے آگے کیا ہوگا اس میں بارے میں کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔  وہی ہندی نیوز چینل جو دہشت گردی کی اس طرح کی خبر   پر جوش ِ وطن پرستی  میں بے قابو ہوجاتےہیں، ان پراس خبر سے حب الوطنی  کی کوئی بھی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کی معمولی سی بھنک سے ہی   ماسٹر مائنڈ اور ساری سازش کا پتہ لگالینے والے  ہندی نیوز چینلز، سناتھن سنستھا کے اِس معاملے میں پولس کے بیان   اور عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرتے نظر آئے۔

 کسی بھی ہندوانتہا پسند تنظیم کے خلاف کچھ کہنا اور کارروائی کرنا  ہمارے ملک میں خطروں سے بھری راہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ ہندوانتہاپسندوں  کے دفاع  میں اتنی بڑی بڑی  طاقتیں میدان میں اتر آتی ہیں کہ جن سے لڑنے  کی تفتیشی ایجنسیوں میں ہمت ہوتی ہے، نہ  طاقت اور نہ ہی اختیار۔

سناتھن سنستھا پر دہشت گردی کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی دہشت گردانہ وارادتوں اور قتل میں یہ  تنظیم ملوث رہی ہے نیز  نچلی عدالتوں میں اس کے دہشت گردقصور وار بھی پائے گئے، لیکن بھگوا دہشت گردی کا معاملہ جیسے  ہی اعلیٰ سطح کی طرف سفر کرتا ہے تو تفتیشی ایجنسیوںاور پولس کے ہاتھ پاؤں شل ہونے لگتےہیں۔

۲۰۰۸ء میں اس تنظیم کا نام اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب اس نے فلم جودھا اکبر اور ایک مراٹھی ڈرامہ کی مخالفت میں تھیٹروں میں دھماکہ کیا تھا۔ اس معاملے میں تنظیم کے ۶؍دہشت گرد گرفتار ہوئے تھے۔  نچلی عدالت نے ان میں سے دو دہشت گردوں کو قصور وار بھی پایا   تھا۔ اس کے بعد ۲۰۰۹ء میں سناتھن سنستھا  کا نام  گوا کے مڈگاؤں میں ایک چرچ    بم دھماکہ میں  آیا۔  دو دہشت گرد    اُس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب وہ  آتشیں مادہ  لے کر اسکوٹر پر جارہے تھے اور آتشی مادہ میں دھماکہ ہوگیا تھا۔

فروری ۲۰۱۵ء میںپولس کو فون ٹیپ ملا تھا جس میں سنستھا کا رکن گائیکواڑ، نریندر دابھولکر کے قتل کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ نریندر دابھولکر کے قتل معاملے میں سنستھا کے اس دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

 ۲۰۱۵ء میں گو ا کے بی جےپی کے ایم ایل اے’ وشنو واگھ‘ نے سناتھن سنستھا پر پابندی لگانے کی مانگ کی تھی لیکن اس کے اگلے دن ہی گوا کے وزیر اعلیٰ نے  اس دہشت گرد تنظیم پر پابندی لگانے سے صاف انکار کردیاتھا۔ بھگوا دہشت گردی کے معاملات میں سناتھن سنستھا تنہا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہندو جن جاگرن سمیتی، دھرم شکتی سینا، ابھینو بھارت، سنجے بھیڑے کی شیو پرتشٹھان اور ان جیسی دیگر انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ ساری تنظیمیں ایک دوسرے کے رابطے میں رہتی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ یہی وہی تنظیمیں ہیں جنہوں نے مالیگاؤں  ، مکہ مسجد، اجمیر درگاہ اور سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے کئے تھے۔

 ۲۰۱۱ء میںمہاراشٹر، گوا اور کرناٹک ریاستوں نے مرکزی حکومت کو تحریری درخواست دی تھی کہ وہ سناتھن سنستھا پر پابندی لگادے کیونکہ تنظیم دہشت گردانہ وارداتوں میں ملوث ہے۔ اُس وقت حیرت انگیز طور پر سب سے پہلے ’بھگوا دہشت گرد‘ کا لفظ استعمال کرنے والے چدمبرم نے بحیثیت وزیر داخلہ سناتھن سنستھا پر پابندی لگانے کی اس درخواست کو یہ کہہ کرمسترد کردیا تھا کہ تنظیم کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔

بی جےپی حکومت کے سامنے جب اس تنظیم پر پابندی لگانے کی بات آئی تو دیویندر فڈ نویس نے  کہا کہ اگر سناتھن سنستھا کے خلاف ٹھوس ثبوت پائے گئے تو حکومت اس پر پابندی لگانے سے نہیں ہچکچائے گی۔ گویا کہ اب تک اس کے خلاف جتنے بھی ثبوت، جتنے بھی فون ٹیپ اور جتنے بھی ای میل ملے ہیں وہ ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔

ان سب تناظر میں اس بات کے امکانات کافی معدوم ہیں کہ حکومت سناتھن سنستھا کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھا نے کی جرأت کا مظاہرہ کرپائے گی۔ ویبھو راؤت اور سناتھن سنستھا کے دیگر دو دہشت گردوں کی کہانی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے،  جسے کبھی بھی کوئی بھی موڑ دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں دہشت گردی اسی وقت مسئلہ بنتی ہے جب اس کے ساتھ مسلمان کا نام جڑا ہو، بصورت دیگر یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا  ہے۔ اس معاملے میں بھی دہشت گردوں کی حمایت میں ایسی طاقتیں آجائیں گی جن کے آگے تحقیقاتی ایجنسیوں کے دست و پا ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ ہمارے یہاں دہشت گردانہ حملے اور ان میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں نہیںدیکھی جاتی ہیں بلکہ  دہشت گردوں کے چہرے، نام اور مذہب دیکھے جاتےہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔