مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

سید آصف ندوی

سوشل میڈیا پر جیسے ہی اس خبر پر نظر پڑی کہ تبلیغی جماعت کے فعال و متحرک کارکن اور حضرت مولانا طارق جمیل صاحب کی محنت کا لگایا ہوا شجر سایہ دار مداح رسول صلی الله علیہ وسلم جنید جمشید ایک فضائی حادثے میں شہید ہوگئے ہیں. تو یوں محسوس ہوا گویا مجھے سانپ سونگھ گیا ہو، دل رنج و الم اور حزن و ملال سے بھر آیا، کچھ ساعت کے بعد جب میں اپنے حواس پر قابو پاچکا تو انا للہ کے بعد حدیث مبارک کا مفہوم دل و دماغ میں چھا گیا جو کچھ اسطرح ہے "آنکھ آنسو بہاتی هے، دل غمگین هے لیکن زبان سے وہی نکالیں گے جو همارے رب کو منظور هو”

فیم اور شوبز کی (مصنوعی) چمکتی دمکتی اور رنگین دنیا کو ایسے وقت ٹھوکر مارنا جبکہ وہ قدموں میں آپڑی ہو، کوئی معمولی مجاہدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ کسی بھی طرح جہاد سے کم نہیں کیونکہ نفس سے معرکہ آرائی کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے. یقینًا جنید جمشید نے اس معرکے کو نہ صرف سر کیا بلکہ اس پُرفریب بظاہر رنگین و خوشنما (بباطن متعفن و بدبودار) دجالی تہذیب کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر اپنے رب کے حضور یوں گویا ہوا

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجزوندامت ساتھ لایاہوں

بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالاہے

متاع دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکونِ قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر

لٹا کر ساری پونجی غفلت و نسیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں

اور ایسا سہارا اس بندۂ خدا نے لیا کہ اپنی بقیہ تمام زندگی “مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رسن” کے جذبے سے سرشار ہوکر راہ ہدایت کی دعوت و تبلیغ میں گذاردی اور اسی مبارک کام سے واپسی کے دوران شہادت جیسی قابل رشک اور عظیم سعادت سے بھی سرفراز ہوگیا. عاش سعیدا ومات سعیداً. حدیث مبارک کے الفاظ ہیں "من خرج في سبيل الله فخر عن دابته فمات فقد وقع أجره على الله” جو راہ خدا میں اپنی سواری سے گرکر فوت ہوجائے تو اللہ اس کو بھی (شہادت کے مقام اور) اجر سے نوازیگا“. اور یہ بھی ہم نے پڑھا ہے کہ “اللہ کی راہ میں نکلنے والا جبتک پلٹ کر اپنے گھر نہیں آتا وہ اللہ ھی کے رستے میں شمار ھوتا ھے،، اور جو خبریں میری نظر سے گذری ہے اس کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ انشاءاللہ جنید جمشید کے نامۂ اعمال میں راہ خدا میں محنت کرنے کا اجر تا قیامت لکھا جاتا رہیگا.

جب کبھی کوئي ایسا حادثاتی سانحہ سننے یا دیکھنے میں آتا ہے، یا کسی ایسی چاک و چوبند اور فعال و متحرک شخصیت کے قزاق اجل کا شکار ہونے کی اطلاع ملتی ہے جس کی مہکتی زندگی سے اس چمنستان حیات کو مزید معطر کرتے رہنے کی امید ہوتی ہے، یا میرا کوئي ہمنام بھی داعئ اجل کو لبیک کہتا ہے تو میرا ضمیر میرے نہاں خانۂ دل سے یہ صدا لگاتا ہے کہ "سید آصف ندوی” ہوشیار باش، یہ تو کچھ کام کرگئے، آخر تیری یہ مدہوشی اور یہ بے فکری تا بکجا ………….

دست بدعا ہوں کہ ائے زندگی و موت کے مالک جسطرح آپ نے جنید جمشید کی زندگی کو کروڑوں مدہوش و خوابیدہ دلوں کو باہوش و بیدار ہونے کا ذریعہ بنایا ہے اسی طرح اس کی موت کو بھی ہمارے دلوں میں آپ کی خشیت اور آپ کی طرف رجوع اور آخرت کا استحضار پیدا ہونے کا ذریعہ بنادیجئے ، جنید جمشید اور حادثے کا شکار ہونے والے تمام ہی مسافرین کی مغفرت فرمادیجئے اور ان تمام ہی کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیے(آمین)

بہرحال مرحوم جنید جمشید کیلئے یہی کہونگا:

جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

تبصرے بند ہیں۔