پراڈکٹ کی فری پبلسٹی کا حصہ بنتے لوگ

عادل فراز
فلم ساز اور اداکار ہمیشہ فلم کی تشہیر کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپناتے ہیں ۔کبھی فلم کے کسی منظر میں ہیروئین کو بنا کپڑوں کے دکھاکر ہنگامہ کیا جاتاہے اور کبھی شہوت انگیز مناظر فلماکر ناظرین کو سنیما گھروں تک کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔وقت کے ساتھ ہر ہتھکنڈا پرانا اور بے مطلب ہوتاجاتاہے لہذا نئے طریقے سوچے جاتے ہیں تاکہ فلم کو بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر فلم سازاور اداکار مذہبی جذبات کا بھی احترام نہیں کرتے ۔جبکہ وہ اس منظر کی عکس بندی کے وقت ہی یہ جانتے ہیں کہ اس مسئلہ پر ہنگامہ ضرور ہوگا ۔اسی متوقع ہنگامہ کی بنیاد پر ایسے مناظر رکھے جاتے ہیں تاکہ فلم زیادہ مشہور ہو اور لوگ اپنی گاڑھی محنت کی کمائی خرچ کرکے اس ایک منظر کی وجہ سے فلم دیکھیں ۔چونکہ ہندوستا نی عوام مذہبی معاملات میں حد سے زیادہ جذباتی واقع ہوئے ہیں اس لئے وہ ان سازشوں اور منصوبوں کا زیاہ شکار ہوتے ہیں ۔
مذہبی مسائل کو سب سے زیادہ دو حالیہ فلموں میں اٹھا یا گیا تھا ۔ایک ’’ پی کے ‘‘ اور دوسری فلم ’’اوہ مائی گاڈ‘‘ تھی ۔بظاہر دونوں کا موضوع ایک تھا مگر کچھ دونوں فلموں کے کچھ امتیازات بھی تھے ۔دونوں فلموں پر ہندو دھرم کے ماننے والوں نے کافی ہنگامہ کیا ۔میڈیا بھی پوری طرح دونوں فلموں کے خلاف کمر بستہ نظر آیا کیونکہ میڈیا والے بھی کسی نا کسی دھرم کے پیرو کار ہوتے ہیں اور کوئی نا کوئی دھر م گر و انکے چینل کے پیچھے ہوتاہے ۔مسلمان ان دونوں فلموں پر تماش بین نظر آئے جبکہ دونوں فلموں میں ایک دو باتیں ایسی تھیں کہ اگر مسلم دھر م گرو چاہتے تو اپنی مردہ تنظیموں کو دوبارہ زندہ کرسکتے تھے ۔چونکہ ان فلموں میں براہ راست مسلم نظریات کو نشانہ نہیں بنا یاگیا تھا لہذا انکی طرف سے کوئی واضح رد عمل بھی سامنے نہیں آیا ۔مگر بجرنگ دل ،ویشو ہندو پریشد اور ایسی درجنوں تنظیموں کی جنم داتا آرایس ایس نے کافی شور و غل مچایا ۔کیونکہ اپنے گمان میں یہی تنظیمیں ہندوستان میں ہندو دھر م کو ری پریزنٹ کرتی ہیں ۔
حال ہی میں شاہ رخ کی فلم’’ رئیس‘‘ کا ٹریلر ریلیز ہوا ہے ۔ٹریلر میں شاہ رخ خان کو جلوس عزا میں موجود علموں کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیاہے ۔اس منظر کو لیکر ایک بار پھر ہنگامہ کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ہوسکتاہے مسلم رہنما مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر چپ رہیں کیونکہ یہاں مسئلہ شیعہ و سنی کا پیدا کردیا جائیگا ۔ہم سب جانتے ہیں کہ شاہ رخ خان کا فلمی کیریر اس وقت زوال پذیر ہے ۔اداکار خود کو زندہ رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے ۔اسکی زندگی اسی وقت تک ہے جب تک وہ سنیماہال کے پردہ پر جلوہ گر ہے اور ناظرین اسے دیکھ کر محظوظ ہورہے ہیں ۔شاہ رخ خان نے اس بار شہرت کے لئے اپنے زعم میں نیا طریقہ ایجاد کیاہے تاکہ فلم کی مخالفت زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کا ذریعہ بنے ۔چونکہ ہم ہمیشہ ایسی سازشوں کا حصہ بنتے آئے ہیں لہذا فلم کی مخالفت کا سلسلہ سوشل میڈیا پر شروع ہوچکا ہے ۔عقیدت مند افراد اس مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لے رہے ہیں ۔جبکہ مخالفت سے زیادہ ضروری یہ سوچنا ہے کہ کس طرح ایسی کوششوں کو ناکام بنایا جائے ۔
آخر شاہ رخ خان کی فلم ’’ رئیس ‘‘ کے اس متنازع سین پر ہی ہم کیوں بیدار ہوئے ہیں ؟ہم اس وقت کہاں تھے جب اجے دیوگن کی فلم ’’ قیامت‘‘ میں دو دہشت گرد بھائیوں کے نام علی اور عباس رکھے گئے تھے ۔کیاعلی اور عباس جیسے نام ایک مخصوص مسلک کے مذہبی نام ہیں ۔علی ؑ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ کا نام ہے اور عباس رسول اسلام ؐ کے چچا کا نام تھا ۔کتنی فلمیں ایسی ہیں جن میں دہشت گردوں اور غنڈوں کے نام مذہبی ہیروز کے نام پر رکھے گئے ہیں ۔اس طرح ان ناموں کو دنیا میں مشکوک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔وہ بچے جودہشت گردوں کے نام اسلامی ہیروز کے ناموں پر دیکھ کر بڑے ہوتے ہیں کیا وہ کبھی ان ناموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے ؟اگر ہمارے معاشرہ میں کوئی اس نام کا شخص ہوگا تو کیا وہ اسے مشکوک نہیں سمجھیں گے ؟مگر ہمار بہانہ ہوتاہے کہ آیا عالمی سطح پر ایسے ناموں کے حامل افراد دہشت گردی نہیں پھیلارہے ہیں ؟سوال یہ بھی پیدا ہو تاہے کہ آیا عالمی سطح پر صرف مسلمان ہی دہشت گردی میں ملوث ہیں ؟ کتنی فلمیں ایسی ہیں جن مین زبیر ،عثمان ،عمر ،احمد ،علی ،عباس ،حسین اور دوسرے مذہبی ناموں کو دہشت گردوں اور غنڈوں سے منسوب کیا گیاہے ۔مگر اس وقت ہم مسلمان نہیں ہوتے بلکہ شیعہ و سنی ہوتے ہیں اور اسی تناظر میں ان چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔
ہم اس وقت کیوں مخالفت نہیں کرتے جب مسلکی نظریات سے اوپر اٹھ کر ہدایتکار اسلامی آئیڈیالوجی کو نشانہ بناتے ہیں ۔فلم ’’ قربان ‘‘ اور ’’ مائی نیم از خان‘‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔’’ قربان ‘‘ میں دکھاگیا گیا تھاکہ ہر مسلمان خواہ وہ دہشت گرد ہو یا نا ہو مگر اسکا مزاج تشدد پسند انہ ہو تاہے ۔’’ مائی نیم از خان ‘‘ میں خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے شاہ رخ خان ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے امریکی صدر براک اوباما سے اپنی بے گناہی کی سند لینے جاتے ہیں ۔فلم کا ایک واحد مقصد تھاکہ ہر مسلمان کو بے گناہی کا سرٹیفکٹ فقط امریکہ دے گا ۔کہا یہ بھی جاتاہے کہ ان دونوں فلموں پر اسرائیل کا پیسہ لگا تھا مگر ہم ہر سازش کے لئے اسرائیل کو ذمہ دار ٹہراکر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔
ہم اس وقت کہا ں تھے جب فلم ’’ پی کے ‘‘ میں خدا کا مخول بنا یا جارہا تھا ۔اگر مخالفت مسلکی بنیاد پر ہی کی جانی چاہئے توکیا ہر مسلک کا خدا بھی الگ ہے؟ ۔فلم میں شیعہ و سنی دونوں کے عقائد کا مذاق بنایا گیا تھا ۔مگر اس وقت شیعہ حضرات خوش تھے کہ فلم میں زنجیر کا ماتم دکھایا گیا ہے اور عامر خان زنجیر زنی کررہے ہیں ۔اس مسئلہ پر کسی نے غور نہیں کیا کہ آخر اس سین کو فلم میں رکھنے کیا ضرورت تھی ؟اس سین کا مقصد کیا تھا ؟اور کیوں عامر خان زنجیر کا ماتم کرنے کے بعد بھی خدا کی تلاش میں خود کو ناکام پاتاہے ۔مگر ہمارے مسلکی اختلافات ان مسائل پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔
ایسی سیکڑوں فلموں کی مثالیں ہیں جن میں مذہبی جذبات کو بھڑکا کر سستی شہرت حاصل کی گئی ۔کبھی خدا کے وجود پر سوال اٹھائے گئے اور کبھی جنت و جہنم کو صرف ایک خوف کا تصور بتایا گیا ۔کبھی مسلمانوں کو دہشت گرد دکھا کر تنازعات کو جنم دیا گیا تو کبھی قرآن کی آیات کا غلط مفہوم پیش کیا گیا ۔ہر طرح کی مثالیں ہندوستانی فلموں میں میں مل جاتی ہیں ۔کچھ ایسی ہیں جن پر واویلا مچایا گیا اور کچھ فلموں کی متنازع باتیں سامنے ہی نہیں آسکیں ۔کیونکہ ہم اسی وقت ان چیزوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں جب ہمیں کھڑا کیا جاتاہے ۔ورنہ ہم ہر فلم کو انٹرٹینمنٹ سمجھ کر دیکھتے ہیں اور پھر بھو ل جاتے ہیں ۔
ضروت اس بات کی ہے کہ ہم ’’پراڈکٹ پبلسٹی ‘‘ کا حصہ نہ بنیں ۔اگر فلم کے کسی ڈائیلاگ یا سین پر اعتراض ہے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔سڑکوں پر اور سوشل میڈیا پر احتجاج کرنا ان فلموں کی تشہیرکا ذریعہ بنتا ہے ۔ایسا ذریعہ جس پر فلم سازوں کو ایک روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔اسکی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ مختلف دھرم کے لوگوں نے عدالت میں جاکر قانونی چارہ جوئی کی اور فلم پر پابندی عائد کی گئی ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔