موت سے کس کو رستگاری ہے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی
موت انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے۔جب انسا ن کا وقتِ مقرر آجاتا ہے تو پھر ایک لمحہ کے لئے نہ آگے ہوسکتا ہے اور نہ پیچھے ہوسکتا ہے ،اور موت سے بچ کر انسان بھاگ بھی نہیں سکتا وہ جہاں بھی ہو موت اس کو آدبوچ لیتی ہے ۔یوں تو دنیا میں روز ان گنت پیدا ہوتے اور بے شمار مرتے ہیں ،حادثے بھی ہوتے ہیں اور دل دہلادینے والے واقعات بھی پیش آتے ہیں ،لیکن اس میں کچھ بھی لوگ ہوتے ہیں کہ جن کی موت انسانوں کے لئے غم و الم کا سبب بن جاتی ہے اور صرف ایک خاندان و کنبہ سوگوار نہیں ہوتا بلکہ ایک جہاں حزن وملال میں ڈوب جاتا ہے۔چناں چہ ایک ایسا ہی واقعہ ۷ڈسمبر کو پڑوسی ملک میں پیش آیا ،کہ چترال سے اسلام آباد آنے والی ایک ہوائی جہاز حویلیاں نامی علاقے کے پہاڑوں میں شعلہ پوش ہوگئی اور تقریبا48 افراد جاں بحق ہوگئے ،ان میں ہلاک ہونے والوں میں عالمِ اسلام کے ایک معروف نعت خواں ،ثناخوانِ رسول ،داعی اسلام جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ شہید ہوگئے ۔
جنید جمشید کی شہادت کا المناک واقعہ ہر اس آدمی کو متاثر کرگیا جس نے بھی ان کی پر سوز آواز میں نعتِ رسول سنی ہے یا انہیں وہ پہلے سے جانتاہے۔جنید جمشید ایک مشہور گلوکار تھے ،اور پورے ملک میں اپنی مسحور کن آواز کی وجہ سے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے ،عیش و عشرت اور زندگی کی تمام تر رعنائیاں ان کے پاس موجود تھیں ،لیکن دل کی بے قراری اور روح کی بے اطمینانی نے انہیں گناہوں کے دلدل سے نکال کر اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے سایہ میں لے آیا ،معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل صاحب کے ذریعہ اللہ تعالی نے ان کو محبتِ رسول سے سرشار کیا اور دینِ اسلام کا ایک عظیم مبلغ بنادیا ،انہوں نے جب سے گانے بجانے سے توبہ کی تو اپنی پوری زندگی کو تبلیغِ دین اور اشاعتِ اسلام کے لئے وقف کردیا ،دنیا کے چپہ چپہ میں اور مغرب کی وادیوں میں پہنچ کر ایمان و اسلام کی صداؤں کو بلند کیا ،اور خداجانے کتنے انسانوں کی اصلاح اور ایمان کا ذریعہ بنے۔
جنید جمشید کو اللہ تعالی نے غیر معمولی آواز اور خوش الحانی سے نواز اتھا ،جس آواز سے پہلے وہ گانے گایا کرتے تھے ،اسی آواز کو پھر انہوں نے نبی ﷺ کی محبت کو عام کرنے اور دلوں میں جذبہ عشق ومحبت کو بھڑکانے میں لگادیا ،اور نعت خوانی کا ایسا اعلی نمونہ پیش کیا جو ان کا ہی امتیاز تھا ۔وہ جہاں جاتے اور جس مجلس ومحفل میں بیٹھتے وہاں ضرور نعتِ رسول سناکر محفل کو گرماتے اور شررِ عشق کو بھڑکاتے۔منفرد لب ولہجہ ،جداگانہ طرز واسلوب اور مخصوص اندازمیں نعت خوانی ان کی خصوصیت رہی۔بے شمار نعتیں ہیں جو آج بچے بچے کی زبان پر جاری ہے جسے جنید جمشید نے پڑھاہے اور اچھوتے والبیلے انداز میں پڑھنے کا طریقہ دیا۔ جنید جمشید کی شہادت سے نعت خوانی کے ایسے دور کا خاتمہ ہوگیا جس کے وہ خود موجد تھے اور جنہوں نے نعتِ رسول ﷺ کو ایک متاثر کن طریقہ پر شروع کیا تھا۔اللہ تعالی نے ان کی آواز میں غیر معمولی کشش اور خاذبیت رکھی تھی ،سوزِ دل اور جذبۂ اندروں کے ساتھ وہ پڑھتے تھے ،پورا ڈوب کر اور محبتِ رسول سے سرشا ر ہوکر پڑھتے تھے۔
اس حادثہ سے یقیناًدنیا سے ایک عظیم ثنا خوان رسول ،محبِ نبی ،پیروکار اسلام ،داعی دین کا خلا ہوگیا۔خدا کے دین کی تبلیغ اور اصلاحِ امت کی فکر سے وہ اپنے گھر سے نکلے اور واپس ہونے سے پہلے ہی خدا کے حضور پہنچ چکے ،گناہوں سے توبہ تائب ہوکر،محبتِ رسول سے دلوں کو گرماکر ،نغمۂ محمدی کو گنگناکراور اپنا فریضہ اداکرکے چل بسے۔جنید جمشید کی زندگی ان تمام لوگوں کے لئے بطو رِ خاص ایک سبق آموزنمونہ ہے جو گانے بجانے اور فلموں کی دنیا میں مست مگن رہتے ہیں۔ان کی زندگی اس کی بے حیثیتی کو واضح کرتی ہے،دل کاسکون اللہ تعالی نے اپنے دین اور نبی کی تعلیمات میں رکھا ہے ،ناچ گانے ،موسیقی کے آلات اور محفلِ جشن و طرب میں انسان کی روح کبھی سکون نہیں پاسکتی ،مال ودولت کے انبار بھی انسان کو وہ اطمینا ن نہیں دلاسکتے جو اتباعِ سنت میں ملتا ہے۔انسان دنیا میں ایک دن مرنے کے لئے آیا ہے ،آج وہ گیا تو کل ہماری باری ہوگی ،سعادت والی موت اس کی ہے جو دنیا سے خداکو راضی کرکے گیا ،جنت اس کے استقبال کے لئے تیار ہے جو خواہشات کو مٹاکر سنتوں کو زندہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں جی جائے۔بخشش اور مغفرت کے پروانے ان کے لئے ہیں جو دنیا میں رہ کرآخرت کاتوشہ تیار کرلیتے ہیں۔آج جنید جمشیدکو جو یاد کیا جارہا ہے اور ہر طرف ان کی موت پر افسوس کیا جارہا ہے وہ اس لئے نہیں کہ اچھے گلوکار تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو بدلا اور ایسے اپنے آپ کو بنایا کہ دوسروں کے لئے نشانِ پیغام بن گئے۔ایک نعت خواں ،ایک مبلغ اور ایک دین کے داعی کی حیثیت سے ان کے چلے جانے پر غم کیا جارہا ہے۔ورنہ تو مرنے والوں میں اور بھی بہت سے لوگ تھے جن میں بڑے افسران بھی تھے لیکن کہیں ان کا تذکرہ نہیں ۔۔۔یہی چیز انسانوں کو پیغام دیتی ہے کہ جو خدا کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالی انسانوں کے دلوں میں ان کی محبت بٹھادیتا ہے اب چاہے دنیا کے کسی خطہ کا رہنے والا کیوں نہ ہولیکن اس کی موت پر پوری دنیا اشک بار ہوجاتی ہے۔انسان کمیوں سے پاک اور عیبوں سے بری نہیں ہوسکتا ،لیکن اس کی اچھائیاں اور خوبیاں زندہ رہ جاتی ہیں،اور وہ چلا جاتا ہے مگر اس کے بلند اخلاق کے تذکرے ،خوش مزاجی کی باتیں اور انسانی خیر وبھلائی کی فکریں ہمیشہ باقی رہ جاتی ہیں۔انسان اگر خود کو بدلنا چاہیے اور اصلاح کی فکر کرنا شروع کرے تو پھر رحمتِ الہی بھی اس کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے ،اور خودی نہ چاہے تو پھر ہزار بہانے اور باتیں بناکر دامن کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک سبق یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کی فکر کریں ،چمکتی ہوئی روشنیاں اور آنکھوں کو خیرہ کردینی والی برقیاں دلوں میں روشنی اور نور نہیں پیدا کرسکتی ہیں ،دلوں میں نور تو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے آتا ہے ،مردہ دل تو نبیﷺ کی ہدایات پر چلنے سے زندہ ہوتے ہیں۔موت کسی کو بھی اورکبھی بھی آسکتی ہے اس لئے اس کی تیار کی فکر کرنا یہ ہر انسان اور مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔طرزِ زندگی کو بدل کر اعما لِ صالحہ کی فکر ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے شاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔