جنید جمشید کی شہادت مسلم گلوکاروں و اداکاروں کے لیے سبق آموز

 آفتاب اظہر صدیقی

    پاکستانی گیت و سنگیت کی دنیا کا ٹاپ کا گلوکار، جو اپنی مسحور کن آواز کے جادو سے ہزاروں دلوں میں رقص و مستی کا کرنٹ بھر دیا کرتا تھا، جس کی زندگی کا ایک قیمتی عرصہ گانے بجانے اور دنیا سجانے میں گزر گیا تھا ؛ لیکن جب اللہ نے اسے توفیق دی اور وہ تبلیغی جماعت سے منسلک ہوا تو اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ جس روحانی سکون کی تلاش میں وہ دنیا کے تمام آلاتِ عیش آزما چکا تھا، جو قلبی طمانیت اسے بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں میسر نہیں آئی تھی، وہ سکون و قرار اسے تبلیغی جماعت میں چار ماہ کے لیے نکل کر ایک چھوٹی سی مسجد کی پھٹی پرانی چٹائی پر لیٹ کر حاصل ہوا.
قرآن نے اسی بات کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے
"الا بذکر اللہ تطمئن القلوب”
(جان لو کہ اللہ کی یاد میں ہی دلوں کا سکون ہے)
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
جنید جمشید تبلیغی جماعت سے منسلک ہوا تو اپنی گناہوں والی زندگی پر پشیمان ہوا اور اپنا پہلا پروفیشن چھوڑ دیا؛ مولانا طارق جمیل صاحب کی مخلصانہ وعظ و نصیحت سے فیضیاب ہوکر ان کا قریبی ہوگیا، پھر اس کی زندگی میں وہ انقلاب آیا کہ پورے عالمِ اسلام میں مقبول ہوگیا، گیت اور گانے چھوڑ کر  حمد و نعت گنگنانے لگا، ہاتھ میں گٹار کی جگہ تسبیح آگئی، چہرے پر پُر نور داڑھی، بدن پر سنتی لباس، اس نے خود میں ایسی تبدیلی اور بلندی پیدا کی کہ دوسرے بھی اسے دیکھ کر سنورنے لگے.
وہ اخلاق کا غنی، محبت کا دھنی اور بہترین صفات کا حامل تھا، وہ علماء کا قدردان اور دین کا داعی تھا؛ کل گذشتہ جس جہاز کے گر کر تباہ ہونے کی خبر ملی اس میں یہ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ سوار تھا، جنید جمشید کی اس طرح اچانک حادثاتی شہادت نے اس کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں کا قرار چھین لیا، قریبی تعلق داروں کو اس خبر پر یقین کرنا دشوار ہوگیا، مولانا طارق جمیل صاحب کی روتے ہوئے ہکہکی بندھ گئی، گڑگڑاکر دعا کرنے لگے، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر جنید جمشید کی شہادت کے بعد سوگواری کا منظر دیکھنے کو ملا، ہر جاننے نہ جاننے والے کی زبان سے دعائیہ کلمات ادا ہوئے؛ سچی بات ہے کہ جس نے اللہ سے لو لگا لیا ساری دنیا اس کو محبوب بنا لیتی ہے، جنید جمشید کو اتنی دعائیں کس لیے ملیں؟ اسے لاکھوں لوگوں نے کیوں یاد کیا؟ کیوں اس کے لیے عقیدتوں کا اظہار کیا؟ صرف اس لیے کہ اس نے اپنی دنیا بدل ڈالی تھی، اس نے نفس پروری کی راہ چھوڑ کر اللہ اور رسول سے اپنا تعلق جوڑ لیا تھا، یقیناً اس کی شہادت ان تمام فلمی اداکاروں، گلوکاروں، کرکیٹروں اور دنیا داروں کے لیے – جو اپنے پاس مسلمانی حسب و نسب اور مسلمانی نام کے علاوہ دین اسلام کی کوئی شناخت نہیں رکھتے – ایک سبق ہے: ایسا سبق جو ان کی زندگیوں میں بھی انقلاب لانے کے لیے کافی ہے، انہیں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جس سکون کے پیچھے وہ دن رات پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں وہ محض جسمانی سکون ہے اصل سکون روح کا سکون ہے جو اللہ کے دین کو اپنا کر حاصل ہوگا، پھر ایسا بھی نہیں کہ زندگی کا رخ بدلنے سے شہرت یا مقبولیت کم ہوجائے گی؛ بلکہ اگر وہ دین داری کی طرف قدم بڑھائیں تو ان کی قدر و منزلت اور بڑھ جائے گی، ابھی جو لوگ صرف ان کی دل لبھانے والی صلاحیتوں سے پیار کرتے ہیں پھر وہی لوگ ان کی ذات سے سچی محبت کرنے لگیں گے، پھر ان کے چاہنے والے صرف ایک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہوں گے، آسمانوں پر بھی ان کی نیک نامی کے چرچے ہوں گے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ لیں، دنیا کی شہرت باقی رہنے والی نہیں ہے، نہ یہاں کا رتبہ پائیدار ہے، نہ یہاں کی زندگی مستقل؛ تو کیوں نہ اُس دنیا اور اُس زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی جائے جہاں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے، ورنہ اگر یہ زندگی یوں ہی گزر گئی تو دنیا بھر کی شہرت خاک ہے، ہر طرح کی قابلیت موت کے جھٹکے کے ساتھ ہی دم توڑ دیگی، دعا کرنے والے بھی کشمکش میں رہیں گے کہ ایصال ثواب کا کیا طریقہ ہو، جو ساری دنیا کو فلموں، گیتوں کے تحفے اور گناہوں کے بے شمار پروگرامز دے کر گیا ہے اس کے لیے کون کس منھ سے ثواب کی دعا کرے گا؟ ہاں! اللہ کے فضل سے ناامید تو نہیں ہوا جا سکتا؛ لیکن اللہ کے بھی اصول مقرر ہیں وہ جہاں فرماں برداروں کو نوازتا ہے وہیں نافرمانوں کے لیے سخت سزاؤں کا اعلان بھی ہے.
جنید جمشید کی زندگی اور اس کی شہادت تمام دنیا کے مسلم اسٹاروں کے لیے نہایت سبق آموز ہے.
اللہ پاک شہید جنید جمشید اور اس کی اہلیہ و تمام مسلم مسافرین کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے.
آمین یارب العٰلمین
کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔