اُس کا خیال دل میں اُترتا چلا گیا

راجیش ریڈی

اُس کا خیال دل میں اُترتا چلا گیا
میرے سخن میں رنگ وہ بھرتا چلا گیا

اِک اعتبار تھا کہ جو ٹوٹا نہیں کبھی
اِک انتظار تھا جو میں کرتا چلا گیا

ٹھہرا رہا وداع کا لمحہ تمام عمر
اور وقت اپنی رَو میں گذرتا چلا گیا

جتنا چھپاتا جاتا تھا میں اپنے آپ کو
اتنا ہی آئینے میں اُبھرتا چلا گیا

مجھ کو کہاں نصیب تھی موت ایک بار کی
آتا رہا وہ یاد میں مرتا چلا گیا

اُلجھا کے چار دانوں کے چکر میں رات دن
کوئی مرے پَروں کو کترتا چلا گیا

یکجا کبھی نہ ہو سکا میں اپنی ذات میں
خود کو سمیٹنے میں بکھرتا چلا گیا

 

تبصرے بند ہیں۔